• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مشرف کے دور حکومت کی بات ہے کہ لاہور کے ایک بڑے گرلز کالج کی پرنسپل کو وزیر تعلیم بنا دیا گیا اور ساتھ ہی وہ بدستور اپنے کالج میں پرنسپل کے فرائض بھی سرانجام دیتی رہیں۔ اس وقت کے سیکرٹری تعلیم کسی زمانے میں ہمارے گورنمنٹ کالج لاہور میں سوکس (شہریت ) کے پروفیسر بھی رہے تھے۔ انہوں نے ہمیں ایک روز ہنس کر بتایا کہ دن کا آدھا وقت میں اس پرنسپل کا باس ہوتا ہوں اور آدھا وقت یہ میری باس ہوتی ہیں۔ جب محترمہ اپنے کالج میں بطور پرنسپل فرائض سر انجام دے رہی ہوتی ہیں، تو میں بطور سیکرٹری تعلیم پنجاب کے اس کا باس ہوتا ہوں اور جب یہ سیکرٹریٹ (دفتر لارڈ صاحب) میں آتی ہیں تو میں ان کے ماتحت ہوتا ہوں۔
اس طرح مشرف دور میں پشاور میں ریلوے کے ایک گریڈ 18کے افسر کو وزیر بنا دیا گیا، کچھ ایسی صورتحال ہمارے ہاں صوبہ پنجاب میں بھی آج کل ہے۔ ایک صاحب اپنے محکمے کے ڈائریکٹر جنرل ہیں اور دوسری طرف انہیں اپنے ہی محکمے کے سیکرٹری کا اضافی چارج بھی دیا ہوا ہے اور تیسرے وہ گریڈ 18میں ہیں اور یہ دونوں پوسٹیںگریڈ 20کی ہیں۔ ویسے تو چند برس قبل سیکرٹری ہایئر ایجوکیشن کی پوسٹ پر ایک گریڈ 18کا افسر بھی براجمان رہا اور 20گریڈ کے پروفیسر اور پرنسپل اس کو ’’سر‘‘ کہتے رہے، حالانکہ یہ پوسٹ بھی 20گریڈ کی ہے اور اس پر 21گریڈ کے افسر بھی کام کرتے رہے۔ مثلاً قاضی آفاق حسین اور کئی دیگر بیوروکریٹ بھی تو صاحبو جن صاحب کے پاس بطور ڈائریکٹر جنرل، اضافی چارج سیکرٹری کا بھی ہے تو خود ہی اندازہ لگا لیں کہ میرٹ کہاں ہے؟ اور پھر بطور سیکرٹری وہ اپنی ڈائریکٹر جنرل کی اے سی آر بھی خود ہی لکھیں گے۔ اگر ہم کچھ زیادہ کہیں گے تو بہت سارے لوگوں کے دلوں پر گراں گزرے گی۔ ویسے بھی آج کل خادم پنجاب کے دل کے معاملے نازک ہیں۔ ایک افسر کے پاس تین عہدے ہیں نام لیں گے تو وہ بھی برا منا جائیں گے۔پورے صوبے میں صحت مند پنجاب کے بینرز لگے ہوئے ہیں اور خود وزیراعلیٰ اپنے میڈیکل چیک اپ اور علاج کے لئے باہر جاتے ہیں۔ آج پورے ملک میں ایک بھی ایسا اسپتال نہیں جو لندن اور امریکہ کے اسپتالوں کا مقابلہ کرسکے۔
یہ سارے واقعات ہمیں اس لئے یاد آگئے کہ پچھلے ہفتے ایوان اقبال میں خادم پنجاب نے حسب روایت ہونہار طلبہ وطالبات کو ایک ارب سے زائد کے نقد انعامات دیئے اور بڑے جذباتی انداز میں اشرافیہ اور میرٹ پر بات کی بلکہ جوش خطابت میں یہاں تک کہہ دیا کہ وہ میرٹ کا قتل عام نہیں ہونے دیں گے اور اپنی تقریر میں اشرافیہ کو خوب لتاڑا۔ ویسے تو چھوٹے میاں صاحب کئی مرتبہ جوش خطابت میں کئی ٹی وی چینلز کے مائیک گرا چکے ہیں۔ آپ کبھی کبھی اپنی تقاریر میں آغا شورش کاشمیری کا انداز اختیار کر جاتے ہیں، تو جناب والا آغا شورش کاشمیری تو درویش منش اور ملنگ انسان تھے، وہ اشرافیہ میں سے نہیں تھے۔ اس لئے جب ان کے دل میں کوئی بات، کوئی شعر نکلتا تھا تو اس کے الفاظ زبان تک آتے آتے ننگی تلوار بن جاتے تھے اور دلوں میں اتر جاتے تھے اور ایسا اثر چھوڑتے تھے کہ مدتوں انسان ان الفاظ کے سحر میں گرفتار رہتا تھا۔ اس شخص نے کبھی اپنا سودا نہ کیا۔ جس طرح اس نے صاحب اقتدار کو للکارا آج تک ایسے کوئی نہیں للکار سکا۔ ویسے محترم حسن نثار کی تحریروں اور تجزیوں میں آغا شورش کاشمیری نظر آتا ہے۔ ویسے بھی چھوٹے میاں صاحب کے اندر بھی کہیں کوئی انقلابی ضرور چھپا ہوا ہے مگر پتہ نہیں کیوں اس انقلابی کی سوچ وہ آگے بڑھا نہیں پاتے۔ جس خوبصورتی سے وہ حبیب جالب کے اشعار پڑھتے ہیں، کاش اسی جوش و جذبہ کے ساتھ وہ واقعی غریبوں کے لئے کچھ کر گزریں، مانا کہ بہت کام کرتے ہیں مگر کچھ چیزیں ایسی ہیں جن پر ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔
