• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دسمبر ناکام عاشقوں کا مہینہ ہے اسی لئے اس کے آتے ہی ہر عاشق کا غم حقے کی طرح تازہ ہوجاتاہے۔اس مہینے کی اتنی کشش ہے کہ وہ شاعر ادیب جن کی محبتیں علی الاعلان کامیابی سے ہمکنار ہوئیں اور لگ بھگ جون جولائی میں شادی بھی ہوگئی وہ بھی اپنی شاعری میں دسمبرکا رونا روتے نظر آتے ہیں۔ میرے ایک شاعر دوست کو اگست کے حبس زدہ موسم میں محبت ہوئی تھی، موصوف آج تک آہیں بھرتے ہیںکہ کاش اگست ‘ دسمبر میں آگیا ہوتا ۔دسمبر آتے ہی سوشل میڈیا پر عشاق کے قافلے قطار اندر قطار دھاڑیں مارتے نظر آتے ہیں، ہر دوسری پوسٹ میں دسمبر کے حوالے سے ایسے ایسے شعرنظر آتے ہیں کہ لگتا ہے دسمبر نہیں جارہا‘ ماہ رمضان رخصت ہورہا ہے۔ اصل میں دسمبر کی محبت میں رومانس بہت ہے۔گرمیوں کے پسینے میں شرابورراتوں میں تو محبوب کے آنے سے زیادہ بجلی کے آنے کی دعائیں کی جاتی ہیں تاہم دسمبر کی ٹھنڈک میں کاجو اور چلغوزے کھاتے ہوئے محبوب کو یاد کرنے کا اپنا ہی مزا ہے یہ اور بات ہے کہ دسمبر آنے کے باوجودپنجاب کے میدانی علاقوں میں سردی کا یہ عالم ہے کہ کئی لو گ محض اس لئے بھی جرسیاں سوئٹرپہنے ہوئے ہیں تاکہ دسمبر کی دل آزاری نہ ہو ۔
مجھے آج تک سمجھ نہیں آسکی کہ اشعار میں صرف دسمبر ہی کیوں ڈسکس ہوتاہے۔’گیارہ مہینے ساڈے تے اِک مہینہ تہاڈا‘ …آخر باقی مہینوں پر بھی کوئی شعر ہونا چاہیے، کہیں تو کچھ یوں بھی سننے کو ملے ’اسے کہنا اپریل آگیا ہے…تجھ سے ملے بغیر ستمبرگزر گیا…بھیگا بھیگا سا‘ یہ جولائی ہے…وغیرہ وغیرہ!!دسمبر کو محبت سے اس قدر نتھی کر دیا گیا ہے کہ کئی وہ لوگ جن کی محبت کا تعلق دسمبر سے دور دور تک نہیں بنتا وہ بھی کھینچ کھانچ کے اپنی کہانی میں دسمبر لے آتے ہیں۔میرا دوست دو دن پہلے اپنی محبت کی ساتویں برسی مناتے ہوئے پایا گیا تو میں نے حیرانی سے پوچھا کہ تمہاری محبت تو loveکی بجائے ’ لُو‘کے گرد گھومتی رہی پھریہ دسمبر میں سینہ کوبی کیوں؟ آہ بھر کر بولا’میں نے محبت کا پہلا خواب دسمبر میں دیکھا تھا‘ یہ موصوف ساون آئے ساون جائے والا گیت بھی یوں گنگناتے ہیں’دسمبر آئے، دسمبر جائے‘۔
اگرکوئی صاحب آپ کو غمگین لہجے میں بتائیں کہ دسمبر آتے ہی ان کے زخم ہرے ہوجاتے ہیں تو سمجھ جائیں کہ دسمبر ان کی محبت کا نہیں شادی کا مہینہ ہے۔کئی لوگ دسمبر کی محبت کو ایسا فلمی رنگ دیتے ہیںکہ سننے والا دم بخود رہ جاتاہے مثلاً میری گلی کے سبزی والے کا بھی دعویٰ ہے کہ اسے دسمبر میں محبت ہوئی اور دسمبر ختم ہونے سے پہلے پہلے ختم ہوگئی ۔ ایک دن میں نے اس سے پوری کہانی سن ہی لی۔ کہانی کا سب سے دلچسپ حصہ وہ تھا جس میں موصوف نے بتایا کہ’جاتا ہوا دسمبر تھا‘ میں تھا‘ وہ تھی اور کافی تھی‘۔کافی کے ذکر پر میں نے حسرت اور حسد کی آگ میں جلتے ہوئے جلدی سے پوچھا’تم دونوں کسی ریسٹورنٹ میں بیٹھے تھے‘؟ نفی میں سرہلاکر بولا’نہیں!ویگن میں تھے، وہ اگلی سیٹ پر تھی اور میں اس کے بالکل پیچھے ٹائر والی سیٹ پر بیٹھا تھا۔‘ میں نے دانت پیسے’یعنی تم دونوں چلتی ویگن میں کافی پی رہے تھے؟‘ آہ بھر کر بولا’پی نہیں ، سن رہے تھے…بلھے شاہ کی کافی…!!‘‘
اصل میں ہوا یہ ہے کہ دسمبر کی محبت بھی فیشن کا حصہ بن گئی ہے۔میں ایک ایسے صاحب کو جانتا ہوں جنہیں بدترین گرمی میں محبت کا تحفہ عطا ہوا تھا لہذا اب وہ دسمبر کے آتے ہی پوری کوشش کرتے ہیں کہ اور کچھ نہیں تو اس رومانٹک مہینے میں ان کی محبت کا ڈراپ سین ہی ہوجائے۔ اسی طرح ایک اور صاحب ہیں جنہیں ایک محترمہ سے مارچ کے مہینے میں محبت ہوگئی۔ چونکہ دسمبر کے عاشق تھے لہذا دل پر پتھر رکھا اور آخری مہینے کا انتظار کرنے لگے۔نوماہ مکمل ہوئے تو خوشی خوشی پیغام محبت بھیجا، جواب موصول ہوا تو چہرے پر مردنی سی چھا گئی اور موبائل میں یہ گیت Repeat پر لگالیا’کوئی جب تمہارا ردے توڑ دے‘۔
