• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان ترکی کا برادرملک ہے چاکر ملک نہیں اور میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ نہ طیب ترکی ہے نہ نواز شریف پاکستان اوراعتدال کا رستہ ہی بہتر محفوظ اور ہموار ہوتا ہے۔ فتح اللہ گولن اور اس کے لاتعداد چاہنے والے بھی اتنے ہی ترک ہیں جتنے طیب اور ان کےساتھی لیکن ہم نے کیاکیا؟ کوشش کی جاسکتی تھی ان کے درمیان مفاہمت کی جبکہ ہم ’’پارٹی‘‘‘ بن گئے۔عالم اسلام میںشاید ہی کوئی تعلیمی ادارہ یا اس قسم کی CHAIN 21 سال سے دنیا بھر میں اتنا معیاری کام سرانجام دے رہی ہو۔ یہ پاکستان کا پہلا مصدقہ آکسفورڈ کوالٹی سکول ہے جس کی26شاخیں، 1700 میں سے 108ترک اساتذہ اور گیارہ ہزارطالب علم پورے پاکستان میں موجودہیں۔ 2006 میںاس ادارہ کو ستارہ ٔ ایثار سے نوازا گیا۔ 2008میںوزیراعظم نے بک آف آنر کا خطاب دیا۔ 173میڈلز سے نوازا گیا۔ 35ملکوںکے درمیان تدریسی مقابلہ میں اس تعلیمی ادارہ نے شاندار کارکردگی کامظاہرہ کرتے ہوئے گولڈ، سلور، کانسی کے میڈلز جیتے۔ پاک ترک سکولز کے 50طلبا دنیا بھر کی 36بڑی یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم ہیں۔ حال ہی میں پاک ترک کی ایک طالبہ نے اکائونٹنگ میں دنیا بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ لاہور بورڈ میں اس کے طلبا نے دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کی۔ 60 فیصد سے زائد طلباکو وظیفہ دیا جاتا ہے اور شکرگڑھ، شیخوپورہ، منڈی بہائو الدین وغیرہ جیسے چھوٹے شہروں سے میرٹ پر منتخب کیا جاتا ہے لیکن ہماری حکومت کو کچھ بھی دکھائی دیا نہ سنائی دیا کہ ان کے پاس دیکھنے سننے والے ’’پرزے‘‘ ہی موجود نہیں۔ترک اساتذہ کی زبردستی ملک بدری کی مکروہ اور خوشامدانہ کوشش بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بھونڈی مثال بھی ہے کیونکہ یو این ہیومن رائٹس چارٹر کے مطابق اگر کوئی بھی غیرملکی جو پاکستان میں قیام پذیر ہو اور اسے اپنے ملک میں کسی بھی قسم کا خطرہ لاحق ہو تو پاکستان اس کی جان و مال کی حفاظت کاذمہ دار ہے لیکن ہم نے اپنے محسنوں کے ساتھ کیا کیا؟ملک بدرکرنے کے بھی تین طریقے ہیں1۔ ناپسندیدہ شخص قرار دیا جاتا ہے۔2۔ مکمل تفتیش کی جاتی ہے۔3۔ اگر جرم ثابت ہوجائےتو باقاعدہ نوٹس دیا جاتا ہے۔ پھر بھی خلاف ورزی کی جائے تو ملک بدر کیاجاتا ہے۔افسوس ’’جوش جذبات‘‘ میںان میں سے کسی پر بھی عمل نہ کیاگیا۔ بندہ پوچھے پاکستان میں 21سال سے مقیم ان ترک اساتذہ کی طرف سے کبھی کوئی ایک شکایت بھی سامنے آئی؟ کیا کبھی کسی ’’ایجنسی‘‘ نے ان کی کسی ’’خفیہ‘‘ یا ’’قابل اعتراض‘‘ حرکت کی طرف اشارہ بھی کیا تو تم ’’ذاتی تعلقات‘‘ بنانے کے شوق میں کیا کچھ بگاڑنے پر تل گئے؟ نہ یہ پاکستان کے ساتھ دوستی ہے نہ ترکوں کے ساتھ۔اب کچھ ’’معارف تنظیم‘‘ کے بارے میں جو صرف ایک سیاسی تنظیم ہی نہیں بلکہ طیب اردوان کی AKP پارٹی کےزیرتحت بھی ہے جس کا اصل مقصد پاک ترک سکولوں پر قبضہ ہے اور پاکستانی حکومت نے اپنے مخصوص آمرانہ انداز میں اسے ایک دن کے اندر اندر رجسٹر کیا جبکہ رجسٹریشن کے لئے کم سے کم ایک ماہ کا عرصہ درکار ہے۔ ترکی میں اسی تنظیم نے ان تمام مدارس کا انتظام سنبھالنے کے 3ماہ بعد اس کا سارا پیسہ سمیٹ کر ان مدارس کو دیوالیہ قراردیتے ہوئے انہیں بند کردیا۔ یہی نہیں طلبا کے ساتھ زیادتی تشدد کے واقعات بھی سامنے آئے اور وہاں جن چینلز پر اس کے خلاف آواز اٹھائی گئی، انہیں بند کردیا گیا۔ترکی خود اپنی شرح خواندگی بڑھانے سے قاصر ہے تو کیا ان اساتذہ میں کچھ (جنہیں نمل میں 3ماہ کے انگریزی زبان کا کورس کرایا گیا یا کروایا جارہا ہے) اس قابل ہوں گے کہ وہ پاک ترک سکولز کے بچوں کو معیاری تعلیم دے سکیں۔اور پھر ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اگر ان اساتذہ کو ملک بدر کیا گیا تو کیا ان کو بین الاقوامی قانون کے تحت ایک سال کی تنخواہ یکمشت ادا کی جائے گی اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ان پاک ترک سکولوںکا قیام اس فائونڈیشن کے پاکستانی اور ترک مخیر حضرات کے ذاتی سرمایہ اور انتھک محنت کا نتیجہ ہے اور اگر کوئی اسے ٹیک اوور کرتا ہےتو کیا وہ اسے ادائیگی کاپابند ہوگا۔عالم اسلام کے بیشتر حصوں پر آمریتوں اور جہالتوں کے جالے تنے ہیں۔ بیشتر حکمران طبقات کے بیشتر فیصلے ان کے ذاتی مفادات اور ذاتی تعلقات کے گرد گھومتے ہیں اسی لئے ہماری اجتماعی رسوائی، پسپائی اور پسماندگی و درماندگی کا سفر ختم نہیں ہو رہا بلکہ سپیڈ میں تیزی آرہی ہے۔’’پاک ترک سکولز‘‘ واردات حالات کی بدصورت ترین مثال اور اللہ جانے ایسی مثالیں کب تک ہمارا مقدر بنی رہیں گی۔

.
تازہ ترین