• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مقصد کسی کی سرزنش نہیں کیونکہ ہم سرزنش سے کہیں آگے نکل چکے ہیں۔ مقصد خود احتسابی اور اپنا تجزیہ کرنا ہے۔ ہاں یہ بات واضح کردوں کہ جب میں قوم کی بات کرتا ہوں تو اس سے مطلب اکثریت ہے کیونکہ قوم کا کردار، امیج اور مجموعی تاثر ہمیشہ اکثریت کے کردار سے تشکیل پاتا اور اپنا نقش جماتا ہے۔ خود احتسابی کی کھڑکی کھولوں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ ہم من حیث القوم دن بدن سچائی، قانون، اخلاق اور نظم و ضبط سے دور ہوتے جارہے ہیں اور خود غرضی، کرپشن، لاقانونیت، دھونس اور جعل سازی کی کھائی میں گرتے جارہے ہیں۔ جھوٹ، لوٹ مار، دھوکہ دہی، قانون کی پامالی اور دھونس ہمارا قومی کردار بن چکا ہے۔ قوم کے بالائی اور حکمران طبقے ملکی دولت کو لوٹ کر بیرون ملک لے جارہے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ہر قانون، ضابطے اور اخلاق سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ ان کو ملک و قوم کے مفادات کی بجائے ذاتی اور خاندانی مفادات عزیز ہیں۔ وہ دولت سے انصاف، قانون، سرکاری ضوابط، اثر و رسوخ اور وفاداری غرض کہ ہر چیز خرید سکتے ہیں جبکہ اشرافیہ کو دیکھ دیکھ کر خود غرضی، لوٹ کھسوٹ، دھوکہ دہی اور لاقانونیت نے عام شہری کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخش ؒنے کشف المحجوب میں مشاہدات و اردات کا نچوڑ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جس قوم کی اشرافیہ اور علماء میں بگاڑ آجائے اس قوم کو بگاڑ سے بچایا نہیں جاسکتا۔میں صرف بالائی طبقات کو مورد الزام نہیں ٹھہراتا کیونکہ بحیثیت مسلمان ہم میں سے ہر شخص اپنے اپنے اعمال کا ذمہ دار اور جوابدہ ہے لیکن میں صورتحال کا تجزیہ کرتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ لاقانونیت، لوٹ مار، دھونس اور کرپشن کا جو سلسلہ اوپر سے شروع ہوا تھا اس نے سیلاب کی شکل اختیار کرکے ساری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، خوف خدا کے مارے جو لوگ اس سیلاب کے باوجود اپنےدامن خشک رکھنے میں کامیاب ہیں، وہ یقیناً آزمائش میں سرخرو ہوں گے اور اس کا اجر پائیں گے۔
کسی قوم کے مجموعی کردار، رویے، ذہنی رجحان اور سماجی انداز کا اندازہ لگانا ہو تو بقول کارینگی اس قوم کو شاہراہوں اور سڑکوں پر دیکھو۔ اس آئینے میں آپ اپنی قوم کا حال دیکھ لیجئے۔ لاقانونیت کا جو غدر آپ کو سڑکوں پر نظر آئے گا اس کی مثال شاید دنیا بھر میں نہ ملے۔ ہر کوئی اتنی جلدی میں مبتلا ہوتا ہے کہ اس کے لئے ٹریفک کا ضابطہ کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا۔ لندن شہر کی سڑکیں ہماری سڑکوں سے چھوٹی اور اکثر اوقات ڈبل لین ہوتی ہیں لیکن مجال ہے کوئی شخص اپنے آپ کو قانون و ضابطے سے بالا تر سمجھتے ہوئے آگے جانے کی کوشش کرے، ٹریفک سگنل توڑے، اپنی لین اور جگہ سے ہٹے ، نو پارکنگ والی جگہ یا فٹ پاتھ پر گاڑی پارک کردے وغیرہ وغیرہ۔ ہمارا مجموعی رویہ کچھ اس طرح کا ہے کہ ہم قانون، اخلاق اور اصولوں کی پامالی کو خوشی اور کامیابی کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور اس سے ہمارے احساس برتری کو تسکین حاصل ہوتی ہے۔ میں گزشتہ ایک دہائی سے ملاوٹ کے بڑھتے رجحان اور اس کے قومی صحت پہ مہلک اثرات کے خلاف لکھتا رہا ہوں لیکن ہمارے حکمران صرف سڑکوں اور انڈرپاسوں کی تعمیر کو گڈ گورننس سمجھتے تھے حالانکہ ان مسائل سے نبٹنے کے لئے سرکاری مشینری موجود تھی جسے صرف متحرک اور مضبوط بنانا تھا۔ اب ملاوٹ کی وباء اس قدر پھیل چکی ہے کہ اشیائے خوردنی ، دوائیاں، زرعی کھادوں سے لے کر جراثیم کش دوائیوں تک اور ہوٹلوں سے لے کر دودھ اور پانی تک ہر چیز ملاوٹ اور دولت کی ہوس کا شکار ہوچکی ہے۔ اس سے نہ صرف مجموعی طور پر قوم کی صحت اور خاص طور پر بچوں کی صحت پر نہایت مضر اثرات مرتب ہورہے ہیں اور طرح طرح کی بیماریاں پھیل رہی ہیں بلکہ دوائیوں کی جعل سازی کے سبب کتنے ہی لوگ علاج کے باوجود موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ہمارے معاشرے میں ماں کے دودھ اور باپ کی دعا کے علاوہ کوئی چیز خالص رہی ہی نہیں۔ کالم اجازت نہیں دیتا کہ اس کی تفصیل بیان کروں اور شاید اس کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ آپ جعل سازی، ملاوٹ، غیر معیاری اشیاء تجارتی دھوکہ دہی سے واقف ہیں اور ان کی خبریں بھی پڑھتے رہتے ہیں۔ دہائیوں کے بعد حکومت کو اس ظلم اور فراڈ کا احساس ہوا تو سرکاری مشینری کو متحرک کیا گیا۔ ذرا اپنا قومی کردار ملاحظہ فرمائیے کہ جب قانون کا اطلاق کیا جائے تو ہم اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں اور لڑائی مارکٹائی یا ہڑتالوں پر اتر آتے ہیں۔ آپ جس طبقے کو بھی فرض کا احساس دلائیں، قانون شکنی پہ ایکشن لیں، غفلت اور بے ایمانی سے روکیں وہی احتجاج کرنے سڑکوں پر نکل آتا ہے۔ نوبت ایں جارسید یعنی لاقانونیت اور اخلاق سے تہی دامنی کی وباء اس قدر پھیل گئی ہے کہ جب وکلاء کو من پسند انصاف نہیں ملتا تو وہ ججوں کے دفاتر کو تالے لگادیتے ہیں، احتجاجی حربے استعمال کرتے ہیں، ڈاکٹروں کو مریضوں سے بدتمیزی کرنے پر وارننگ دی جائے یا فرائض یاد کرائے جائیں تو وہ اسپتالوں میں ایڑیاں رگڑتے مریضوں کو چھوڑ کر سڑکوں پہ نکل آتے ہیں اور ٹریفک بلاک کردیتے ہیں، خوردنی گھی اور آئل بنانے والی فیکٹریوں کو ملاوٹی اور غیر معیاری گھی بنانے سے منع کیا جائے تو وہ ہڑتال کا اعلان کرکے فیکٹریاں بند کردیتے ہیں ،طلبہ پر مشکل آجائے یا زیادہ تعداد فیل ہوجائے تو طلبہ ٹریفک کا راستہ روک کر پتھر مارنے شروع کردیتے ہیں، ٹیکس چوری کے راستے بند کئے جائیں تو تاجر حضرات اور دکاندار ہڑتال کردیتے ہیں، دوچار خاکروبوں کو فرائض سے غفلت کی سزادی جائے تو ان کی برادری ہڑتال کا اعلان کرکے گندگی اور غلاظت پھیلتے دیکھ کر فتح و خوشی کے شادیانے بجانے لگتی ہے، غرض کے آپ پاکستانی قوم کے جس بھی طبقے کے خلاف قانون و ضابطے کی خلاف ورزی پر اقدام کریں وہ شرمندگی کی بجائے سینہ زوری پہ اتر آتی ہے۔ حکمران کلاس سے لے کر نیچے تک لوٹ مار، بے انصافی، جھوٹ، سینہ زوری، فرائض سے غفلت، کرپشن اور قانون شکنی ہمارا قومی مزاج اور کردار بن چکا ہے۔ ان تمام’’اوصاف‘‘ کے باوجود ہم مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں، پاکستان کو اسلامی ریاست بھی قرار دیتے ہیں اور اللہ سبحانہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کی بھی توقع رکھتے ہیں۔ ہمیں خدا کا خوف ہے نہ ملکی قوانین اور معاشرے کا۔ جھوٹ، ہوس، لوٹ مار اور لاقانونیت کے سمندر میں رہتے ہوئے یہ توقع کرنا کہ قوم صاف شفاف کردار والے اراکین منتخب کرے گی، عدالتی انصاف کا بول بالا ہوگا، احتساب کا نظام رائج ہوگا، غریب، بے وسیلہ اور مظلوم طبقات کی سنی جائے گی، میرٹ، اصول اور قانون کی بالادستی ہوگی محض ایک خواب اور سراب ہے۔ میں اللہ پاک کی رحمت سے ہرگز مایوس نہیں، کبھی قیام پاکستان بھی محض خواب تھا۔ دعا، آرزو اور خواب ہے انشااللہ کبھی نہ کبھی ضرور پورا ہوگا اور پاکستان صحیح معنوں میں پاکستان بنے گا۔ دعامیری عمل آپ کا!!

.
تازہ ترین