• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ’’آئین نو‘‘ نواز۔ ٹرمپ رابطہ: یہ معاملہ کچھ اور ہے کے تناظر میں زیر بحث یہ بات ہورہی تھی کہ پاکستانی دانشوروں اور سیاسی تجزیہ نگاروں کو بھارتی اور پاکستان مخالف امریکہ میڈیا کی طرح پریشان نہیں ہونا چاہئے کہ ’’پاکستان، پاکستانیوں اور پاکستانی وزیراعظم‘‘ کے توصیف سے بھرے خیرسگالی جذبات کی تفصیلات آشکار ہونے پر پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ ہمارے لئے ’’پاکستان اور پاکستانیوں‘‘ کی حد تک امریکی منتخب صدر کی تعریف و توصیف کو انٹرنیشنل کمیونٹی، سفارتی و علمی و تحقیقی حلقوں اور عالمی و علاقائی سیاست کی دنیا میں Well Recorded کرنے اور اس کو تجزیوں و تبصروں کے حوالوں میں لانا، بڑی قومی سفارتی ضرورت ہے، جو صرف رسمی انداز میں پاکستانی سفارت کاروں کی ضرورت کو کسی حد تک پورا نہیں کرے گی بلکہ ’’پیپل ٹو پیپل کانٹیکٹ‘‘ کی بنیاد پر جو غیر سرکاری سفارت کاری اقوام کی بڑی ضرورت بنتی جارہی ہے، اس میں امریکی منتخب صدر کی ہمار ے منتخب وزیراعظم سے کھلی ڈلی خیرسگالی کی آشکار تفصیلات ہمارے حق میں بڑا وزنی حوالہ بنیں گی۔ ہمارے اور امریکہ کے تعلقات کی 65 سالہ تاریخ ہر دو ملکوں کے بین الاقوامی تعلقات کی ایک بڑی قومی ضرورت کی تصدیق کرتی ہے کہ دونوں ملکوں میں تعلقات کے طویل تر اتار چڑھائو کے باوجود ایک مخصوص درجے پر باہمی تعلقات کو قائم و دائم رکھنا تقریباً ناگزیرہے۔ ’’مخصوص درجے‘‘ کا درست تعین دونوں ملکوں کا الگ الگ سفارتی چیلنج ہے۔
نواز۔ ٹرمپ رابطے کو زیر بحث لاتے ہوئے امریکی، نہ پاکستانی اور نہ ہی اس پر سب سے زیادہ سیخ پا ہونے والے بھارتی میڈیا نے موضوع کے اس پس منظر فیکٹ کو نظرانداز کردیا کہ عالمی میڈیا کی بڑی خبر بننے والا ’’نواز۔ ٹرمپ رابطہ‘‘ منتخب امریکی صدر کی ان کے عام توقعات کے برعکس منتخب ہونے پر کوئی پہلی نہیں، دوسری مبارک سلامت تھی، پہلی روایتی اور رسمی مبارکباد تو وزیراعظم نوازشریف نے ڈونلڈ ٹرمپ کے منتخب ہونے کے چند روز میں ہی دے دی تھی اور جو سفارتی چینل سے ہی دی گئی ہوگی، اس کے لئے کوئی فون نہیں کیا گیا تھا۔ پاکستانی وزیراعظم کی مبارک سلامت کی یہ خبر 11 نومبر کے پاکستانی میڈیا میں آئی۔ سارے ’’سفارتی ڈرامے‘‘ کا اہم پہلو یہ ہے کہ ’’عالمی میڈیا میں بھونچال بننے والی وزیراعظم نوازشریف کی دوسری مبارک سلامت صدر منتخب کو دوسری مبارکباد تھی اور وہ بھی فون پر پھر اس کے جواب میں ٹرمپ صاحب کا پرجوش اور پرو پاکستان رسپانس‘‘۔ یہ ’’دوسری مبارکباد‘‘ روایت شکن ہے۔ اس کی ’’امریکی صدارتی انتخاب کے بعد کے سفارتی ماحول‘‘ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ امریکی اکا دکا تجزیہ کاروں کا یہ تبصرہ بھی ان کے پاکستان سے تعصب کا آئینہ دار ہے کہ ’’نواز۔ ٹرمپ رابطے کی تفصیلات خصوصاً، صدر منتخب کے پرو پاکستان مندرجات کو من وعن آشکار کرنا سفارتی آداب کے منافی ہے‘‘۔ جب بعد از انتخابات ’’دوسری مبارک سلامت‘‘ کی کوئی روایت ہی نہیں تو ایسا کوئی سفارتی ادب بھی نہیں کہ اس کی تفصیلات باہر نہیں آنی چاہئے۔ یہ کوئی ایسی خفیہ گفتگو نہیں تھی نہ اس کا تعلق کوئی سلامتی جیسے کسی حساس موضوع یا پہلو سے ہے کہ اس کو باہر لانے میں احتیاط برتی جاتی۔ اس سے ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ایوریج پاکستانی زاویہ نگار مثبت ہی ہوا ہے۔ کیا یہ امریکہ کی سفارتی ضرورت نہیں ہے؟ اور اب جبکہ سی پیک کی تکمیل کے پاکستانی عزم اور اس میں روس کی امکانی شرکت، پھر بھارت سے امریکہ کی غیر معمولی قربت (جس کے دوررس سفارتی خسارے کو اوباما انتظامیہ سمجھ نہ سکی) کے بعد کیا آنے والی ٹرمپ انتظامیہ بھی صدر اوباما کی ڈیموکریٹ انتظامیہ کی عالمی سیاست کی روایتی امریکی گٹھ جوڑ کے مطابق بھارت سے غیر معمولی تعلقات قائم کرتے ہوئے پاکستان کو امریکہ سے مزید دور کرنے کی پالیسی ہی جاری رکھے گی؟ شاید ایسا نہیں ہوگا۔ ڈونلڈ ٹرمپ تجارتی تجربے کی ہوشیاری اور سیاست میں ان کے غیر روایتی انداز سے اپنی سوچ کا کھلا ڈلا اظہار ہی ان کی کامیابی کا ضامن بنا ہے۔ وہ اسے کیسے ترک کرسکتے ہیں؟ وزیراعظم نوازشریف سے اپنی پرو پاکستان گفتگو میں ہوسکتا ہے انہوں نے اپنے ہی ابلاغی انداز کے مطابق کہیں طنز یا مبالغہ بھی کیا ہو، لیکن انہوں نے پاکستان اورپاکستانیوں سے متعلق وہ مثبت پہلو کھل کر بیان کئے جن کا اعتراف امریکی حکام کے ذہن و قلب میں تو اپنے تجربات کی روشنی میں موجود ہے لیکن اس پر روشنی ڈالنے میں وہ نئے امریکی صدر کی طرح فراخدل نہیں ہیں۔ سو فقیر کی یقینی رائے ہے کہ اگر پاکستان کی جانب سے کوئی سفارتی ڈیزاسٹر نہ ہوا اور ہم نے امریکہ سے بمطابق اور مطلوب درجے کے تعلقات کی سفارتی ضرورت بمطابق پوری کی توٹرمپ انتظامیہ یقیناً ایک نئی پاکستان پالیسی بنائے گی؟ جو امریکی غلبے اور اثرورسوخ بڑھانے کی بجائے امریکی امیج اور اقتصادی مفادات کے حصول کی حامل ہوگی۔
جہاں تک بھارت۔ امریکہ تعلقات سے پاکستانیوں کا تعلق ہے، پاکستان پر بڑی رحمت بلا ہماری کوششوں کے یہ ہوئی ہے کہ پاکستانی امریکہ پر انحصار اور امریکہ۔ بھارت قربت کی پریشانی، دونوں سے اب آزاد ہوگیا ہے۔ دونوں اپنا شوق اور چاہ جتنی چاہیں پوری کرلیں۔ ہمارے بین الاقوامی تعلقات سے فوائد کے راستے قدرت نے ازخود ہی۔ ہمارے سفارتی ڈیزاسٹر کے باوجود خود بنا دیئے ہیں۔یہاں تک کہ بھارتی حکومتی رویے سے گمبھیر ہوئے مسئلہ کشمیر کی پہاڑ ایسی رکاوٹ ختم ہونے کے بعد بھارتی عوام سے پائیدار پرامن تعلقات اور خیرسگالی ہماری خارجہ پالیسی کا لانگ ٹرم (بھارتی ریاستی پاکستان پالیسی کے باعث) ہدف ہے او ررہے گا۔ ابھی تو ہماری خارجہ پالیسی بوجہ ہماری اپنی گورننس قابل دید نہیں، لیکن جب ہوگی تب ہمارا یہ ہدف نمایاں ہوگا۔ پاکستانی عوام۔ حکمراں۔ حکمراں تعلقات سے زیادہ۔ عوام کے عوام سے تعلق پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن نہ جانے بھارتی حکومتوں پر یہ کب آشکار ہوگا کہ مسئلہ کشمیر اور پاکستان سے یکطرفہ دشمنی، بھارت کی حقیقی اور قدرتی ترقی میں کتنی بڑی رکاوٹ ہے۔
رہا نواز۔ ٹرمپ رابطہ یہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں ایک ایسا سفارتی معجزہ ہے جو ہماری اپنی سفارت کاری کا شاہکار نہیں، بلکہ یہ ایک امریکہ کے وفادار شہری اور سرگرم ری پبلکن پاکستانی امریکن جناب ساجد تارڑ کے پرامن سیاسی۔ سفارتی ذہن کی باکمال پروڈکٹ ہے جو لاجواب ہے۔ یہ تارڑ صاحب ہی وزیراعظم نوازشریف کی امریکی صدر منتخب کو ’’دوسری نتیجہ خیز غیر روایتی ٹیلی فونک مبارک۔ سلامت‘‘ کا محرک بنے۔

.
تازہ ترین