• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کو کوئی افسانہ کہہ رہا ہے اور کوئی حقیقت۔ اس موضوع پر ہم گزشتہ کئی دنوں سے تحقیق کر رہے تھے، جو نتائج سامنے آئے وہ پیش خدمت ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق روہنگیا مسلمانوں پر 2012ء سے قیامت بپا ہے، سر زمین اراکان ہر کچھ عرصے بعد لہو لہوہو جاتی ہے۔ ان کی بے بسی کا اب تو یہ حال ہے کہ وہاں پر شہید ہونے والوں کی خبر یں بھی شائع نہیں ہو رہیں۔ میانمار (برما) کے روہنگیا مسلمانوں کی مظلومیت کا عالم یہ ہے کہ ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں لیکن ان کے لئے کہیں سے بھی توانا آواز نہیں اٹھائی جارہی ۔مجموعی طور پر اثر رکھنے والے عالمی اداروں نے لب سی لئے ہیں۔ عالمی برادری کو چھوڑئیے مسلم امہ بھی اپنے کلمہ گو بھائیوں کا دکھ محسوس نہیں کر رہی، کیا اراکان کے مسلمان امتِ مسلمہ کا حصہ نہیں؟ قارئین! آگے بڑھنے سے پہلے برما کی تاریخ پر سرسری سی نظر ڈالتے ہیں تاکہ مقصد تک پہنچنے میں مدد مل سکے۔ میانمار کا علاقہ ’’اراکان‘‘ روہنگیا مسلمانوں کا آبائی وطن ہے۔ اراکان 1784ء تک ایک آزاد ملک تھا۔ اراکانی مسلمانوں کا چودھویں اور پندرہویں صدی عیسوی میں آزاد ملک تھا۔ بعد میں برمیوں نے اس پر قبضہ کرلیا تھا۔ برما کی فوجی حکومت کے دور میں امتیازی قوانین کے ذریعے مسلمانوں کی زندگی مشکل بنا دی گئی۔ جائیداد چھینی، شہریت ختم ہوگئی اور وہ بے ریاست لوگ بن گئے۔ مسلمانوں سے بیگار لیا گیا۔ ایسے حالات میں بڑی تعداد تھائی لینڈ اور بنگلہ دیش ہجرت کرگئی۔ برما کے مسلمانوں کی پاکستان کے ساتھ خصوصی محبت رہی ہے۔ یہی وجہ ہے میانمار کی آزادی سے پہلے 1946ء میں بعض مسلم رہنمائوں نے قائد اعظم محمد علی جناح سے درخواست کی کہ وہ اراکان کی پاکستان میں شامل ہونے کی جدوجہد کی حمایت کریں۔ اس مقصد کے لئے اراکان مسلم لیگ بھی قائم کی گئی، لیکن اس تجویز کو رد کردیا گیا۔ بعد میں مجاہدین نے میانمار کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کردیا۔ عبدالقاسم ان مزاحمت کاروں کے رہنما تھے۔ چند برس مزاحمت کار کامیابی سے شمالی اراکان کو فتح کرنے میں کامیاب ہوئے۔ نومبر 1948ء میں میانمار میں مارشل لا لگا اور فوج نے مزاحمت کاروں کے خلاف سخت اقدامات کیے جس کے نتیجے میں یہ شمالی اراکان کے جنگلوں میں روپوش ہوگئے۔ 1954ء میں مزاحمت کاروں نے ایک بار پھر زور پکڑا اور بعض علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرلیا۔1971ء میںروہنگی مسلمانوں کو ایک بار پھر اسلحہ جمع کرنے کا موقع مل گیا۔ 1972ء میں ظفر نامی ایک شخص نے ’’روہنگیا لبریشن پارٹی‘‘ ترتیب دی اور بکھری ہوئی مسلم تنظیموں کو یکجا کیا۔ 1978ء میں ’’نے ون‘‘ نے ’’آپریشن کنگ ڈریگن‘‘ کے تحت اراکان میں غیرقانونی تارکین وطن کو پکڑنا شروع کیا۔ نتیجتاً ہزارہا مسلمان بنگلہ دیش میں داخل ہوئے۔ جون 2012ء کے فسادات کی بنیاد ایک خبر پر رکھی گئی جس میں ایک رکھائنی خاتون پر چند روہنگی مسلمانوں کے حملے اور اسے قتل کردینے کی اطلاع تھی۔ حالانکہ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ اس سے قبل بھی برمی فوجی جنتا نے ایک ایسے ہی مجرمانہ حملے کی جھوٹی خبر اُڑاکر بودھوں کے اشتعال کو مسلمانوں کی طرف منتقل کیا تھا۔ اس بار بھی یہ خبر ملنے پر پہلے ہی وار میں کوئی بیسیوں روہنگی مسلمان شہید کیے گئے۔ حکومت نے قاتلوں کو پکڑنے اور انہیں روکنے کے بجائے 10 جون کو ایمرجنسی لگادی۔ رپورٹوں کے مطابق 22 جون 2012تک سینکڑوں مسلمان شہید کیے گئے۔ 90 ہزار افراد بے گھر ہوئے۔ ڈھائی ہزار سے زیادہ مکان جلائے گئے۔ ان میں 13 سو سے زیادہ گھر مسلمانوں کے تھے۔ اس سارے دورانیے میں مسلمانوں کے خلاف جی بھرکر امتیازی سلوک کیا گیا جس پر ’’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘‘ اور حقوقِ انسانی کی تمام عالمی تنظیموں نے برمی حکومت پر دبائو ڈالا تو ’’تھین سین‘‘ نے اقوام متحدہ کو روہنگیا مسلمانوں کو کسی اور ملک میں منتقل کرنے کی تجویز دی جو سختی سے رد کردی گئی۔اکتوبر 2012ء میں حالات پھر بگڑگئے۔ اس بار بھی فسادات میں سینکڑوں افراد مارے گئے۔ 46 سو مکانات جلائے گئے اور کوئی 22 ہزار افراد بے گھر کیے گئے۔ اب تک بے گھر ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ مسلم بستیاں تاراج ہونے کا اعتراف ’ تھین سین‘‘ نے خود بھی کیا تاہم متاثرین کو امداد پہنچانے میں اب بھی رکاوٹیں ہیں اور ’’ڈاکٹرز ود آئوٹ بارڈرز‘‘ کی تنظیم نے نومبر 2012ء میں اپنے کارکنوں کو علاقہ چھوڑدینے کی ہدایت کی تھی ، کیونکہ ان کارکنوں کے خلاف بودھوں کی دہشت گردی بڑھ رہی تھی۔ حالات بدستور کشیدہ ہیں بلکہ دن بدن بگڑتے ہی چلے جارہے ہیں۔ دیکھیں!جون 2012ء میں اراکان میں مسلم کش فسادات شروع ہوئے۔ جس میں بدھسٹوں نے ہزاروں مسلمانوں کو شہید اور سینکڑوں مسلم آبادیوں کو نذرآتش کردیاتھا، جو مسلمان سمندری راستے سے بنگلہ دیش پہنچے تھے انہیں بنگلہ حکومت نے واپس دھکیل دیا جو واپسی میں بدھسٹوں کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔ اس وقت بھی یہی صورت حال ہے۔
عالمی میڈیا کی طرف سے جاری کردہ تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ میانمار سے ملحقہ بنگلہ دیش کی سرحد پر روہنگیا مسلمانوں کی آمد روکنے کے لئے بارڈر سیکورٹی فورسز الرٹ کھڑی ہیں۔ 9؍ اکتوبر 2016ء کی درمیانی شب نامعلوم افراد کی جانب سے ملٹری پر حملہ اور ان کے قتل کو بنیاد بناکر بدھسٹ اور ملٹری کی جانب سے ایک بار پھر مسلمانان اراکان پر ظلم و ستم کا بازار گرم کیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق مسلمانوں پر اس حملے کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اراکان کے علاقہ ’’منگڈو‘‘ میں حالات انتہائی تشویشناک رخ اختیار کرگئے ہیں۔ کئی مسلمانوں کو بے دردی سے شہیداور بعض کو گرفتار کر کے ناقابل بیان تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مائوں بہنوں کی عزتیں محفوظ نہیں۔ کئی دنوں سے ’’منگڈو‘‘ اور ’’بوتھیدونگ‘‘ میں کرفیو نافذ ہونے کی وجہ سے عوام خوف اور بھوک کا شکار ہیں۔ وقتاً فوقتاً کسی نہ کسی معاملے کو جواز بنا کر مسلم کش فسادات کا آغاز کردیا جاتا ہے۔ جون 2012ء میں بھی بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور اب دوبارہ ہمارے اراکانی مسلمان بھائی ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہیں۔ ایک ایسے موقع پر جبکہ اقوام متحدہ کی جانب سے سابق سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کوفی عنان کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دیا گیا ہے یہ کمیشن اپنی تحقیقات کا آغاز کر چکا ہے تو اس صورتحال میں عین ممکن ہے کہ ایسے حالات سوچی سمجھی سازش کے تحت پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہو، تاکہ مسلمانوں کو فسادات کاذمہ دار ٹھہراکر تحقیقاتی کمیشن کی تحقیق کا رخ موڑا جاسکے۔دنیا کے اکثر خطے پاکستان، سعودی عرب، ملائیشیا و دیگر ممالک میں مقیم روہنگیا مسلمانوں کاعرصۂ دراز سے پُرامن طور پر زندگی گزارنا اس بات کی دلیل ہے کہ روہنگیامسلمان ایک امن پسند قوم ہے جو کہ اپنے وطن میں امن کے خواہاں ہیں اوراپنا بنیادی حق حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تمام مسلم ممالک اور ان کی تنظیموں خصوصاًاوآئی سی کو روہنگیا کے مسلمانوں کے حق میں بھر پور آواز اٹھانی چاہیے۔اگر تمام اسلامی ممالک متحد ہوکر عالمی فورم پر توانا آواز اٹھائیں ،عملی اقدامات کریں تو میانمار کی حکومت روہنگیا مسلمانوں پر جاری مظالم، ناانصافیوں اور زیادتیوں کا منحوس سلسلہ روکنے پر مجبور ہوسکتی ہے۔




.
تازہ ترین