آپ نے کہا کہ اس ملک میں تمام اچھے تعلیمی ادارے صرف اشرافیہ کیلئے ہیں ہمیں آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ جناب آپ خود آپ کے تمام عزیزواقارب، معزز ممبران اسمبلی کی اکثریت، وہ بیوروکریٹس جن کے بچے باہر کے ممالک میں زیر تعلیم ہیں، کیا وہ اشرافیہ میں شامل نہیں؟ آپ صاحب اقتدار اور اور صاحب کمال بھی ہیں۔ کیوں نہیں ایچی سن کالج لاہور کو صرف غریبوں کے لئے مخصوص کر دیتے انگریزوں کے دور سے اشرافیہ کا یہ تعلیمی ادارہ آج بھی انہی روایات کے ساتھ چل رہا ہے۔ اشرافیہ کے بچوں کے اپنے گھوڑے اور شاہانہ ٹھاٹ بھاٹ ہے۔ پھر اس ملک میں جتنے بڑے بڑے اسکولز کی چین ہیں وہ سب کے سب اشرافیہ کے لئے ہیں، کیا ان ا سکولوں میں میرٹ کا قتل عام نہیں ہوتا۔
آپ کی حکومت نے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کو نکیل ضرور ڈالی ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ اب کچھ اور راستے تلاش کر رہے ہیں۔ فی داخلہ 25سے 50لاکھ روپے تک لوگوں سے رشوت وصول کی گئی۔ کیا ان تمام میڈیکل کالجوں کے مالک اشرافیہ میں نہیں آتے؟ اس ملک کے سیاستدان، بیوروکریٹس بڑے بڑے گھروں میں رہنے والے، بڑ ی بڑی گاڑیوں میں پھرنے والے اشرافیہ نہیں؟۔ حضور برا نہ منائیں۔ اگر آپ دومرلے کے مکان میں رہتے اور چھوٹی سی گاڑی میں گھومتے اور وہ غذا کھاتے جو اس ملک کے غریب لوگ کھاتے اور پانی پیتے ہیںپھر تو آپ اشرافیہ کو جتنا مرضی چاہیں رگڑا دیتے، آپ تو خود اشرافیہ میں ہیں۔ پھر اس تنقید کی سمجھ نہیں آئی۔ پھر آپ خود ہی فرماتے ہیں کہ ملکی اشرافیہ نے قوم کو بدحال کردیا۔اس پر اب کیا تبصرہ کروں۔
ایوان اقبال کی اس تقریب میں شہباز شریف نے کہا کہ وسائل نہ ہونے کا بہانہ بنا کر قوم کے ہونہار اور ذہین بچوں کو محلوں کی گلیوں کی دھول میں گم ہونے دینے سے بڑا کوئی اور قومی جرم نہیں ہوسکتا۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس جرم کے ذمہ دار کون ہیں؟ کیا حکومت نے آج تک کوئی ایسا سروے کرایا ہے جس میں پتہ چل سکے کہ پاکستان میں کتنے لاکھ بچے گلیوں اور محلوں کی دھول میں گم ہو چکے ہیں۔ ہم آپ کو لاہور شہر کے سب سے بڑے ایلیٹ علاقے ڈی ایچ اے سے صرف دو کلومیٹر پر واقع وہ گائوں اور بستیاں دکھا سکتے ہیں جہاں پر مستقبل کے کئی ڈاکٹر قدیرخان اور ڈاکٹر عبدالسلام دھول میں گم ہو چکے ہیں اور گم ہو رہے ہیں۔
منو بھائی نے کئی برس قبل پنجابی میں بڑے خوبصورت اشعار کہے تھے، سمجھنے والوں کو سمجھ آہی جائے گی۔
کیہہ ہوئیا اے؟
کجھ نئیں ہوئیا!
کیہہ ہووے گا؟
کجھ نئیں ہونا!
کیہہ ہو سکدا اے؟
کجھ نہ کجھ ہوندا ای رہندا اے
جو توں چاہنا ایں اور نئیں ہوناں
ہو نئیں سکدا
کرناں پیندا اے
حق دی خاطر لڑنا پیندا اے
جیون دے لئی مرنا پیندا


.
تازہ ترین