• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم نوازشریف کی کشتی بالآخر بھنور سے نکلنے میں کامیاب ہوچکی ہے۔حالیہ دور کےدوران فوج کے دوسرے سپہ سالار لگانے کے بعد خاصے مضبوط دکھائی دے رہے ہیں۔چند ماہ پہلے تک سول عسکری تعلقات میں تناؤ کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات آہستہ آہستہ ختم ہورہی ہیں۔پاناما کیس کے علاوہ مستقبل قریب میں نوازشریف کو کسی آزمائش کا سامنا نہیں ہے۔اس لئے اب وقت آچکا ہے کہ عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل پر کام شروع کیا جائے۔اب تقریبا عام انتخابات میں ڈیڑھ سال باقی ہے۔اگر اب بھی عوام امنگوں کے مطابق ڈلیور نہ کیا گیا تو شاید عوام پھر کبھی آپکو ایسا موقع نہ دیں۔ آپ نے تین سال قبل اقتدار سنبھالاتھا تو عوام سے کچھ وعدے کئے گئے تھے۔جن میں بے روزگاری کا خاتمہ،احتساب کا کڑا نظام،صحت اور تعلیم کی مفت سہولتیں وغیرہ شامل تھیں ۔مسلم لیگ ن کی طرف سے عمومی طور پر تاثر دیا جاتا ہے کہ دھرنا سیاست اور اسٹیبلشمنٹ کی مسلسل مداخلت کی وجہ سے حکومت اپنے ٹارگٹ پر فوکس نہیں رکھ سکی۔آج نہ ہی دھرنا سیاست ہے اور نہ ہی متحرک قوتوں کی مداخلت۔پی پی پی کے سابق دور کے مقابلے میں وزیراعظم نوازشریف خوش نصیب ہیں کہ انہیں ایسے حالات میسر آئے ہیں ۔جس میں وہ ایک نہیں بلکہ دو سپہ سالار کا تقرر کرچکے ہیں۔عدالتی معاملات کی بات کی جائے تو مسلم لیگ ن کی حکومت کو 184/3سمیت کسی بھی معاملے پر پریشانی کا سامنا نہیں رہا۔ا س لئے وزیراعظم نوازشریف کو ایسے سازگار حالات کبھی میسر نہیں آئیں گے۔اب وقت ہے کہ ڈیڑھ سال کو مثالی عرصہ بنا کر عوامی خدمت میں لگ جائیں۔
وزیراعظم نوازشریف جب اقتدار کے اعلی منصب پر فائز ہوئے تھے تو انہوں نے کڑا احتساب کا نظام لانے کی بات کی تھی۔مگر بدقسمتی سے گزشتہ چند سالوں میں ایسا کچھ نہ ہوسکا۔کسی اور کی طرف جانے کی ضرورت نہیں ہے۔بلکہ سب سے پہلے ہم سے احتساب کا آغاز کریں۔مگر ایسا نظام ہو،جس میں کوئی بھی بالاتر نہ ہو۔صحافیوں،سیاستدانوں،فوج ،عدلیہ ،سرمایہ داروں سمیت ہر کسی کا ایک اصول او ر قانون کے تحت احتساب ہونا چاہئے۔قدرت کا اصول ہے کہ جن معاشروں میں احتساب ختم ہوجاتا ہے وہ جلد اپنی تباہی کی طرف چلے جاتے ہیں۔آج پاکستان اس اصول کی جیتی جاگتی مثال ہے۔یہاں پر طاقتور کے لئے احتساب کا قانون اور ہے اور کمزور کے لئے کچھ اور۔اب وقت ہے کہ وزیراعظم نوازشریف بے رحمانہ احتساب کی اولین مثال قائم کرتے ہوئے اپنی جماعت کے کرپٹ عناصر کو بھی قانون کے کٹہرے میں کھڑا کریں۔احتساب ایک واحد عمل ہے جس کے ثمرات تمام شعبہ ہائے زندگی میں نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ وہ احتساب اپنوں اور غیروں میں تمیز کے بغیر کیا جائے۔اسی طرح وزیراعظم کے وعدوں سے جڑا ایک معاملہ اچھی صحت اور تعلیم کا ہے۔بدقسمتی سے آج پاکستان کا نظام تعلیم دنیا کا کمزور ترین نظام تعلیم ہے۔