• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آدھے بھرے ہوئے گلاس کی مثال ہمیشہ مثبت انداز میں دی جاتی ہے اور یہی مثال دے کر ہمارے حکمران ہمیں سڑکوں کے جال، میٹروبسوںاور انڈر پاسوں کی کہانیاں سناتے ہیں لیکن آدھے خالی گلاس کی مثال نہیں دیتے۔ ہم کیا کریںکہ بقول فیض ’’لوٹ جاتی ہے اُدھر کو بھی نظر کیا کیجئے۔‘‘
جس خوشحال پنجاب کی مثالیں فخر پنجاب خادم اعلیٰ صاحب ہمیں دیتے ہیں اسی پنجاب کے دیہی علاقوں اور شہروں کے بڑی سڑکوں کے جال سے کچھ ہی پرے تین چیزوں کی بہتات نظر آتی ہے۔ بے پناہ خلقت، پلاسٹک کے بکھرے ہوئے بیگ اور جرائم۔ جناب ایاز امیر صاحب پلاسٹک بیگ کے حوالے سے لکھ لکھ کر ہلکان ہورہےہیں لیکن نامعلوم کسے اس کے حوالے سے کیسے کتنی کمیشن ملتی ہے کہ اس کے خاتمے کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ آبادی ایسی پھیلتی چلی جارہی ہے اور اس کے وحشت ناک پھیلائو کو روکنے کے لئے بھی کوئی عملی قدم نہیں اورجرائم جو بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں اس پر قابو پانے کے لئے اگرچہ اربوں روپے خرچ کئے جاچکے ہیں لیکن اس پر قابو پانا یوں لگتا ہے گویا ممکن ہی نہیں۔
حالیہ دنوں میں آپ نے سمیعہ چوہدری اور قسمت بیگ کے قتل کے حوالے سے خبریں پڑھ لی ہوں گی لیکن میں آپ کو اسی لاہور شہر میں صرف ایک دن میں ہونے والے جرائم کی کچھ تصویریں پیش کر رہا ہوں۔ اسی لاہور شہر میں گجرپورہ کے رہائشی عمیر سعید کےگھر دو ڈاکو گھس آئے اور اہل خانہ کویرغمال بنا کر 17لاکھ روپے لوٹ کر لے گئے۔ وسن پورہ میں ڈاکو خاتون پروفیسر کو لوٹ کر فرار ہوگئے۔ پروفیسر خاتون کاکہنا ہےکہ ڈاکو پرس، موبائل اور کاغذات چھین کر فرار ہوئے۔باغبانپورہ میں عارف کے گھر سے چار ڈاکو 10لاکھ پچاس ہزار روپے جبکہ سمن آباد میں عمرحیات کی دکان سےچار ڈاکو ساڑھے چار لاکھ روپے لوٹ کر فرار ہوئے۔ سبزہ زار میںبشیر کی دکان سے تین ڈاکو دو لاکھ روپے سےزائد، ملت پارک میںموبائل شاپ میں کامران سےایک لاکھ پچاس ہزار اور ہربنس پورہ میں سرفراز سےپچاسی ہزار چھین کر فرار ہوئے۔ گرین ٹائون میں عرفان کی دکان سے تین ڈاکو 72ہزارروپے مالیت کی نقدی اور سامان اورٹائون شپ میںوحید سے 18ہزارروپے مالیت کی نقدی اور موبائل چھین کر لے گئے۔ ایسی ہی وارداتیں ساندہ، اسلام پورہ، اقبال ٹائون،غالب مارکیت اور شمالی چھائونی میں ہوئی ہیں جہاںلوگ ہزاروں روپے اور قیمتی اشیا سے محروم کردیئےگئے ہیں۔
