• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اور تو اور وہ صحافی بھی جو بھٹو کے عدالتی قتل پر بغلیں بجاتے نہیں تھکتے تھے، بلاول بھٹو سے ملتے ہوئے اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔ بہت سوں کی آنکھیں پُرنم تھیں اور مجھ میں حوصلہ نہ تھا کہ میں بی بی کے بیٹے سے ہاتھ ملانے کو آگے بڑھوں۔ ذوالفقار علی بھٹو سے بے نظیر بھٹو تک میں اُن کے آفتاب طلوع اور غروب ہوتے دیکھ چکا ہوں۔ اور بھٹوکا رزمیہ ہے کہ تاریخ کے اسٹیج سے ہٹنے کو نہیں۔ عجب خونچکاں داستان ہے اور اس کی نوحہ گری کرتی جیالے عزاداروں کی فوج ظفر موج۔ لاہور میں 49 برس بعد پھر سے اسٹیج لگایا گیا تھا (اور ابھی بھی لگا ہوا ہے) اور شہیدوں کے وارث کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو لوگ جوق در جوق ملک بھر سے چلے آ رہے ہیں۔ پارٹی شاید ابھی ختم نہیں ہوئی اور جیالوں کا اصرار ہے کہ ’’پارٹی تو ابھی شروع ہوئی ہے‘‘۔ بھٹوز کی تیسری پیڑھی کے نئے شہسوار بلاول بھٹو زرداری نے پھر سے پیپلز پارٹی کی عوامی جڑیں بحال کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور وہ بھی پوش ٹائون کے بلاول ہائوس میں قلعہ بند ہو کر۔ میرے دوست کائرہ میری طرف بڑھے تو جانے کیوں میں نے اُن کے کان میں زور سے یہ کہا کہ ’’پوش ٹائون کی دیواروں کو ایک دھکا اور دو‘‘۔ وہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ایسے پیچھے ہٹے جیسے کرنٹ لگ گیا ہو۔ اور ایک سنکی جیالوں کا ٹولہ کہیں سے نعرہ لگاتے گزرا، ’’جئے بھٹو، جئے بھوک‘‘۔ جیسے کہہ رہا ہو کہ جب تک بھوک باقی، بھٹو کا نام باقی۔ بلاول بھٹو کے لئے مشکل یہ ہے کہ وہ بی بی شہید کے راستے پہ چلیں یا پھر محترم آصف علی زرداری کی سیاسی شطرنج میں بے پناہ مہارت سے مستفید ہوں۔ اُن کے منہ پہ نعرہ تو غریبوں کا ہے لیکن بسے ہوئے وہ اُس پاکستان میں ہیں (پوش ٹائونوں اور ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹیز کا پاکستان) جہاں سے غریبوں کا گزر کیا معنی؟
پیپلز پارٹی کا 49واں یومِ تاسیس حال کی سیاسی بدحالی میں ماضی کے شاندار ورثے میں پناہ لئے تھا۔ پی پی کو جو نیا جنم (Metamorphosis) بی بی شہید کی جمہوری و ترقی پسند انسانیت دوستی نے دیا تھا اور مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف جو علم بغاوت بلند کرتے ہوئے وہ شہید ہوئی تھیں اُس کی طمانیت کہیں محترم آصف علی زرداری کی جمہوری تسلسل کے لئے مصالحت کوشی کی نذر ہو چکی۔ جس کا نتیجہ حکومت کے دوام اور عوامی مقبولیت کے انہدام کی صورت گزشتہ انتخابات میں برآمد ہوا۔ لہٰذا نوجوان بلاول مخمصے میں ہیں کہ وہ اپنی والدہ محترمہ کے دکھائے جمہوری انقلابی آئیڈیل ازم سے جلا پائیں یا پھر اپنے والدِ محترم کی سیاست برائے اقتدار کی چالبازیوں سے استفادہ کریں۔ ماضی کی انقلابی روحوں کو پکارنے سے خون تو گرمایا جا سکتا ہے لیکن اس سے حال کی تیرہ دستیوں کا سامنا کیا جا سکتا ہے اور نہ غریب عوام کی ٹوٹی آسوں کو کسی واضح پروگرام کے بنا پھر سے جگایا جا سکتا ہے۔ پارٹی ابھی ختم نہیں ہوئی، جیسا کہ اپنے پرائے گورکنوں کی منشا تھی، بھلے اُفتادِ زمانہ کے ہاتھوں چہرے پہ کتنی ہی دھول جم گئی ہو۔ عوامی تحریکیں شکست کھاتی ہیں، پیچھے ہٹتی ہیں، ماضی کی غلطیوں سے سیکھتی ہیں اور پھر سے خم ٹھونک کر میدان میں اُترتی ہیں۔ اب اپنے کیے دھرے پہ بے رحمانہ نظر ڈالنے کی ضرورت ہے اور جس سوال کا جواب دینا مشکل ہوا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ آخر اب اس پارٹی کے پاس کیا نظریاتی جواز ہے۔ یہ دوسری دائیں بازو کی جماعتوں سے کیوں ممیز ہے اور ستر کی دہائی کے عوامی نظریہ کی جگہ اس کے پاس سماجی جمہوریت (Social Democracy) کا کونسا نسخہ ہے جو پھر سے جیالوں کو نظریاتی مہمیز لگائے اور عوام کو پھر سے اپنی جانب راغب کرے۔ اس موقع پر اس کی تاریخ سے رجوع بنا چارہ نہیں۔
بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں دُنیا بھر میں انقلابی تحریکوں کا طوفان بپا تھا اور جگہ جگہ بھٹو کی طرز کے عوامی سیاستدان اُبھر کر سامنے آ رہے تھے۔ سوشلسٹ تحریکوں کے ساتھ پاپولسٹ عوامی تحریکیں ہر سو سر اُٹھا رہی تھیں۔ پاکستان میں بھی ایوب خان کے 22 خاندانوں کے ترقی کے ماڈل کے خلاف طبقاتی تقسیم ہو چکی تھی اور عوامی لاوا پھٹنے کو تھا۔ 1968ء میں نوجوانوں اور محنت کشوں کے عظیم اُبھار میں بھٹو قیادت سنبھالنے آگے بڑھے اور ایک عوامی طوفان کی طرح سب کو بہا لے گئے۔ بھٹو کا پاپولزم مرنجا مرنج تھا۔ سوشلسٹ بھی، قوم پرست بھی، اسلام پسند بھی اور بھارت دشمن بھی۔ اُنہوں نے زمیندار اشرافیہ اور درمیانے طبقے کو ساتھ ملا کر دیہی و شہری غریبوں کا گماشتہ سرمایہ داری کے خلاف محاذ تشکیل دیا اور پاکستانی سیاست کو عالیشان ڈرائنگ روموں سے نکال کر سڑکوں اور کھلیانوں میں پہنچا دیا۔ جن باہر نکل چکا تھا جسے دوبارہ بوتل میں بند کرنے کے لئے ایک نہایت رجعتی فوجی آمریت کی ضرورت پڑی۔ اس کے باوجود کہ بھٹو صاحب نے پاکستانی ریاست کو اس کا قومی سلامتی کا نظریہ دیا، چھائونی والوں کے لئے ان کا چیلنج ناقابلِ قبول تھا اور اُس نے اپنے محسن کو تختہ دار پر چڑھا تو دیا، لیکن وہ عوام کے دلوں میں امر ہو گئے۔ سیاسی بہروپیوں نے بڑے جتن کیے لیکن آج بھی غریبوں کے دلوں سے بھٹو نہیں نکل پایا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے نہایت نامساعد حالات میں سفاک فوجی آمریت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا اور پیپلز پارٹی ایک انقلابی جمہوری قلبِ ماہیت سے گزر کر بھٹو صاحب کی آمرانہ عوام دوستی سے بی بی کی جمہوری عوام دوستی اور سماجی فلاحی راستے پہ چل پڑی۔ محترمہ نے بعد از کمیونزم زمانے میں، پھر سے ایک جمہوری عوامی جواز پیدا کیا۔ اور اپنی شہادت سے پہلے وہ پیپلز پارٹی کومذہبی پاپائیت، مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف ایک جمہوری، انسان دوست اور سماجی فلاحی نظریے کا متبادل دے گئیں۔ یقینا آصف زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ بلند کر کے وفاق اور پیپلز پارٹی کو بچایا۔ اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار جمہوری عبور کو ممکن تو بنا دیا لیکن عوامی سیاست کی قیمت پر۔ اُنہوں نے بی بی کے عالمی سطح پر تہذیبوں کے درمیان مصالحت کے نظریہ کو سر کے بل کھڑا کرتے ہوئے متحارب طبقوں اور مخاصمانہ نظریات کے مابین مصالحت کا نظریہ اپنا کر پیپلز پارٹی کی عوامی بنیاد کو خیرباد کہہ دیا۔ اب جبکہ 70ء کی طبقاتی تقسیم نے پاکستان کو دو ملکوں یعنی امیروں کا خوشحال ملک اور غریبوں کا بدتر اور بدحال ملک میں بانٹ دیا ہے تو بلاول میدان میں اُترے ہیں۔ یہ ایسا وقت ہے جب گلوبلائزیشن اور عالمی آزاد تجارت کا واشنگٹن اتفاقِ رائے، ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکہ میں کامیابی اور یورپ میں انتہائی دائیں بازو کی قوم پرستی کے اُبھار کے ہاتھوں تلپٹ ہوتا نظر آ رہا ہے اور پاکستان میں نوجوانوں کا جمِ غفیر پرانی قیادتوں اور پارٹیوں سے بیزاری کا اظہار کر رہا ہے تو نوجوان بلاول میدان میں اُترے ہیں۔
بلاول نے شروعات تو اچھی کی ہیں۔ صوبوں میں نوجوانوں اور اچھے رہنمائوں کو سامنے لائے ہیں، خاص طور پر پنجاب میں کائرہ اور چن بہت ہی شاندار انتخاب ہے۔ لیکن سرائیکی پٹی سے وہی دقیانوس اور بدنامِ زمانہ جاگیردار سامنے آئے ہیں، جن کے ہاتھوں پیپلز پارٹی اپنا عوامی رنگ اور کردار کھو بیٹھی۔
سطحی تبدیلیوں سے کام چلنے والا نہیں، نہ ہی گھسے پٹے نعروں سے عوام کا پیٹ بھرنے والا ہے۔ بلاول کو بڑے فیصلے کرنے ہیں۔ اُنہیں پوش ٹائون والے پاکستان کا حصہ بننا ہے یا پھر عوام کے پاس جانا ہے۔ اُنہیں پیپلز پارٹی کے ورثہ کو بُرا نام دینے والوں کو ساتھ رکھنا ہے یا پھر اُن صاف ستھرے رہنمائوں کو سامنے لانا ہے جو پی پی کے دو بدنامِ زمانہ وزرائے اعظم کے ادوار میں اپنا دامن بچانے میں کامیاب رہے۔ بلاول کو خالی خولی انقلابی نعروں کی بجائے ایک سینٹر لیفٹ یعنی درمیانی راہ کی بائیں بازو کی جماعت کا سوشل ڈیموکریٹک پروگرام اور ٹھوس لائحۂ عمل دینا ہے۔ اُن کے پاس سمجھدار اور قابل لوگوں کی ٹیم نہیں جو پی پی پہ لگی اس تہمت کو دور کر سکے کہ اس کے پاس اچھی حکومت کا وصف نہیں۔ اب جبکہ 21 ویں صدی پھر سے جمہوری سوشلزم کی جانب جاتی دکھائی پڑتی ہے۔ لیکن یہ پچھلے سے مختلف ہوگی۔ یہ علم کی معیشت، سائنس اور ٹیکنالوجی اور نوجوانوں کا زمانہ ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ بلاول کیا رُخ اختیار کرتے ہیں۔ کیا وہ نوجوانوں کے لئے ایک ترقی پسند رہنما کے طور پر عمران خان کی نسبت ایک بہتر متبادل بن سکتے ہیں؟ بلاول مشکل میں تو ہیں، لیکن ایسی مشکل بھی نہیں کہ غریبوں کے دلوں میں ابھی بھی بھٹو زندہ ہے۔





.
تازہ ترین