• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلاول کا عزم پیپلز پارٹی کو سیکولر اور لبرل بائیں بازو کی جماعت بنانا ہے

اسلام آباد ( تجزیہ / انصار عباسی) بلاول بھٹو زرداری جانے اور سمجھے بغیر محض نعروں اور بیان بازی سے چاہتے ہیں کہ 2018 میں پاکستان کے وزیراعظم بن جائیں۔ اس طرح سے وہ عوام کو پیپلز پارٹی کی جانب متوجہ نہیں کر سکتے۔ ان کی پارٹی اپنے خراب طرز حکمرانی اور کرپشن کے باعث سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے ۔ بلاول نے اپنے ٹوئیٹس میں ’’ نئی پیپلز پارٹی ‘‘ کی رونمائی کا تاثر دیا جس کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ نئی پیپلز پارٹی ترقی پسند اور لبرل ہوگی۔ وہ سیکولر ایجنڈے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے 2018 کے عام انتخابات جیتنے کے خواہاں ہیں، وہ بھی اس بوجھ سے چھٹکارا پائے بغیر جس کا وزن ان کی اونچی اڑان میں مانع ہے ۔ ان کا بیان ،ٹوئیٹس اور اقدامات تمام اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ پیپلز پارٹی کو لبرل، سیکولر اور بائیں بازو کی نمائندہ جماعت بنانا چاہتے ہیں، وہ ذوالفقار علی بھٹو کی طے کردہ آئینی حدود سے دور جا رہے ہیں اور آئین کے اسلامی تقاضوں پر چلنے یا پورا کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ 1973 میں ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں قومی اسمبلی کے تحریر کردہ آئین کے خلاف بلاول پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی مسیحی کو پاکستان کا  منتظم اعلیٰ(وزیر اعظم) دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ اسلامی تعلیمات اور 1973 کے آئین کے تحت ممکن ہی نہیں ہے اگر بلاول واقعی اقلیتوں کو بااختیار بنانا چاہتے ہیں تو وہ سندھ سے کسی اقلیتی رکن کو چاہے وہ ہندو ہو یا عیسائی، اسے صوبے کا وزیراعلیٰ منتخب کرا سکتے تھے ۔ کیونکہ 1973 کے آئین کے تحت یہ ممکن ہے ۔ بلاول کی چیئرمین شپ میں اس وقت پیپلز پارٹی تنظیم نو کے عمل سے گزر رہی ہے  لیکن اقلیتوں سے پیپلزپارٹی کے کسی ایک بھی رکن کو پارٹی میں کوئی اعلیٰ عہدہ نہیں دیا گیا ، وہ کسی ایک کو پیپلز پارٹی کا شریک چیئرپرسن نامزد کر سکتے تھے۔ بلاول حال ہی میں سندھ اسمبلی سے منظور اقلیتوں کے تحفظ کے متنازع بل پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس بل کا  بظاہر مقصد ہندوئوں کو جبری مسلمان بننے سے روکنا ہے ، لیکن درحقیقت یہ بل 18  سال سے کم عمر کسی بھی شخص کو اپنی مرضی سے قبول اسلام سے بھی روکتا ہے ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جمعہ دو دسمبر کو اسی طرح کا ایک مسودہ قانون کو قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی برائے انسانی حقوق نے اسے غیر اسلامی اور انسانی حقوق کے خلاف قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔ اسے مسترد کرنے میں پیپلز پارٹی کے ارکان بھی شامل تھے۔ اجلاس میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ ذوالفقار علی بھٹو کے 1973 کے آئین کے تحت قرآن و سنت اور اس کی تعلیمات کے خلاف کوئی دستور سازی نہیں ہو سکتی۔ پاکستان میں اقلیتوں کو آئینی حقوق دیئے جانے کی ضرورت ہے ۔ ان سے اسلامی تعلیمات کے مطابق سلوک کیا جانا چاہئے لیکن نعرے مارنے یا دکھاوے کے اقدامات کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ایک ترقی پسند اور لبرل رہنما کی حیثیت سے اپنی افادیت ثابت  کرنے کیلئے بلاول نے سندھ ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ کے ایک افسر کے جاری کردہ نوٹس پر سخت اعتراض کیا ہے ، جس کے تحت نجی اسکولوں میں رقص و موسیقی کی کلاسوں پر پابندی عائد کی گئی۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے مذکورہ نوٹس منسوخ کئے جانے کے بعد بلاول نے ایک ٹوئیٹ میں کہا ’’  یہ اپنی ثقافت دوبارہ حاصل کرنے کا وقت ہے ، ڈانس سندھ، ڈانس و ہائل یو کین‘‘۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 کے آئین میں جو عہد کیا تھا، بلاول اس کے انحراف میں سیکولر ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔ قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے بجائے ان کے خیال میں بائیں بازو کی سیاست کے ذریعہ مطلوبہ مقاصد اور نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ ایسا کبھی ماضی میں ہوا اور نہ اب ہوگا۔ اپنے خطابات میں وہ خراب طرز حکمرانی اور کرپشن کے خلاف بات کرتے ہیں۔ درحقیقت 2013 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا خاتمہ 2008 سے 2013  کے درمیان خراب طرز حکمرانی اور کرپشن کی وجہ سے ہی ہوا تھا۔ پلڈاٹ جیسے آزاد اور غیر جانبدار اداروں کے جائزوں کے مطابق گورننس اور کرپشن کے حوالے سے تمام صوبوں میں سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت اور مرکز میں بھی گزشتہ حکومت کی کارکردگی بدترین رہی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے بلاول کو اس اضافی بوجھ سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا جو پارٹی کو کھائے جارہا اور اس کے مستقبل کا پیچھا کر رہا ہے  ، جو لوگ کرپشن کے حوالے سے بدنام اور چیئرمین کے ساتھ اپنے تعلقات سے قطع نظر کتنے ہی اہم کیوں نہ ہوں، اگر بلاول پارٹی کا احیاء چاہتے ہیں تو انہیں سائیڈ لائن کرنا ہوگا۔ ورنہ 2018 میں پاکستان کا وزیراعظم بننے کا سوچنا دن میں خواب دیکھنے کے مترادف ہوگا۔
تازہ ترین