• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکمراں وفاق میں ہوں یا صوبوں میں خصوصا خیبرپختونخوا میں ان کی زبانی بہت عرصے سے ایسی خبریں سن رہے ہیں کہ دنیا خصوصا چین پاکستان میں بڑے بڑے مال (مارکیٹس) بنانے کے لئے سرمایہ کاری میں انتہائی درجے کی دلچسپی رکھتا ہے یہی حال فرانس کا بھی بتایا جارہا ہے اورروس کی کمپنیوں کی بے قراری کی بھی یہی کیفیت ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں معدنیات اورسیاحت کے میدان میں سرمایہ کاری کی خوش خبریاں سننے کوملتی ہیں۔ ہم عام لوگوں کو یہ توبتایا جاتا ہے کہ سرمایہ کاری ہونے کے بعد کیا کچھ بدلے گا اورپورے پاکستان خصوصا ان صوبوں میں کیا تبدیلی آئے گی اورایسا ہونے کے بعد کی دنیا کیسی ہوگی ان سب باتوں سے بے خبرمجھ جیسے پاکستانیوں کے ذہن میں یہی سوال آتا ہے کہ آخراس سرمایہ کاری سے ہوگا کیا ؟ اوراس کے مقامی طورپرکیا فائدے ہونگے؟ ایسے بہت سے سوالات ذہنوں میں ابھرتے ہیں کہ سرمایہ کارایسا کیا کرتے ہیں جس سے انہیں فائدہ ہوتا ہے اورمقامی لوگ بھی خوشحال ہوجاتے ہیں اس کے ساتھ یوں بھی ہوتا ہے کہ ہم سوچ رہے ہوتے ہیں کہ اس کے بدلے میں مقامی لوگوں یعنی ملک اورصوبوں کی حکومتوں کو کیا کرنا پڑتا ہے۔ایسے بہت سارے سوال ذہنوں میں لئے گھومتے گھامتے نیویارک میں دریا کے دوسرے کنارے مجھے فطرت کے نظارے دکھانے کے خواہش مند دوست نے اپنی نئے ماڈل کی گاڑی چلاتے ہوئے اچانک ایک بات کہہ دی اورمجھے میرے بہت سے سوالوں کا جواب مل گیا۔ کہنے لگا یہ جودریا کے دوسرے کنارے کاروباراورسیاحت کی جنت یعنی مین ہٹن کا علاقہ نظرآرہا ہے اس کو دیکھ رہے ہومیں نے کہاہاں، کہنے لگا امریکہ کو یہاں سے کتنی کمائی ہوتی ہے تم سوچ بھی نہیں سکتے میں نے کہا کہ ہاں اتنی دولت صرف کی ہے توکمائی تواس کا حق ہے جس پروہ مسکرایا اورکہا کہ کمال تویہی ہے کہ امریکہ نے یہاں پرسوائے امن کے کچھ زیادہ صرف نہیں کیااوراس علاقے میں خرچ ہونے والےہرڈالرمیں سے امریکہ کو اپنا حصہ ملتا ہے ہاں اس نے صرف دوچیزیں یقینی بنائی ہیں امن اورقانون کی عملداری،،،،، اس کے علاوہ کچھ بھی امریکہ کا نہیں۔ میں نے کہا پھریہ اتنی بڑی عمارتیں جنہیں مکمل طورپردیکھنے کے لئے بھی ان سے کئی کلومیٹردورجانا پڑتا ہے کس کی ہیں اورکیسے بنیں۔
تھا تووہ ڈاکٹرلیکن علم کے بہت سے بکھیڑے اس نے پال رکھے تھے اسے یہ بھی پتہ تھا کہ اس مین ہٹن میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری چینیوں نے کی ہے، اس کے بعد باری آتی ہے عربوں کی جو اپنی دولت یہاں صرف کرکے سیاحوں کی اس جنت سے اپنا حصہ بٹوررہے ہیں، اس کے بعد باری ہے ہندوستانیوں اوردیگرممالک کے مالدارلوگوں کی جویہاں دن رات جاری رہنے والے کاروبارمیں اپنا پیسہ لگاتے ہیں اوراس سے مال بناتے ہیں ہاں البتہ امریکہ نے اس علاقے کو ایک بہترین بلدیاتی اورشہری نظام زندگی دیا ہے، نیویارک میں دنیا بھرسے روزانہ سینکڑوں ہزاروں سیاح آتے