• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
معلوم نہیں یہ شعر کس کا ہے لیکن شعر ایسا ہے جو ہمارے آج کے حا لات پر پو را اتر تا ہے۔اسی لئے یہ کالم اسی شعر سے شروع کیا جا رہا ہے ۔شعر ہے ؎
فرصت ضروری کام سے پائو تو رو بھی لو
اے اہل دل یہ کار عبث بھی کرے چلو
ظاہر ہے اب تو رونا کار عبث ہی ہو گیا ہے۔ ہم کس کس کو روئیں،کہاںکہاںروئیں؟ دونوں ملکوں میں جب بھی کھٹ پٹ شروع ہوتی ہے تو اس کا پہلا نشانہ ادبی اور ثقافتی تعلقات ہی ہو تے ہیں۔ نزلہ عام آدمی پر گرتا ہے۔ یاد کیجئے،ابھی ایک سال پہلے تک پاکستان اور ہندوستان میں جو بھی ادبی یا ثقافتی تقریب ہوتی تھی تو دونوں ملکوںکے ادیب اور فن کا ر ان میں نظر ٓاتے تھے۔ اردو، ہندی اور انگریزی کا کون ایسا قابل ذکر ادیب اور فن کا ر ہے جو ان تقریبوںمیں شریک نہیں ہو تا تھا اور دونوں جانب ان شخصیتوں کا اس گرم جوشی سے خیر مقدم کیا جا تا تھا کہ وہ خود بھی حیران رہ جا تے تھے ۔پاکستان میں گوپی چند نارنگ، شمیم حنفی اور شمس الر حمٰن فاروقی اور ان جیسے ہندوستانی ادیب اور دانشور ہماری ہر ادبی تقریب کا لازمی حصہ بن گئے تھے۔ اسی طرح نصیرالدین شاہ اور اوم پو ری یوںلگتا تھا جیسے وہ اپنے ہی ہیں۔ نصیرالدین شاہ اور اوم پوری ہماری فلموں میں کام کر رہے تھے اور ہمارے فن کار ہندوستانی فلموںمیں اپنے فن کا لوہا منوا رہے تھے۔ ہمارے گا نے والے ہندوستانی فلموں کا لازمی حصہ بن گئے تھے۔ اوم پوری کی نئی فلم ’’ایکٹر ان لا‘‘تو اتنی مقبول ہوئی تھی کہ وہ بار بار ہمارے سینمائوںمیں دکھائی جا رہی تھی۔ نصیرالدین شاہ کے بغیر تو جشن فیض مکمل ہی نہیں ہو تا تھا ۔ جشن فیض کی وجہ سے ہی ہمیں مظفر علی جیسے نامور ہدایت کاروں سے ملاقات کا بھی مو قع ملتا تھا۔ داستان گو ئی کے فن کو ہندوستان میں جن نوجوانوں نے نئی زندگی بخشی ہے، وہ نوجوان پاکستان میں بھی ادب و فن کے ہزاروں دیوانوں کو مسحور کر رہے تھے۔ بلکہ ان نوجوانوں سے اثر قبول کر کے ہی ہمارے اپنے نو جوانوں نے پاکستان میں بھی داستان گوئی کا فن زندہ کیا اور آج ہمارے اپنے نوجوان بھی نہایت مہارت کے ساتھ اس فن کا مظا ہرہ کر رہے ہیں۔