ایسا صرف ان علاقوں میں ہے جہاں سردی صرف دسمبر میں پڑتی ہے ورنہ مجھے یقین ہےا سکردو ‘ گلگت یا سیا چن کے قریبی علاقوں میں رہنے والوں کے خوابوں میں جون جولائی بستے ہوں گے۔ہوسکتا ہے وہاں یہ کہا جاتا ہو’اُسے کہنا جون جارہاہے‘یا‘جب چلی گرم ہوا میں نے تجھے یاد کیا…یہ بھی ممکن ہے کہ وہاںیہ لائن مشہور ہو کہ’اب اداس پھرتے ہو گرمیوں کی شاموں میں۔‘یاد رہے کہ دسمبر صرف محبت کی ہی نہیں بریک اپ کی بھی علامت ہے۔زیادہ تر عاشقوں کو اسی مہینے ’ٹھڈے‘ پڑے ۔ یہ وہی مرد مجاہد ہیں جو بڑے فخر سے بتاتے ہیںکہ ’رُل تے گئے آں پر چَس بڑی آئی اے‘۔مجھے ہمیشہ بڑا تجسس رہا کہ آخر دسمبر کی محبت ہی کیوں ؟ پھر میں نے تحقیق کا بیڑا اٹھایا،طے کیا کہ اس راز سے ہر حال میں پردہ ہٹانا ہے،اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کیا اور پھرساڑھے تین منٹ کی شدید اور انتھک ریسرچ کے بعد بالآخر کامیابی نے میرے قدم چومے اور مجھے پتا چل ہی گیا کہ محبت اور دسمبر کا کوئی خاص تعلق نہیں…محبت محبت ہے اور دسمبر دسمبر…!!!
حقیقت تو یہ ہے کہ دسمبر کی سردیوں میں ہمیں محبوب اس لئے بھی زیادہ یاد آتا ہے کیونکہ اِن دنوں بجلی کا بل ہماری سوچوں پر سوار نہیں ہوتا ‘ بار بار میٹر کی ریڈنگ نہیں دیکھنا پڑتی ، لوڈشیڈنگ کا عذاب نہیں جھیلنا پڑتا،اے سی کی گیس بھروانے کے لئے مکینک کی دکان کے پھیرے نہیں لگانے پڑتے، بار بارٹھنڈا پانی پینے کے لئے نہیں اٹھنا پڑتا‘ لحاف میں دبک کر موبائل چیک کرنے کی سہولت عام ہوتی ہے، رات جلدی ہوجاتی ہے، بستر پر لیٹنے کا موقع جلدی مل جاتا ہے لہذا یہ سارا پیکج گرمیوں کی نسبت 40 فیصد سکون بخش ہوتاہے۔ ایسے میں محبوب یاد آتا ہے تو رونق دوبالا ہوجاتی ہے۔سنا ہے دسمبر کی سرد رُت میں گرم انڈے کھاتے ہوئے محبوب کو یاد کیا جائے تو نیند بڑی بھرپور آتی ہے۔
آپ نے آج تک نہیں سنا ہوگا کہ کسی نے دسمبر میں بیگم کو بھی یاد کیا ہو۔دسمبر میں صرف وہی لوگ یاد آتے ہیں جو ہمیں لات مارکر جاچکے ہوتے ہیں۔جن کی محبتیں ہمیں سارا سال میسر رہتی ہیں وہ ہمارے لئے دال برابر ہوکر رہ جاتے ہیں۔دسمبر ایک ناسٹیلجیاکا نا م ہے ‘سال کا آخری مہینہ ہے لہذا سال بھر کی یادیں ہماری جھولی میں لا پھینکتا ہے۔نئی نسل دسمبر کی نہیں فروری کی دیوانی ہے۔14 فروری کے ویلنٹائن نے دسمبرکی محبت کا چاند گہنا دیا ہے۔پرانے عاشقوں کے لئے دسمبر کی محبت سند کا درجہ رکھتی تھی۔لیکن یہ بھی تو سچ ہے ناں کہ تب دسمبر میں سردی بھی محبت والی ہی پڑتی تھی۔اب تو یہ حال ہے کہ اسموگ کا مارا دسمبر ہانپتے کانپتے گزر رہا ہے، نہ ٹھنڈ، نہ بارش۔رضائیاں پیٹیوںمیں پڑی ہیں ۔ مالٹے آگئے ہیں لیکن دھوپ میں بیٹھ کر نہیں کھائے جاسکتے کہ یہ دھوپ والا دسمبر ہی نہیں۔ڈرائی فروٹ دستیاب تو ہے لیکن موسم کی یہ حالت ہے کہ چار دانے پستے کے بھی کھالیں تو ’کھرک‘ پڑ جاتی ہے، ایسا ہی رہا تودسمبر بہت جلد اپنی قدرو منزلت کھو دے گا‘ سردی اور دسمبر کا چولی دامن کا ساتھ ہے،سردی کے بغیر دسمبر ایسے ہی ہے جیسے شوگر فری حلوہ۔ ہمیں ایسا ڈائٹ دسمبر نہیں چاہئے۔ میرے منہ میں خاک لیکن اگرحالات یہی رہے تو آئندہ لوگ دسمبر میں محبت کی بجائے سردی کو یاد کیا کریں گے۔

.
تازہ ترین