میں نےجیسا کہ پہلے کہا کہ یہ صرف ایک دن کی ایک شہر کے بعض علاقوں کی کارروائی ہے۔ اس میں اگر وہ واقعات جو درج نہیں کئے گئے یا دوسرے شہروں اور دیہات میںہونے والی وارداتیں شامل کرلی جائیں تو یوں محسوس ہوگاکہ گویا پورا پنجاب ہی ڈاکوئوں کی گرفت میں ہے۔ ایسے میں گڈگورننس کا نعرہ جو حکمران لگاتے ہیں اس کا کیا جواب دیا جائے۔ شاید جواب میں صرف ’’فٹے منہ‘‘ ہی کہا جاسکتاہے۔ایک رپورٹ کے مطابق یہ سب واقعات اس بڑی فنڈنگ کے بعد ہو رہے ہیں کہ جو پولیس کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے دی گئی ہے۔ اس فنڈنگ سے یوں توڈولفن فورس اور نامعلوم کتنی ہی ایسی فورسز بنائی گئی ہیں لیکن جرائم ہیں کہ بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ اس طرح کی فورسز بنانے اور ان کو جدید اسلحہ دینے پر اب تک کئی ارب روپے خرچ ہوچکے ہیں لیکن اگر صرف 2015ہی کے مقابلے میں جرائم کی شرح دیکھی جائے تو صرف نقدی اور موبائل چھیننےکے واقعات میں 43فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ اغوا اور کار چھیننے کے واقعات میں بالترتیب 29فیصد اور 13فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ اگر اغوا، کار چھیننے، نقدی اور دوسری قیمتی اشیا لوٹنے،قتل اور موٹرسائیکل چھیننے کے کل واقعات کو ملایا جائے تو یہ تقریباً 24079بنتے ہیں جبکہ نومبر 2015میں یہ تعداد تقریباً 21303 تھی۔
اس حوالے سے افسوسناک بات یہ ہے کہ جب یہ چیز حکمرانوں اور پولیس افسران کے سامنے رکھی جاتی ہے تو بجائے اس کے کہ وہ اس بات کا جواب دیں کہ ڈولفن اور ایسی ہی دوسری فورسز کے لئے اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود یہ اضافہ کیوں؟
تو وہ یا تواس اضافے کو ماننے سے انکار کر تے ہیں اور یا ان کے بقول اتنے بڑے شہر میں اتنے جرائم تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔ معلوم نہیں اتنے جرائم کہتے ہوئے وہ کس ملک کی مثال سامنے رکھتے ہیں لیکن جو بھی ہے صورتحال یقیناً افسوسناک ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ ہماری پالیسیاں خواہ وہ جرائم کے حوالے سے ہیں یا کسی اور حوالے سے یہ سب کی سب بغیر کسی مستند ڈیٹا کے بنائی جاتی ہیں۔ ہماری تمام تر رپورٹس اور پھران کے لئے فنڈنگ صرف تُک بندی پر منحصر ہوتی ہے۔ اس لئے کہ ہم جانتے ہی نہیں کہ کس شہر، کس علاقے اور کس صوبے میں کتنے لوگ بستے ہیں اور ان کے لئے کتنی تعداد میں اسپتال، اسکول یا پولیس فورس چاہئے۔ اس حوالےسے سپریم کورٹ نے اگر حکومت کی سرزنش کی ہے کہ مارچ تک مردم شماری کا کام شروع کیا جائے تو بالکل بجا کی ہے۔ آخر ہمیں پتہ تو چلے کہ ہم کتنے ہوچکے ہیں؟ ہم کس صوبے میں کس تناسب سے بڑھ رہے ہیں اور اس کے لئے ہمیں کتنے وسائل کی ضرورت ہوگی؟ ہم کب تک تُک بندیوں سے کام چلاتے رہیں گے۔ مانا کہ مردم شماری کے حوالے سے بعض صوبوں کو تحفظات ہیں اس لئے کہ اس کے نتیجے میں خاص طور پر سندھ اور بلوچستان میں حیرت انگیز نتیجہ سامنے آسکتا ہے لیکن پھر بھی وسائل کے استعمال کے لئے اور پھر مناسب منصوبہ بندی کے لئے یہ اقدام انتہائی ضروری ہے۔




.
تازہ ترین