• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رات کے تین بجے تھے، لیٹے لیٹے میں موبائل فون پر آئے ہوئے میسج پڑھ رہا تھا، اپنے دیرینہ دوست گپی کا میسج دیکھ کر میں چونک کر اٹھ بیٹھا، مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میں اپنے پرانے دوست کا میسج پڑھ رہا تھا، میسج میں لکھا تھا میرے بھولے بھتیجے کا خیال رکھنا، وہ میری محبت میں دیوانہ وار چاچا، چاچا چلاتا پھرتا ہے، تم میرے ہونہار بھتیجے سے ملو، اسے تسلی دو کہ ملک کے حالات ٹھیک ہوتے ہی میں انشاء اللہ تعالیٰ واپس آئوں گا اور اسے یعنی اپنے بھتیجے کو قوم وملک و ملت کی بے لوث خدمت کرنے کے گر سکھائوں گا، وہ میرے اکلوتے بھائی کا اکلوتا بیٹا ہے، میرا اکلوتا بڑا بھائی میرے لئے والد کی جگہ ہے، بھائی صاحب نے مجھے جو ذمہ داری دی ہے اس پر میں پورا اتروں گا، میں اپنے بھتیجے کو ایسے ایسے گر سکھائوں گا کہ وہ پاکستان پر چھا جائے گا، اسے یقین دلوانا کہ ملک کے حالات ٹھیک ہوتے ہی میں اس کا چاچا لوٹ آئوں گا، وہ گلی، کوچوں، چوراہوں، بازاروں، سڑکوں پر چاچا، چاچا چلانا چھوڑ دے۔
مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میں اپنے پرانے دوست گپی کا میسج پڑھ رہا تھا، میں سمجھ رہا تھا کہ گپی اللہ میاں کو پیارا ہوگیا تھا، وہ تھا بھی بہت پیارا سا، سیدھا سادا، نہ کسی کے لینے میں اور نہ کسی کے دینے میں، صوم الصلوۃ کا پابند، پھونک پھونک کر قدم رکھتا تھا یہ سوچ کر کہ کوئی چیونٹی اس کے پیروں تلے آکر دم نہ توڑ دے، ایسے بے ضرر شخص کو بھلا کون برداشت کرسکتا ہے، لوگوں نے اس کا جینا دوبھر کردیا، لوگ تو لوگ طرح طرح کی ایجنسیاں اس کے پیچھے پڑ گئیں، وہ جاننا چاہتی تھیں کہ گپی اس قدر دودھ میں دھلا ہوا کیوں تھا، گپی اس قدر تنگ ہوا کہ ناک میں چھینک پھنس جانے کا بہانہ بنا کر علاج کرانے کی خاطر ایسا گیا کہ پھر کبھی لوٹ کر نہ آیا وہ منظر سےایسے غائب ہوا جیسے سیاستدانوں کی ڈکشنری سے لفظ سچ، اس روز سے آج تک گپی کا لاڈلا بھتیجا ملک کے گلی کوچوں میں چیختا چلاتا پھرتا ہے:چاچا، چاچا، چاچا، ہائے میرا چاچا!
مجھے بھی گپی کے چلے جانے کا دکھ تھا، دکھ ہے، جب ہم برے دن ساتھ گزارتے ہیں تب ہم ایک دوسرے کے بہت قریب آجاتے ہیں، ایک دوسرے کا دکھ بانٹنے میں پہل کرتے ہیں، گپی سے میری ملاقات بڑے ہی ڈرامائی انداز میں ہوئی تھی، کراچی صدر کے کیپٹل سینما میں انگریزی فلم بین حر کا میٹنی شو ختم ہوا تھا، کھچا کھچ رش میں، میں ایک شخص کی جیب کاٹ رہا تھا، تب میں نے محسوس کیا کہ کسی نے میری اپنی جیب کاٹ لی تھی، چونکہ میں خود اعلیٰ تربیت یافتہ جیب کترا تھا اور دائو پیچ سے واقف تھا، میں نے لپک کر، پلٹ کر جیب کترے کی کلائی تھام لی، وہ نوخیز نوجوان تھا، عمر میں مجھ سے کافی چھوٹا تھا، نہ اس نے کلائی چھڑانے کیلئے زور آزمائی کی اور نہ میں نے شور مچایا، بے پناہ رش ہونے کے باوجود کسی کو پتہ نہ چل سکا کہ کیا ہوا تھا، کیپٹل سینما سے ذرا دور ملباری ہوٹل میں چائے پیتے ہوئے اس نے اپنا تعارف کروایا: میرا نام گپی ہے، اس کے بعد گپی اور میں دوستی کے بندھن میں بندھ گئے، نئی نئی انگریزی فلمیں لگتی رہیں، کلوپیٹرا، کوواڈس، تھیف آف بغداد، سیمسن ڈلائلا، اپاچی وغیرہ اور ہم دونوں یعنی گپی اور میں خوب دل کھول کر شائقین کی جیبیں کاٹتے رہے۔
