• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیوز لیک انکوائری، سیکورٹی اجلاس میں کوئی بلیم گیم نہیں ہوا تھا

لاہور (شاہد اسلم) حکومت کے اعلیٰ نمائندوں نے نیوز رپورٹ کی اشاعت کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کو بتایا ہے کہ قومی سلامتی کے اجلاس میں تمام معاملات پر کھُل کر تبادلہ خیال ہوتا ہے تاکہ مستقبل کا لائحہ عمل تیار کیا جا سکے۔ دی نیوز کو معلوم ہوا ہے کہ امور خارجہ پر وزیراعظم کے مشیر طارق فاطمی، خارجہ سیکریٹری اعزاز چوہدری، سابق وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید، وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر محمد مالک نے 6؍ اکتوبر 2016ء کو شایع ہونے والی خبر ’’دہشت گردوں کیخلاف اقدامات یا عالمی تنہائی کا سامنا: سویلینز نے فوج کو بتادیا‘‘ (لیک ہونے والی خبر) کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کے پاس اپنے بیانات جمع کرا دیئے ہیں۔ کمیٹی اُن حالات اور اس خبر کی اشاعت کے پیچھے محرکات کی تحقیقات کر رہی ہے جن میں یہ خبر لیک ہوئی تھی۔ کمیٹی کو ذمہ داروں کے تعین کا بھی ٹاسک دیا گیا ہے۔ سرکاری حکام نے کمیٹی کو بتایا ہے کہ ’’اس طرح کے قومی سلامتی کے اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں تمام معاملات پر خوشگوار انداز میں تبادلہ خیال ہوتا ہے لیکن کوئی ادارہ کسی دوسرے ادارے پر الزام عائد نہیں کرتا۔‘’ انہوں نے کمیٹی کو مزید بتایا کہ سویلین اور فوجی قیادت نے تمام مسائل، دہشت گردی، انتہا پسندی، اندرونی و بیرونی خطرات اور ان سے نمٹنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ بند دروازوں کے پیچھےاجلاس میں شریک سویلین عہدیداروں نے صوبے میں فوج پر کالعدم عناصر کو تحفظ دینے یا ان کی حمایت کرنے کا الزام عائد کیا۔ ذرائع نے سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری کے بیان کا حوالہ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ بھی بالکل غلط ہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ اور وزیراعلیٰ پنجاب کے درمیان صوبے میں کالعدم تنظیموں سے نمٹنے کے حوالے سے کوئی بحث ہوئی تھی۔ ہر چیز پر انتہائی خوشگوار ماحول میں تبادلہ خیال ہوا تھا۔‘‘ ذرائع نے ان کے حوالے سے مزید کہا ہے کہ انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ اجلاس میں پاکستان کے تنہائی کا سامنا کرنے کے بارے میں کوئی بات کی گئی تھی۔ پاکستان کو تنہائی کا سامنا ہے اور نہ ہی آنے والے دنوں میں اسے ایسے کسی حالات کا سامنا ہوگا۔ سیکریٹری خارجہ نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ ’’ہم نے اپنے علاقائی اور عالمی معاملات میں تبدیل ہوتے منظرنامے پر تبادلہ خیال کیا کیونکہ اب نئے اتحاد قائم ہو رہے ہیں۔ ہم نے اس بات پر تبادلہ خیال کیا کہ ہمارے ارد گرد جو تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں انہیں مد نظر رکھتے ہوئے ہم کس طرح اپنی حکمت عملی مرتب کریں۔‘‘ ذرائع کے مطابق، سینیٹر پرویز رشید نے تحقیقاتی کمیٹی کے ارکان کو بتایا کہ اخبار کی جانب سے منتخب وزیراعظم پر یہ بہت بڑا الزام ہے کہ وہ صورتحال کو اس طرف لے گئے جس کے نتیجے میں خفیہ ادارے کے سربراہ اور وزیراعلیٰ پنجاب کے مابین بحث ہوئی۔ اخبار کی طرف سے یہ بے بنیاد الزام تھا اور وزیراعظم ایسا کام کیوں کریں گے۔ نیوز لیک کے تنازع کی وجہ سے اپنے منصب سے محروم ہونے والے سابق وزیر اطلاعات نے کمیٹی کو بتایا کہ مسئلے کا سامنا ہوتے ہی اس طرح کے تبادلہ خیال پر مشتمل اجلاس ہوتے رہتے ہیں لیکن ان کا مطلب ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے کا کھیل کھیلنا (بلیم گیم) نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہماری سلامتی کے ادارے انتہاپسندی اور دہشت گردی کو پاکستان سے ختم کرنے کیلئے سخت محنت کر رہے ہیں۔ اجلاس میں پاکستان کو خارجہ تعلقات سے متعلق جن مسائل کا سامنا ہے ان پر بھی تبادلہ خیال ہوا تھا اور اس کا مقصد آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنا تھا۔‘‘ پیشرفت سے آگاہ ذرائع نے مزید بتایا کہ انکوائری کمیٹی نے ڈان کے خبر شایع کرنے والے صحافی سرل المیڈا کا بیان بھی ریکارڈ کیا ہے۔ سرل کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے ذرائع نے بتایا کہ سرل نے خبر میں رپورٹ کی گئی تفصیلات کی تصدیق کی اور اس کی دوبارہ جانچ پڑتال بھی کی۔ انہوں نے حکومت کا رد عمل معلوم کرنے کیلئے خبر فائل کرنے سے قبل پرویز رشید سے ملاقات کی بھی تصدیق کی۔ سرل نے کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ حکومتی موقف کیلئے سینیٹر پرویز رشید سے ملاقات سے قبل ان کے پاس خبر میں رپورٹ کی گئی تمام تر تفصیلات موجود تھیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سرل نے کمیٹی کو یہ کہتے ہوئے خبر کا ذریعہ بتانے سے انکار کردیا کہ قانون کے تحت انہیں اپنے ذریعے کا نام افشا کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ڈان اخبار کی انتظامیہ نے بھی اپنا بیان ریکارڈ کرا دیا ہے اور خبر کا مکمل دفاع کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈان کے ایڈیٹر ظفر عباس بھی 16؍ نومبر کو انکوائری کمیٹی کے روبرو پیش ہوئے اور  6؍ اکتوبر کو قومی سلامتی سے متعلق اجلاس کے حوالے سے اپنے اخبار میں شایع ہونے والی خبر کا دفاع کیا۔ ذرائع کے مطابق، انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ اخبار نے متعدد ذرائع سے تمام حقائق کی تصدیق کے بعد خبر شایع کی تھی۔ بذریعہ ای میل دی نیوز کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ایڈیٹر ڈان ظفر عباس نے کہا ہے کہ ’’یہ درست ہے کہ میں انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہوا تھا اور میں نے ان کے سوالات کے جواب میں ڈان کی ایڈیٹوریل پالیسی اور خبریں جمع کرنے سے متعلق طریقے کے بارے میں اپنا موقف پیش کیا تھا‘‘۔ انہوں نے مزید لکھا ہے کہ اگرچہ ’’میں پورے یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس معاملے کی سماعت سرکاری طور پر یا کسی حکم کے تحت ان کمیرا ہورہی ہے لیکن انکوائری کمیٹی نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ میں سماعت کے حوالے سے سرعام بات نہ کروں اور ایک اصولی شخص ہونے کی وجہ سے اجلاس میں جو کچھ ہوا اس کے بارے میں تفصیلات میں کسی کو شریک کرنا نہیں چاہتا۔‘‘ انہوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ خبر سے متعلق ایڈیٹر کا جامع جواب 12  اکتوبر 2016 کو شائع ہونے والے اداریے میں آگیا تھا۔ ظفر عباس نے اپنے جواب میں مزید وضاحت کی ہے کہ ذریعے اور میٹریل کے ساتھ کسی خبر کے ذرائع کے تحفظ کے حوالے سے ڈان کی پوزیشن دیگر تمام اخبارات کی طرح ہے اور اسے 10 نومبر 2016 کو پریس کونسل آف پاکستان کی متفقہ قرارداد کے ذریعے مزید مضبوط کیا گیا ہے۔ اپنے جواب کے آخر میں انہوں نے لکھا ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر معذرت خواہ ہیں کہ وہ پروسیڈنگ سے متعلق تفیصلات سے آگاہ نہیں کرسکتے تاہم مجھے امید ہے کہ میں نے جو کچھ اوپر بیان کیا ہے اس سے معاملے پر ہماری پوزیشن سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ دریں اثنا پرنسپل انفارمیشن افسر راؤ تحسین نے بھی اس نمائندے سے تصدیق کی ہے کہ انہوں نے اپنا بیان انکوائری کمیٹی کے سامنے ریکارڈ کرایا ہے اور ان کا نیوز لیک کے معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اجلاس والے روز وہ شہر سے باہر تھے۔ انکوائری کمیٹی نے وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر محمد مالک کا بیان بھی ریکارڈ کیا۔ محمد مالک نے تفتیشی کمیٹی کو بتایا کہ سرل المیڈا نے وزیراعلیٰ پنجاب اور خفیہ ایجنسی کے سربراہ کے مابین کسی بحث سے متعلق حکومتِ پنجاب کے موقف کیلئے بالکل رابطہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا، ’’ہم نے صحافی کو بتایا کہ اجلاس میں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔‘‘ مشیر نے کمیٹی کو بتایا کہ صحافی نے اپنی خبر میں اُن کا موقف شامل نہیں کیا اور اگلے ہی دن انہیں اس کی تردید جاری کرنا پڑی۔ انکوائری کمیٹی نے پرنسپل انفارمیشن افسر رائو تحسین انور پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ اور دو دیگر سینئر صحافیوں کے بیانات بھی ریکارڈ کیے۔ رابطہ کرنے پر اعزاز چوہدری نے کہا کہ وہ نیوز لیک کے معاملے پر چلنے والی انکوائری پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’برا نہ مانیئے، میں اس مسئلے پر بات نہیں کروں گا۔‘‘ دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ ’’مجھے کمیٹی کے سامنے جو کہنا تھا وہ میں جمع کرا چکا ہوں اور اب اس پر تبصرہ کرنا پسند نہیں کروں گا۔‘’ انہوں نے کہا کہ اب یہ کمیٹی کے ارکان پر منحصر ہے کہ وہ جب مناسب محسوس کریں اپنی تفتیش کے نتائج سے آگاہ کریں۔ قبل ازیں انہوں نے دی نیوز کو بتایا کہ وہ تفتیش کرنے والوں کے سامنے پیش ہوں گے اور انہیں مکمل سچ سے آگاہ کریں گے۔ اس نمائندے نے بذریعہ کال اور ٹیکسٹ میسج سرل المیڈا سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے جواب نہیں دیا۔ انکوائری کمیٹی نے زیادہ تر بیانات پنجاب ہاؤس، اسلام آباد میں ریکارڈ کیے ہیں۔ قبل ازیں کمیٹی نے تین اکتوبر کو ہونے والے این ایس سی اجلاس سے متعلق ریکارڈ بشمول پی ایم آفس میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کرنے والوں کی تفصیلات اور اجلاس کے نکات وغیرہ اپنے قبضے میں لے لیے،کمیٹی نے ریکارڈ کا جائزہ لینے کے لئے کچھ فارنسک ماہرین کی مدد بھی حاصل کی ہے۔
تازہ ترین