• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری مسلسل اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ان کے 4طالبات مان لیں۔ اگر یہ مطالبات نہیں مانے گئے تو وہ 27 دسمبر 2016 کو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی برسی پر وفاقی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کریں گے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر بھٹو سڑکوں پر آگیا تو پنجاب سمیت پورا ملک سڑکوں پر ہو گا ۔ یہ بھی ایک سوال ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نواز حکومت کے خلاف تحریک چلائیں گے یا نہیں لیکن ان کے چار مطالبات ایسے ہیں ، جن پر کسی نہ کسی سویلین حکومت کو ہر حال میں عمل درآمد کرنا چاہئے۔
ان چار مطالبات میں سے بلاول بھٹو زرداری کا ایک مطالبہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کا تیار کردہ پاناما لیکس انکوائری بل پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے تاکہ اس بل کے تحت پاناما لیکس کی تحقیقات کیلئے ایک خصوصی کمیشن تشکیل دیا جا سکے ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پیپلز پارٹی کا پاناما انکوائری بل منظور کرنے کی بجائے قومی اسمبلی سے اپنا ’’ انکوائری کمیشنز بل ‘‘ منظور کرا لیا ہے ، جس کے تحت حکومت کو کسی بھی معاملے کی تحقیقات کیلئے کمیشن تشکیل دینے کا اختیار ہو گا ۔ حکومت کیلئے سینیٹ سے یہ بل منظور کرانا مشکل ہو گا ۔ ہو سکتا ہے کہ وفاقی حکومت اس معاملے پر پیپلز پارٹی سے مذاکرات کرے ۔ اگر یہ بل سینیٹ سے منظور ہو کر قانون بن جاتا ہے تو اس مرحلے پر وفاقی حکومت پاناما لیکس کے معاملے پر کوئی انکوائری کمیشن تشکیل نہیں دے سکتی کیونکہ کیس عدالت میں چل رہا ہے ۔ عدالت نے بھی یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ پاناما لیکس کو سپریم کورٹ کے موجودہ بینچ میں چلانے کی بجائے جوڈیشل کمیشن تشکیل دے سکتی ہے ۔ اگر بلاول بھٹو کی بات مان لی جاتی تو وفاقی حکومت بہت سی مشکلات سے نکل آتی ۔ اب بھی شاید وقت ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی بات مان لی جائے ۔ اس سے پارلیمنٹ کے ذریعے احتساب کا عمل مضبوط ہو گا ۔
دوسرا مطالبہ بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے یہ کیا گیا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری ’’ سی پیک ‘‘ کے منصوبے پر پیپلز پارٹی کے دور میں منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کی قرار دادوں پر عمل کیا جائے ۔ یہ مطالبہ بھی ایسا ہے ، جس پر عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ نظر نہیں آتی۔ اس آل پارٹیز کانفرنس میں ملک کی سیاسی قیادت نے اپنی اجتماعی دانش کے تحت ملک کے بہتر مستقبل کیلئے فیصلے کئے تھے ۔ قومی سیاسی قیادت کا وژن غیر سیاسی قوتوں سے زیادہ بہتر ہوتا ہے اور اس کا اجتماعی فیصلہ ذاتی یا گروہی مفادات کے تابع نہیں ہوتا ۔ مذکورہ کانفرنس کی قرار دادوں میں سی پیک کے مغربی روٹس کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے ۔ ان قرار دادوں پر عمل نہ کرنے سے چھوٹے صوبوں خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں سی پیک کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں اور سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ سی پیک کے معاملات غیر سیاسی قوتوں کے ہاتھ میں چلے گئے ہیں ۔
ملک کے سیکورٹی ایشوز کے حوالے سے بلاول بھٹو زرداری کا تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی نیشنل سیکورٹی کمیٹی تشکیل دی جائے یا پہلے والی کمیٹی بحال کی جائے ۔ اس مطالبے کا مقصد بھی یہی ہے کہ سیکورٹی کے معاملات پارلیمنٹ کے ذریعہ چلائے جائیں ۔ یہ بھی کوئی ایسا مطالبہ نہیں ہے ، جس سے صرف پیپلز پارٹی کو فائدہ ہو۔ تمام جمہوری قوتوں کو اس سے فائدہ ہو گا کیونکہ اس وقت سیکورٹی کے معاملات بھی سیاسی حکومتوں کے پاس نہیں ہیں ۔ بلاول بھٹو زرداری کا چوتھا مطالبہ یہ ہے کہ وزیر خارجہ کا تقرر کیا جائے ۔ اس پر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا موقف یہ ہے کہ وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر ہے اور اس طرح وزیر خارجہ موجود ہیں لیکن بلاول بھٹو زرداری بھی یہ بات جانتے ہیں اور انہوں نے یہ چوتھا مطالبہ شاید اس لیے کیا ہے کہ وہ خارجہ امور میں فیصلوں کا اختیار بھی مکمل طور پر سیاسی حکومتوں کے پاس دیکھنا چاہتے ہیں ، جو ان کی دانست میں اس وقت نہیں ہے ۔
مذکورہ بالا چار مطالبات کے ساتھ ساتھ بلاول بھٹو زرداری یہ بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو ہٹایا جائے ۔ حقیقت یہ ہے کہ چوہدری نثار علی خان کی وجہ سے زیادہ مشکلات پیپلز پارٹی کو نہیں بلکہ خود مسلم لیگ (ن) کو ہیں ۔ اس وقت ملک میں پانچ بڑے ایشوز ہیں ۔ یعنی پاناما لیکس کا مقدمہ ، سی پیک ، قومی سلامتی کے معاملات ، خارجہ اور داخلی امور ۔ بلاول بھٹو زرداری کے پانچ مطالبات کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو وہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو ’’ ریسکیو ‘‘ کرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ بااختیار اور مضبوط بنانے کیلئے ہیں ۔ اگر میاں محمد نواز شریف یہ مطالبات نہیں مانتے تو یہ سارے کام آئندہ انتخابات سے قائم ہونے والی حکومت کو کرنا ہوں گے ۔ وہ حکومت پیپلز پارٹی کی بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ سارے کام کرنا آسان نہیں ہے ۔ اس کیلئے بڑی سیاسی تحریک چلانے کی ضرورت ہے ۔ صرف پیپلز پارٹی کو نہیں بلکہ تمام جمہوری قوتوں کو مل کر تحریک چلانے کی ضرورت ہے ۔




.
تازہ ترین