لوگوں کی جیبیں کاٹتے کاٹتے گپی اور میرے وارے نیارے ہوگئے، دیکھا دیکھی کچھ اور لوگ ہمارے کاروبار میں شامل ہوگئے، کاروبار کو چار چاند لگ گئے، جیب کاٹنے کا کاروبار ایسا بڑھا کہ کراچی بھر کے سینمائوں تک پھیل گیا، ہمارے کاروبار میں کچھ دور رس نگاہ رکھنے والے جیب کترے شامل ہوگئے، انہوں نے موقع کی مناسبت سے ہم جیب کتروں کی پارٹی بناڈالی، پارٹی کا نام رکھا پاکٹ پارٹی، ہم دھڑلے سے لوگوں کی جیبیں کاٹتے رہے اور پولیس والوں کی جیبیں بھرتے رہے، ہم دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتے رہے، پھر اچانک پاکٹ پارٹی زوال کا شکار ہوگئی، دور رس نگاہ رکھنے والے جیب کترے پاکٹ پارٹی چھوڑ کر دوسری سیاسی پارٹیوں میں شامل ہوگئے، ان کے وارے نیارے ہوگئے، کئی وزارتیں ان کی لونڈیاں بن گئیں، ایسے میں دل برداشتہ ہوکر گپی منظر سے غائب ہوگیا، گپی کے بغیر جیب کاٹنے کا دھندہ مجھے اچھا نہیں لگا، میں نے ہوٹلوں میں سبزیاں کاٹنے کا کام شروع کردیا، اور پھر مجھے ایک ہوٹل میں دال پکانے کا کام مل گیا، میرے ہاتھ کی پکائی ہوئی دال گاہکوں سمیت مالک اور اس کی ماڈل بیوی کو بھی اچھی لگتی تھی، وجہ یہ تھی کہ ہر دال میں تھوڑا بہت کالا ضرور ہوتا ہے، میں دال سے کالا نکالنے کا ماہر ہوں، ایک روز نہ جانے کیا ہوا کہ میں نے جب ڈھکن کھولا تو ہانڈی میں سب کچھ کالا تھا، دال نہیں تھی، مالک نے دھکے دیکر مجھے کام سے فارغ کردیا، دن تب تنگدستی میں گزرنے لگے۔
ایسے میں اچانک گپی ظہور پذیر ہوا، اس کا حلیہ دیکھ کر میں حیران ہوا، وہ سراپا نیک صورت اور نیک سیرت نظرآرہا تھا، باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ اپنے اکلوتے بھتیجے کا بھولا پن دیکھ کر وہ راہ راست پر آگیا تھا اس کا بھتیجا یتیم نہیں تھا، مگر بے پناہ مصروفیت کی وجہ سے وہ اپنے والد یعنی گپی کے اکلوتے بڑے بھائی کی شفقت سے محروم رہ گیا تھا۔گپی کا بڑا بھائی خدمت خلق میں اس قدرمحو رہتا تھا کہ اسے اپنے اکلوتے بیٹے کی یاد تک نہیں آتی تھی، دیکھو تو کہیں غریبوں مسکینوں کو کھانا کھلا رہا ہے، بیوائوں میں سلائی مشینیں تقسیم کر رہا ہے، بے سہارا کو سہارا دے رہا ہے، بھٹکے ہوئے کو راستہ دکھا رہا ہے، ایسے میں کسی نیک آدمی کو اولاد تک یاد نہیں رہتی، بڑے بھائی نے بیٹے کی تربیت کی ذمہ داری گپی کو سونپ دی۔ بڑے بھائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے گپی نے نیکی اور شرافت کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ ڈالے بلکہ پاش پاش کر ڈالے، مگر کیا مجال کہ گپی اپنے بھولے بھتیجے کی طرف سے ایک لمحے کیلئے غافل ہوا ہو، سبحان اللہ
مگر گپی جیسے نیک سیرت، نیک صورت، نیک فطرت شخص کو ہمارا معاشرہ کہاں برداشت کرتا ہے! گپی کو بادل نخواستہ منظر سےغائب ہوناپڑا…وہ ایسا گیا کہ غائب ہوگیا…چونکہ وہ بہت ہی پیارا شخص تھا، اس لئے ہم سب نے سمجھا کہ وہ اللہ کو پیارا ہوگیا ہے، مگر واٹس ایپ پر گپی کا میسج پڑھ کر میں خوش ہوا کہ الحمداللہ گپی زندہ ہے…اس نے اپنے میسج میں لکھا ہے:میرے بھولے بھتیجے کا خیال رکھنا…مجھے یاد کرتے ہوئے وہ گلی کوچوں میں چاچا، چاچا چلاتا پھرتا ہے… تم میرے بھولے بھتیجے کا خیال رکھنا اور اسے یقین دلوانا کہ ملک کے حالات ٹھیک ہوتے ہی میں اس کا چاچا گپی واپس آئوں گا۔

.
تازہ ترین