جس ملک میںدستخط کرنے والے شخص کو پڑھا لکھا تصور کیا جاتاہو اور اس حوالے سے سامنے آنےوالی شرح خواندگی پر فخر کیا جاتا ہو تو پھر کیا کہا جاسکتا ہے۔کیا یہ ہماری بدقسمتی نہیں کہ پنجاب یونیورسٹی،قائداعظم یونیورسٹی اور بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کے بعد آج تک اس معیار کی کوئی جامعہ تعمیر نہیں کی جاسکی۔بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں تعلیم کبھی بھی حکمرانوں کی اولین ترجیح نہیں رہی۔خیبر پختونخوا ،سندھ اور بلوچستان میں آج بھی ایسے ہزاروں اسکول ہیں جہاںپر بچوں کو چھت میسر نہیں ہے۔تعلیم حاصل کرنے والے طالبعلموں کو حاجت کے لئے دور کھیتوں یا پہاڑوں میں جانا پڑتا ہے۔ہماری عادت ہے کہ ہم جمہوریت کی بات تو کرتے ہیں مگر کبھی دنیا کی مانی ہوئی جمہوریتوں سے اپنا موازنہ نہیں کرتے۔جس ترکی کی ہر بات پر مثال دی جاتی ہے۔کوئی استنبول ،انقرہ جاکر دیکھے تو پتہ چلے کہ رجب طیب اردوان نے گزشتہ دو دہائیوں میں کتنا ڈلیور کیا ہے؟ مگر شاید من حیث القوم ہماری عادت ہوچکی ہے کہ ہم حقائق سے منہ موڑتے ہیں۔یہ درست ہے کہ صوبوں میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔مگر نوازشریف پورے ملک کے وزیراعظم ہیں۔وفاق کی سطح پر موثر پالیسی بنا کر صوبوں میں نافذ کرنا کوئی ناممکن بات نہیں ہے۔جہاں پر وفاقی حکومت ترقیاتی منصوبوں کے نام پر صوبوں میں اربوں روپے خرچ کرسکتی ہے تو پھر تعلیم جیسا مقدس شعبہ کیوں محروم ہے۔تعلیم سے باہر نکل کر صحت کی بات کی جائے تو بندہ اپنے دشمن کے لئے بھی دعا کرتا ہے کہ اسے کبھی میرے پاکستان کےاسپتالوں میں جانے کا اتفاق نہ ہو۔صوبوں میں دیہی مرکز صحت اور بنیادی مرکز صحت کی ایسی صورتحال ہے کہ انسان تو دور کی بات ہے وہاں پر جانوروں کا بھی علاج نہیں کروایا جاسکتا۔صحت کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ دنیا کے خوبصورت ترین دارالحکومتوں میں شمار کئے جانے والے اسلام آباد کے پولی کلینک اور پمزجاکر دیکھ لیں تو صورتحال واضح ہوجائے گی۔وزیراعظم کا ملک بھر میں چار درجن کے قریب اسپتال بنانے کا اعلان قابل تعریف ہے۔مگر اس پر بھی اسی برق رفتاری سے عمل ہونا چاہئے ،جیسا موٹرویز ودیگر منصوبوں پر ہوتا ہے۔
ان تمام بالا معاملات سے نکل کر نوجوان نسل کو دیکھا جائے تو آج پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد دو وقت کی روٹی سے محروم ہے۔بے روزگاری کی ایسی ابتر صورتحال ہے کہ الامان الحفیظ۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے حوالے سے موثر اور جامع پالیسیاں متعارف ہونی چاہئیں۔تاکہ پاکستان کا نوجوان بنیادی سہولتوں سے محروم نہ رہے۔اگر اب بھی حکمرانوں نے اپنے وعدوں کی تکمیل کو اولین ترجیح نہ بنایا تو پھر بہت دیر ہوجائے گی۔عام انتخابات میں کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ مسلم لیگ ن ابھی سے اس کی تیاری شروع کرے اور عوامی ترجیحات کے مطابق فیصلے کرے وگرنہ یہ موقع پھر کبھی نصیب نہیں ہوگا۔





.
تازہ ترین