• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اظہار کی آزادی ضابطہ اخلاق کی پابندیوں سے مستثنیٰ نہیں ،اسلام آباد ہائی کورٹ

اسلام آباد (  رپورٹ :رانا مسعود حسین )اسلام آباد ہائی کورٹ نےʼʼ نیو ٹیلی ویژن چینل کی نشریات پر سات روزہ بندش اور دس لاکھ روپئے جرمانہ کے پیمرا کے فیصلہ کے خلاف اپیل سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے ، جس میں سپریم کورٹ کے جج ،مسٹر جسٹس امیر ہانی مسلم کے حوالہ سے نیو ٹیلی ویژن چینل پر ایک تضحیک آمیز پروگرام نشر کرنے کی پاداش میں پیمرا کی جانب سے مذکورہ سزا کے خلاف اپیل کی سماعت کے دوران پیمرا کے فیصلہ کی توثیق کرتے ہوئے قرار دیا گیاہے کہ آئین کے تحت ریاست آزادی تقریر کے حق کے غلط استعمال اور خلاف ورزی سے غافل نہیں رہ سکتی ہے ، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل سنگل بنچ نے جمعرات کے روز سماعت کے دوران فریقین کے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اپیل کنندہ نیو ٹیلی ویژن چینل/میسرزفن انفارمیشن نیٹ ورک پرائیویٹ لمیٹڈ کی اپیلیں خارج کی تھیں، جمعہ کے روز جاری کئے گئے تحریری فیصلہ میں قرار دیا گیا ہے کہ پیمرا کے ضابطہ اخلاق 2015کی شق (10)4کے تحت ٹی وی چینلز اور ان کے پروگراوں کے میزبانوں پر لازم ہے کہ کسی بھی پروگرام کو نشر کرنے سے پہلے اس کا ادارہ جاتی جائزہ لیں، مزید برآں اس ضابطہ اخلاق کی شق 22کسی بھی لائسنس ہولڈر کو کسی شخص یا ادارے پر الزام لگانے سے روکتی ہے تا وقتیکہ اس شخص یا ادارے جس کے خلاف یہ الزام لگایا جائے کے بارے میں با وثوق اطلاع موجود نہ ہو،نیو ٹی وی چینل انتظامیہ پر یہ لازم تھا کہ اس ضابطہ اخلاق کی پابندی کرتی جس کی خلاف ورزی کی بنا پر اس کا لائسنس معطل ہوا ہے ۔ پیمرا آرڈنینس 2002کی دفعہ30کے تحت  پیمرابراڈکاسٹ میڈیا یا ڈسٹری بیوشن سروس کو معطل کر سکتا ہے،پیمرا آرڈنینس 2002کے مطابق اگر پیمرا کسی براڈکاسٹ میڈیا کا لائسنس معطل کرنا چاہے تو اسے کونسل آف کمپلینٹس کی رائے لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ،تا ہم کسی لائسنس کو معطل کرنے سے پہلے لائسنس ہولڈر کو پیمراکی جانب سے پیمرا آرڈنینس 2002کی دفعہ(3)30کے تحت نوٹس کادیا جانا ضروری ہے،ٹی وی چینلز کے لیے لازم ہے کہ اپنے پروگراموں میں اعلیٰ عدلیہ کے بارے کوئی بھی اعلان یا بیان جاری کرتے ہوئے انتہائی احتیاط برتیں، چونکہ یہ ٹی وی چینلز صحافت سے تعلق رکھتے ہیں،اس لئے ان سے توقع کی جاتی ہے کہ میڈیا قوانین بالخصوص میڈیا کے ضابطہ اخلاق 2015کے بارے مکمل طور پر آگا ہ ہوں،اگر پروگرام کے اینکر مسٹر کیو اے قریشی کا19نومبر2016 کا متنازعہ بیان جاری نہ ہوتا تو آج نیو ٹی وی کو اس مشکل صورتحال کا سامنا کرنے کی نوبت نہ آتی،ٹی وی پروگراموں سے پہلے دکھائے جانے والے لا تعلقی کے اشتہار کا نیو ٹی وی کے مذکورہ پروگرام پر اطلاق نہیں ہوتا ہے ،ضابطہ اخلاق2015کی شق(1)20اور(1)24کے تحت لائسنس ہولڈر کے لیے لازمی ہے کہ جو بھی مواد نشر ہو وہ ضابطہ اخلاق 2015کے مطابق ہونا چاہیئے ،مزید برآں ضابطہ اخلاق کی شق(2)20لائسنس ہولڈر کے لیے یہ لازم قرار دیتی ہے کہ وہ اپنے ملازمین کی مستقل تربیت کا انتظام کرے جس کی بناپر وہ اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن ادا کر سکیں،ضابطہ اخلاق 2015کی شق 20اور24کے