• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی میں ایم اے جناح روڈ پرگرومندر کے قریب فٹ پاتھ پر ایک دیوانہ بیٹھا ہوا تھا، واضح رہے کہ یہ علاقہ گرومندر کے نام سے جانا جاتا ہے تاہم بھارت میں بابری مسجد کے واقعہ کے بعد اس کا نام ’بابری چوک‘ رکھ دیا گیا ہے ۔ یعنی یہ اب ہندوستان میں مغل شہنشاہیت کی بنیاد رکھنے والے ظہیر الدین بابر سے موسوم ہے۔ ویسے راقم کم علم کے ناقص مطالعے میں ظہیر الدین بابر صاحب کا دین متین کے لئے کوئی کارنامہ تا حال نہیں آسکا ہے (کسی کے علم میں ہو تو آگاہ فرمائیں) ہاں  انہوں نے بلاتفریق مسلم و غیر مسلم انسانی سروں کے مینار ایستادہ کرنے کی چنگیز وہلاکو خان کی روایت کو زندہ رکھا، وہ شیر و گینڈے کے شکار کے باعث بابر(ببرشیر) کہلائے، تاہم خاطرِ ہوس،مے ومعجون کے کثرت استعمال سے یہ بہادر بادشاہ مٹی تلے مٹی ہوگئے۔ ہم نصاب میں اپنے بچوں کو جن مغلوں کی تہذیب کا رٹا لگواتے رہتے ہیں، انہی مغلوں کے شہزادے مرد غلاموں سے شادیاں رچاتے تھے، یہاں تک کہ بارات بھی لے جاتے، اس شاندار و قابل فخر تہذیب کی بدولت ہی ڈولی سے گرنے کے باعث ایک شہزادے صاحب کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔۔۔تمہید طویل ہوگئی، تو بابری چوک سے تقریباً روز گزرنے والے چند نیک اصحاب نے دیکھا کہ دیوانہ صاحب ہر روز میلے کچیلے کمبل نما بستر پر بیٹھے ایک ہاتھ سے ایک سکہ اچھالتے ہیں پھر جیسے ہی وہ سکہ نیچے آتا ہے تو وہ اس پر ہتھیلی رکھ دیتے ہیں، پھر ہتھیلی ہٹاتے ہیں اور سکے کو اٹھا کر دیکھنے لگتے ہیں پھر وہی مشق شروع کردیتے ہیں یعنی’ ٹاس‘ ہر روز بلا وقفہ جاری رہتا ہے۔ یہ اصحاب اس عذاب سے چھٹکارا دلوانے کی خاطر دیوانے کے قریب جا بیٹھ گئے (ویسے بحرو بر میں فساد ایسے دیوانوں کی وجہ سے نہیں، خرد مندوں ہی نے خشکی و تری میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کر رکھا ہے) خیر، ان اصحاب میں سے ایک نے پوچھا یہ آپ کیا کررہے ہیں۔ دیوانے نے کوئی جواب نہیں دیا، تھوڑی دیر بعد دوسرے صاحب گویا ہوئے آپ کیا شغل فرما رہے ہیں دیوانے کا مشن جاری تھا، تیسرے صاحب نے ابنِ آدم کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر منت کی، کہ جی آپ ہر روز سارا سارا دن یہ کیا کرتے رہتے ہیں۔ دیوانے صاحب نے ان صاحبانِ قلب و نظر پر ایک نظر ڈالی، پھر سکہ اچھالا ہاتھ میں لیا اور کہنے لگے کہ مجھے ڈسٹرب نہ کریں، دیکھتے نہیں ہو میں کتنا مصروف ہوں۔۔۔!
