• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک کی پانی اور بجلی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نئے ڈیموں کی تعمیر لازمی ہے لیکن ماضی کے ادوار میں اس بارے میں سنگین غفلت اور کوتاہی کا مظاہرہ کیا جاتا رہا۔ کالا باغ ڈیم پر قومی اتفاق رائے میں ناکامی کے بعد مشرف دور میں دیا مر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا فیصلہ ہوا اور اس کی تکمیل کے لیے پہلے2016ء اور پھر2019ء کا ہدف مقرر کیا گیا لیکن عملی طور پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ موجودہ وفاقی حکومت نے اس اہم منصوبے کو ترجیحی بنیادوں پر شروع کرنے کا فیصلہ کیا ، منصوبے کے لیے رواں مالی سال کے پہلے تین ماہ میں جاری کیے گئے 14 ارب روپے سمیت اب تک مجموعی طور پر72 ارب روپے جاری کیے جاچکے ہیں لیکن ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق حکومت اور واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے ڈیم کے لیے سال رواںکے ماہ جون تک زمین کے حصول کا جو ہدف مقررکیا تھا وہ اب تک حاصل نہیں کیا جاسکا ہے۔وزارت پانی وبجلی نے گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ منصوبے کے لیے37 ہزار419 ایکڑ زمین کی ضرورت ہے جس میں سے اب تک28 ہزار247 ایکڑ زمین حاصل کی گئی ہے جبکہ 9 ہزار172 ایکڑ زمین کا حصول ابھی باقی ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ یومیہ ساڑھے چار ہزار میگاواٹ اور سالانہ19ہزار 208 گیگا واٹ بجلی کی پیداوار کا ذریعہ بنے گا۔رپورٹ کے مطابق منصوبے کے لیے حکومت پوری طرح پرعزم ہے اور زمین کی منتقلی و رجسٹری اور متاثرہ افراد کی آبادکاری وغیرہ کے معاملات منصوبے کے آغاز سے پہلے ہی طے کرلیے گئے ہیں تاکہ تعمیر اتی کام میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو۔ حکومت کی یہ مستعدی یقیناً اطمینان بخش ہے تاہم منصوبے کے لیے باقی زمین کے حصول میں بھی فوری پیش رفت ضروری ہے تاکہ اس کی بروقت تکمیل یقینی بنائی جاسکے اور تاخیر کی بناء پر لاگت میں خطیر اضافے سے بچا جاسکے جس کا نہایت تلخ تجربہ منگلا ڈیم کے توسیعی منصوبے میں تاخیر کی بناء پر43 ارب روپے کے اضافی خرچ کی شکل میں ہوچکا ہے ۔

.
تازہ ترین