مطابق اپیل کنندہ /نیو ٹی وی مسٹر کیو اے قریشی کی تمام بیانات کا ذمہ دار ہے،پیمرا نے اپنے فیصلہ میں مسٹر کیو اے قریشی سے خاص پروگرام کے پس منظر میں معذرت کرنے کو کہا تھا،مسٹر کیو اے قریشی کے وکیل کے مطابق ان پر جرمانہ عائد کرنے سے پہلے پیمرا نے انہیں صفائی کا موقع نہیں دیا ،اور ان کے موکل کو ان حالات میں جواب جمع کرانے کے قابل ہی نہیں سمجھا  ہے اور یہ کہنا کہ ان کا موکل عدلیہ کا احترام کرتا ہے ان کے موکل کے شکایتی بیان سے ہم آہنگ نہیں ہے ،مزید برآںآئین کے آرٹیکل 19کے تحت اظہار کی آزادی کا بنیادی حق قانون کی طرف سے لگنے والی پابندیوں سے مستثنیٰ نہیں ہے ، لہذا اپیل کنندہ کے اظہار کی آزادی ضابطہ اخلاق 2015کی پابندیوں سے مستثنیٰ نہیں ہے ، ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر اپیل کنندہ کے خلاف قانون حرکت میں آیا ہے ،بصورت دیگر بھی اپیل کنندہ /نیو ٹی وی ضابطہ اخلاق پر مکمل عمل کرنے کا پابند ہے،پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن بنام پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی(پی ایل ڈی 2016ایس سی)692میں یہ کہا گیا ہے کہ"ریاست آزادی تقریر کے حق کے غلط استعمال/خلاف ورزی سے غافل نہیں رہ سکتی ہے خاص طور پر جب معاملہ ناظرین یا سامعین سے متعلق ہو"اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ 19نومبر2016 کو  پیمرا کی طرف سے اظہار وجوہ کا نوٹس جاری ہوا26،نومبر2016 کو اپیل کنندہ نے اظہار وجوہ کا جواب جمع کرایا اوراس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ 26نومبر2016 کو اپیل کنندہ /نیو ٹی وی کے دو نمائندوں نے پیمرا ہیڈ کوارٹرز میں اپنی صفائی پیش کی لیکن اپیل کنندہ نے اظہار وجوہ کی بنیاد بننے والے مواد کو نہ تو جھٹلایا اور نہ ہی وہ ان ذرائع کی نشاندہی کر سکا جو اس کے مطابق اعلیٰ عدلیہ کے خلاف نشر کی جانے والے مواد کی پشت پر موجود تھے، صرف یہ کہ دینا کہ اس خبر کو ایک اور ٹی وی چینل نے بھی چلایا تھا کافی نہیں ہے، اگر اپیل کنندہ احتیاط کا مظاہرہ کرتا تو اسے معزز سپریم کورٹ کی جانب سے 19نومبر 2016 کوجاری کی گئی پریس ریلیز کا بھی علم ہو جاتا جس میں ʼʼدن نیوز ٹی وی چینل ʼʼکی خبر کی تردید کی گئی تھی اور وہ پریس ریلیز بھی اس فیصلے میں شامل کی گئی ہے،اگر سپریم کورٹ کی جانب سے مسٹر کیو اے قریشی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری نہیں کیا گیاہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ا سے پیمرا کی طرف سے نافذ کیے گئے ضابطہ اخلاق سے مستثنی ٰ حاصل ہے، اپیل کنندگان کو یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ عدالتی اہلکار/افسران اپنی صفائی دینے کی خاطر ٹاک شو ز میں شامل نہیں ہو سکتے ہیں،اس چیز کا ٹی وی چینلز کو نا جائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہیئے،مسٹر کیو اے قریشی کی طرف سے اعلیٰ عدلیہ کے ایک جج اور ایک سیاسی جماعت کے رہنما کے درمیان ہونے والی ملاقات کے سیاسی یا اخلاقی پہلوئوں پر سوال اٹھانا اعلی عدلیہ کے ارکان کی ذات پر تہمت لگانے کے مترادف اور ضابطہ اخلاق 2015کی شق (j)(1)3کی صریحاًخلاف ورزی ہے،پیمرا آرڈنینس 2002کی دفعہ(6)29کے تحت پیمرا ایک لائسنس ہولڈر کو صفائی کا موقع دینے کے بعددس لاکھ روپے جرمانہ کر سکتا ہے۔
تازہ ترین