پچھلے جمعہ المبارک کو ایک مولوی صاحب خطبہ دے رہے تھے، ویسے میں انہیں استاد جی کہتا ہوں، کیونکہ ان میں روایتی مولویوں والی کوئی بات نہیں ہے، نہ تو چندہ مانگتے ہیں، نہ فطرہ زکوٰۃ، اور نہ ہی کھالیں جمع کرتے ہیں،نہ تو سیاسی مولوی صاحبان کو مقدس منبر پر بٹھا کر اشتعال انگیز تقریریں کرواتے ہیں ،نہ ہی معصوم طلبہ سے نعرے لگوا تے ہیں، دکان چلاتے ہیں اور بغیر تنخواہ قرآن و حدیث سکھلاتے ہیں۔ تو فرمانے لگے کہ آج کل ہر کوئی کہتا ہے کہ ٹائم ہی نہیں ملتا۔ جو لوگ مولائے کریم کو یاد رکھنے کے لئے وقت نہیں دیتے، پروردگار انہیں ایسے الجھا دیتا ہے کہ وہ صبح سے شام تک حیوانوں کی طرح لگے رہتے ہیں اور اس طرح انہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ فرشتہ اجل دیوار پر دستک دینے آجاتا ہے۔ فرمایا کہ زندگی کو تین دن تصور کرلیں، ایک وہ جو گزر گیا دوسرا آج کا دن جو گزر رہا ہے تیسرا وہ کل جو آنے والا ہے، اپنا محاسبہ کیا جائے کہ جو دن (یعنی عرصہ) گزر گیا اس میں، میں نے کیا کھویا کیا کمایا، آج کا جو دن گزر رہا ہے اس میں میری مصروفیت کیا ہے؟ جہاں تک آنے والا کل ہے تو اس کا توعلم ماسوائے رب کائنات کے کسی کو نہیں، سو جو وقت میسر ہے تو کیوں نہ اس میں توبہ کرتے ہوئے اگر باقی وقت نصیب ہوجائے اسے رب کو راضی کرنے کے لئے تصرف میں لایا جائے! میں گناہ گار دل ہی دل میں کچہری کرنے لگا کہ ظہیر الدین بابر کی بادشاہت کے آخر ی تاجدار بہادر شا ہ ظفر نے تو کہا تھا ۔
عمر ِدراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
ہمارےاستاد جی نے تو چار دن کودو دن کردیا...بلاشبہ قرآن عظیم سورہ المومنون میں ہے کہ رب کائنات جب لوگوں سے پوچھیں گے کہ تم زمین (دنیا ) میں کتنے برس رہے ، وہ کہیں گے ایک دن یا دن کا حصہ....
ہمارے ایک جاننے والے کا انتقال ہوا، میت تدفین کے لئے کراچی کے مواچھ گوٹھ لے جائے جارہی تھی۔ یہاں  حکومت نے قبرستانوں کیلئے اراضی دے رکھی ہے، چار دیواری اور دیگر انتظامات لوگ خود کرتے ہیں۔ ہم ایک کوسٹر میں سوار تھے، ایک صاحب کہنے لگے کہ پچھلے دنوں ایک ایسے صاحب کا انتقال ہوا، جو کسی برادری کی تنظیم کا رکن نہیں تھے، ان کے لئے پورے شہر قائد میں قبر کی جگہ میسر نہیں تھی، پوش علاقوں کے قبرستانوں میں تو فی قبر بیس تیس ہزار روپے لئے جاتے ہیں، یہ تو بے روزگار غریب شخص تھا، پھر ایدھی صاحب کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا ۔ میں نے کہا کہ کراچی میں اتنے سارے قبرستان تو ہیں ! کہنے لگا کہ ہر برادری، قومیت، مسلک کا اپنا اپنا قبرستان ہے، جس میں کسی ’غیر‘ کو دفنانے نہیں دیتے۔ میں نے استفسار کیا کہ کیا مسلمان بھائی بھائی نہیں ہیں، ایک قوم نہیں ہیں، پھر تفریق کا یہ ظلم کیوں روا ہے! کیا ان واقعات کی ہمارے اُن سیاسی مذہبی صاحبان کو علم نہیں، جو نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کا شغر، اُمہ کو ایک جسم بن جانے کا پیغام دیتے رہےہیں اور یہاں یہ عالم ہے کہ ایک مسلمان کے قبرستان میں دوسرے مسلمان مُردے کو دفن کرنے نہیں دیا جاتا۔اس دوران ہم قبرستان پہنچ گئے (ہر ایک کو ایک روز پہنچنا ہے) میت کی تدفین کے بعد ایک مولوی صاحب وعظ فرمانے لگے، میں نے قریب بیٹھے دوست سے سرگوشی کی کہ مولوی صاحب مُردوں کو نصیحت کررہے ہیں، دوست نے کہا نہیں مخاطب ہم ہیں، میں نے کہا یہی تو میں کہہ رہا ہوں...! مولوی صاحب نے فرمایا، ’کل‘ کی تیاری کرو اور یہ دیکھو کہ زاد راہ کیا جمع کیا ہے، آج کل ہمارے معاشرے کا یہ حال ہے کہ ہر ایک مصروف ہے یہاں تک کہ چھوٹے بچے کے پاس بھی وقت نہیں ہے، لیکن  جس نے زندگی و دیگر نعمتیں دی ہیں ، گزارے گئے وقت میں اُس رب کا کتنا حصہ ہے؟ نوجوانوں کو تلقین کی کہ جوانی کی قدر کرو، اسے ایسی غیر ضروری مصروفیات میں ضائع نہ کرو کہ کل پھر پشیمان ہونا پڑے۔مولوی صاحب نے درست فرمایا،جوانی ہے ہی انمول۔ ایک ضعیف العمر شخص گردن جھکائے جارہے تھے،اس عمر میں نحافت کے باعث کمر جھک جاتی ہے ، راستے میں ایک نوجوان نے دیکھا تو استفسار کیا کہ بابا کیا چیز تلاش کررہے ہو، کیا شے کھو گئی ہے؟ جواب دیا بیٹا جوانی کھو گئی ہے، عہدِ شباب ڈھونڈرہا ہوں......




.
تازہ ترین