• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پیاسی زمین پر بارش کا چھینٹا پڑتا ہے تو طرح طرح کے پھل بوٹے سر نکالتے ہیں۔ سرخوشی کے اس عالم کو غالب نے کیا اچھا بیان کیا، سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی، بن گیا روئے آب پر کائی… ان دنوں وطن عزیز کا موسم بدل رہا ہے۔ بلاول بھٹو نے پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کو ہفتہ بھر پر پھیلے جشن میں بدل ڈالا۔ نئی پیپلز پارٹی کا اشارہ دیا، اعلان کیا کہ آئندہ انتخابات میں لبرل سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر حصہ لیں گے۔ پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر الزماں کائرہ نے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں بھٹو صاحب کی سیاست کو سیکولر وژن قرار دیا۔اس پر ’گرجے ہیں بہت شیخ سرِ گوشہ منبر‘۔ حکم لگایا گیا ہے کہ بلاول بھٹو ذوالفقار علی بھٹو کے نصب العین سے انحراف کر رہے ہیں۔ چلیے یوںہی سہی، بھٹو صاحب کے کچھ گناہ معاف کر دئیے گئے۔ ستر کی دہائی میں تو بھٹو صاحب سراپا طاغوت تھے۔ معصیت کا ایسا نشان تھے کہ ارباب نظر نے گیارہ برس تک آمریت کو حرز جاں بنائے رکھا۔ بعد میں بھی دیر تک اسی سنگی بت خانے کی چوکھٹ پر دھونی رمائے رکھی۔ پیدا کرنے والے کی قسم ہے کہ جان فاسٹر ڈلس کے ظلم میں آنکھ کھولنے والی ہماری نسل نے اس خوش نصیب دن کا خواب دیکھنا ہی چھوڑ دیا تھا کہ پاکستان میں میاں نواز شریف جمہوریت اور لبرل پاکستان کا جھنڈا اٹھائیں گے۔ بلاول بھٹو سندھ میں ہندوؤں کے سر پر ہاتھ رکھیں گے۔قمر الزماں کائرہ بھٹو صاحب سے سیکولر وژن منسوب کریں گے، دن پھر آئے ہیں باغ میں گل کے… میر دبیر یاد آ گئے، کبوتر غرق خوں، دیوار صغرا پہ جو آ بیٹھا… مدعا یہ کہ ’بوئے خوں ہے ایاغ میں گل کے‘۔ اچھا موقع ہے کچھ بات سیکولرازم کی صاف کر لی جائے، لبرل اقدار کا کچھ بیان ہو جائے، پھر التفات دل دوستاں رہے، نہ رہے…
ہم تو غلام برطانوی ہند کی اداس نسلیں تھے۔ ہمیں ریپبلک (جمہوریہ)، روشن خیالی، سیکولر ازم، پارلیمان اور مادی جدلیات کی کیا خبر تھی۔ ہم نے اردو کی لغت میں لکھ دیا کہ سیکولر ازم لادینیت کو کہتے ہیں۔ ظالموں نے ابو الکلام محی الدین آزاد، حسرت موہانی، سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی، حسین احمد مدنی اور ڈاکٹر ذاکر حسین پر الحاد کی تہمت دھر دی۔ سیکولر ازم ایک سیاسی بندوبست ہے جس کا سادہ اصول یہ ہے کہ ریاست کسی کے عقیدے میں مداخلت نہیں کرتی۔ ہر عقیدے کے ماننے والے شہریوں کو ایک جیسا رتبہ اور تحفظ دیتی ہے۔ سیکولر ریاست کا الٹ کیا ہوسکتا ہے؛ امتیاز، عدم رواداری اور اجارہ داری۔ عقیدہ فرد کے ضمیر سے تعلق رکھتا ہے۔ انسان معاشرے کی قدرتی اکائی ہے۔ ریاست سمیت تمام ادارے قانونی اکائی ہیں۔ قانونی اکائی کا عقیدہ نہیں ہوتا۔ عقیدہ فرد انسانی کی اقلیم سے تعلق رکھتا ہے۔ جس طرح اسپتال، کاروباری ادارے، لکڑی کی میز اور تارکول سے بنی سڑک کا عقیدہ نہیں ہوتا، اسی طرح ریاست کا بھی مذہب نہیں ہوتا۔ ریاست میں رہنے والے مختلف مذاہب کے پیروکار ہوتے ہیں اور ان سب کے عقائد سر آنکھوں پہ۔ ریاست کا کام ان تمام شہریوں کی حفاظت کرنا ہے۔ اگر بھٹو صاحب کا یہی وژن تھا تو سبحان اللہ۔ اور اگر کسی کو اس سے اختلاف ہے تو وہ بتا دیں کہ فروری 1970میں 113مذہبی علما نے بھٹو صاحب اور پیپلز پارٹی کے خلاف فتویٰ کیوں دیا تھا۔ دلچسپ بات ہے کہ سید ابو اعلیٰ مودودی نے اس فتوے پر دستخط نہیں کئے تھے۔ شوکت اسلام جلوس میں البتہ ٹھاٹھ سے شریک ہوئے۔بھٹو صاحب ہی پر کیا موقوف، قائداعظم محمد علی جناح نے گیارہ اگست 1947کو پاکستان کا سیکولر وژن پیش کیا۔ مارچ 1949میں قائداعظم کے بیانیے کی مخالفت میں قرارداد مقاصد منظور کرائی گئی۔ یہ قرار داد قانون نہیں تھی۔ مسودہ قانون کی منظوری کا کوئی اصول اختیار نہیں کیا گیا۔ ترامیم مسترد کر دیں اور قرارداد منظور کر لی۔ دستور ساز اسمبلی کے کسی ایک غیر مسلم رکن نے اس کی حمایت نہیں کی۔ قرارداد مقاصد پاکستان کا عمرانی معاہدہ نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے متفقہ آئین کی خاطر حزب اختلاف کو آئین سازی میں شریک کیا اور ملک کے اندر موجود تمام مکاتب فکر کو آئینی سمجھوتے کا حصہ بنایا۔ قرارداد مقاصد آئین کے دیباچے کے طور پر قبول کی گئی۔ تب بھٹو صاحب پر اسلامی آئین بنانے کے ڈونگرے برسائے گئے تھے۔ 1985 میں آمر نے آٹھویں ترمیم کے ذریعہ اس قرار داد کے مسخ شدہ متن کو آئین کا نافذ العمل حصہ بنایا تو کسی نے نہیں پوچھا کہ جس دستاویز پر قوم کا اتفاق ہی نہیں، اسے متفقہ آئین کا نافذ العمل حصہ کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ جولائی 1947کے قانون آزادی ہند میں پاکستان کو ایک خودمختار اور آزاد ریاست کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔ ایک آزاد قومی ریاست کے لئے سیکولر تشخص سے کوئی مفر نہیں۔
لبرل سیاست پر البتہ جمہوری اختلاف ممکن بھی ہے اور جائز بھی۔ کسی زندہ معاشرے کی طرح پاکستان میں بھی سیاسی نقطہ نظر کا اختلاف موجود ہے۔ جمہوریت میں قدامت پسند یا روشن خیال سیاست کے لئے ایک جیسی جگہ موجود ہے۔ میاں نواز شریف انفراسٹرکچر تعمیر کرنا چاہیں، خطے میں امن قائم کرنا چاہیں، لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنانا چاہیں، مذہبی دہشت گردی کو ختم کرنا چاہیں، بلاول بھٹو اقلیتوں کے لئے کلمہ خیر ادا کریں، عورتوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھائیں، نصاب تعلیم کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا چاہیں، انسانی حقوق اور آزادیوں کی بات کریں تو یہ سب لبرل سیاست ہے۔ تفرقے، امتیاز، استحصال اور تشدد کی سیاست روشن خیال سیاست نہیں ہوتی لیکن جمہوریت میں فیصلہ ووٹ کی پرچی سے ہوتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی کی سیاست سے اختلاف ممکن ہے لیکن انہوں نے انتخاب جیتا ہے۔ پاکستان میں عمران خان، سراج الحق اور مسرور نواز انتخاب میں کامیابی حاصل کریں تو یہ جمہوریت کا حصہ ہے۔ لبرل اقدار میں رواداری بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ فیض صاحب کو یاد کرتے ہیں؛ یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہمدم، وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں۔ ابھی تو سیکولر اور لبرل سیاست کی بات شروع ہوئی ہے۔ یارانِ سرپل کو اعتراض ہے کہ ایک بیانیے کے ناجائز اجارے پر آواز کیوں اٹھائی جا رہی ہے۔ یہ صدیوں پر پھیلا ہوا منظر ہے۔ کرہ ارض کے کسی حصے میں آزادی، حقوق اور رواداری کی جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی۔ کار جہاں دراز ہے، اب میرا انتظار کر۔

.
تازہ ترین