ہیں جن کے لئے مقامی حکومت نے شہرکی سڑکوں کو آمدورفت اورسیرسپاٹے کے لئے صاف اورشفاف رکھا ہوا ہے اورٹریفک کے رش کو کنٹرول کرنے کے لئے شاید دنیا کا بہترین حل سوچا ہے کہ مقامی لوگوں کی اپنی گاڑیوںمیں شہرآنے کی دل شکنی کی جاتی ہے ، گاڑی کو شہرکے اندرلانے کواتنا مشکل بنادیا گیا ہے کہ ارب پتی لوگ بھی شہرآنے والی بسوں اورٹرینوںکو استعمال کرتے ہیں، اپنی گاڑی نہیں لاتے جس کی وجہ سے شہرکی سڑکوں پرگاڑیوں کا رش کم ہوتا ہے۔ اب یہی دیکھ لیں کہ شہرمیں کہیں پربھی کارپارکنگ مفت دستیاب نہیں نیوجرسی کی جانب سے دریا کے نیچے سے گزرنے والی سرنگ میں سے کارگزارکے لانے والوں کو شہرمیں آنے اورجانے کے پندرہ پندرہ ڈالریکطرفہ دینے پڑتے ہیں جو پاکستانی کرنسی میں سولہ سوروپے کے لگ بھگ بنتے ہیں اورشہرمیں پارکنگ کے لئے فی گھنٹہ ایک بڑی رقم الگ سے دینی پڑتی ہے تاہم اس سرنگ سے گزرنے کے لئے ایک اوردلچسپ بات بھی جاننی ضروری ہے کہ اگراپنی ہی کارمیں آپ اپنے ساتھ کچھ اورلوگوںکو بٹھاکرلے آئیں توآپ کو حکومت کی جانب سے انعام ملے گا جس میں گاڑی کے مالک کو پندرہ کی بجائے شاید تین یا چارڈالردینے پڑیں گے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ آپ اپنے ساتھ کارمیں تین چارلوگوں کو بٹھاکرلائے اس لئے آپ نے ان کاروں کو شہرکی سڑکوں پربوجھ بننے سے روک لیا اوریوں آپ اپنے شہرکی خدمت کے حامل قرارہوئے۔ یہ ایک شہرکا نظام ہے لیکن جن ممالک خصوصا سوئٹزرلینڈ، ترکی یہاں تک کہ ہندوستان نے بھی بیرونی سرمایہ کاری خصوصا سیاحت میں نام اورپیسہ بنایا ہے وہاں پرسرمایہ کاروں کو ایسا ہی امن اورنظام دیا جاتا ہے تاکہ وہ پورے سکون کے ساتھ وہاں پیسہ لگاسکیں خود بھی کمائیں اورحکومت کو بھی اس کا حصہ دیں۔یہ الگ بات ہے کہ ہندوستان اپنے ہاں پائے جانے والے مسائل مثلا سیاح خواتین کے ساتھ زیادتی کے معاملات کی وجہ سے کافی بدنام ہوچکا ہے اوراس کی انتہائی نازیبا کہانیاں روزانہ میڈیا کی زینت بن رہی ہیں۔جوبھی ہودنیا میں بیرونی سرمایہ کاری کے لئے مواقع کی جب اپنے ہاں نظرڈالتے ہیں تودل خون کے آنسو روتا ہے ہم نے امن کے قیام کے لئےحکومتوں اورمعاشروں کی سطح پرکہیں بھی سرمایہ کاری نہیں کی اس لئے ہماری جنتیں سوات، مری، ہزارہ ، گلگت بلتستان اورسندھ و بلوچستان اورپنجاب میں ایسے مقامات غیرملکی سیاحوں سے بالکل خالی ہیں۔ جہاں کہیں امن ہے بھی وہاں پرہمارے ہاں ٹریفک کا نظام اتنا خراب اورگنجلک ہے کہ منٹوں کے راستے گھنٹوں میں طے ہوتے ہیں بلدیات یعنی صفائی تونہ ہونے کے برابر ہے گندگی کے ڈھیر جابجا لوگوںکو منہ چڑاتے ہیں۔
ایسے میں دنیا کو اپنے ہاں بلانے سے پہلے ذراان ممالک کے ان کاموں کو بھی دیکھنا ہوگا جہاں اس وقت سیاحوں کارش اوردولت کی فراوانی ہے۔اپنے آپ کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے ان حالات پربھی توجہ دینی ہوگی اورایسا کرلیاتوپھردنیا ہماری جنتوں میں بھی آئے گی۔




.
تازہ ترین