لیکن ادھر کھٹ پٹ شروع ہو ئی ادھرسب کچھ ختم ہو گیا۔اب ہم اکیلے کے اکیلے رہ گئے۔ جشن فیض اس سال بھی ہوا اور اسی جوش و خروش سے ہوا۔ لیکن اس میںہم ہی ہم تھے، ہندوستان کا کوئی ادیب یا فن کار مو جود نہیں تھا ۔ یوں جیسے فیض صاحب صرف پاکستان کے ہیں۔ جیسے اردو اد ب کا تعلق صرف پاکستان سے ہے۔امن و شانتی کے دشمنوں نے پوری کوشش کی ہے کہ ہمیں ایک دوسرے سے جدا کردیا جا ئے۔ لیکن ہمارے احمد شاہ ہار ماننے والے نہیں ہیں۔ وہ فصل کو وصل میں بدلنا جا نتے ہیں۔ اس بار بھی انہوں نے کراچی آرٹس کو نسل کی سالانہ کانفرنس کو ہندوستان کی نمائندگی سے محروم نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے پہلے ہی اجلاس میں پروفیسر شمیم حنفی کو ٹیلی فون کے ذریعے کراچی میں لا بٹھایا۔ کانفرنس کے حاضرین نے ٹیلی فون پر شمیم صاحب کی باتیں ایسے سنیں جیسے وہ ان کے سامنے مو جود ہوں۔ کہتے ہیں شمیم صاحب کو پاکستان کا ویزہ مل گیا تھا لیکن کشیدہ حالات کی وجہ سے انہوں نے پاکستان آنا مناسب نہیں جا نا۔ٹیلی فون کے ذریعے دونوں ملکوں کو اکٹھا کر نے کا ہنر احمد شاہ کو ہی آتا ہے،لاہور والے ابھی تک اس ہنر سے محروم ہیں۔ مگر احمد شاہ تو یہ کام بر سوں سے کر رہے ہیں۔جب دونوں ملکوںکے در میان اتنی دوریاں پیدا نہیں ہو ئی تھیں اس وقت بھی انہوں نے گوپی چند نارنگ کو دہلی کے ہوائی اڈے پر پکڑ لیا تھااور ٹیلی فون پر ان سے وہ باتیں کر والی تھیں جو وہ پاکستان آکر کرتے۔ وہ جانتے ہیں کہ ہمارے در میان دوریاں پیدا کر نے والوں کا یہی علاج ہے۔ ادب اور ثقافت کو تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ہماری مشترکہ میراث ہے۔ بلکہ ہم تو احمد شاہ کومشورہ دیں گے کہ اب ٹیلی فون کے ذریعے باہم میل ملاپ کرانے سے بھی آگے نکلیں اور یہ گفتگو اور یہ ملا قاتیں ’’اسکائپ‘‘ وغیرہ پر کرانے کا بندوبست کریں۔ اس طرح ہم ایک دوسرے کی باتیں بھی سنیں گے اور ان کی شکلیں بھی دیکھیں گے۔ ایسا لگے جیسے ہم آمنے سامنے بیٹھے ہیں۔ ویسے، احمد شاہ سے کو ئی بعید بھی نہیں ہے،وہ یہ بھی کر گزریں گے۔ سیاست کی اکھاڑ پچھاڑ ادب اور ثقافت کو بھی اپنے ساتھ گھسیٹ رہی ہے۔کسی کو تو اس کا مقابلہ کر نا چاہئے۔
یہ با ت پہلے بھی کہی جا چکی ہے کہ پاکستان میں ہندوستانی فلموں کی نمائش کے ساتھ ہی پاکستان کی فلمی صنعت نے بھی انگڑائی لی ہے اور وہ بھی اپنی گہری نیندسے جاگ کراٹھی ہے۔ ’’خدا کے لئے‘‘ اور ’’وار‘‘ جیسی فلمیں توخاص مقصدسامنے رکھ کر بنائی گئی تھیں، یا بنوائی گئی تھیں۔ لیکن ان کے بعد فلمیں بنانے کا جو سلسلہ شروع ہوا تو ’’زندہ بھاگ‘‘ اور’’ماہ میر‘‘ جیسی فلمیں بننا شروع ہو گئیں۔ ان فلموں میں چھوٹی مو ٹی خا میاں ضرور رہ گئی تھیں۔ لیکن ایک سلسلہ چل نکلا تھا۔ اب نئے سے نئے موضوع پر فلمیںبننے لگی ہیں۔پچھلے دنوںمہرین جبار کی فلم ’’دوبارہ پھر سے‘‘دیکھی اس کی پرو ڈکشن، ڈائریکشن، سینما ٹو گرافی ،اچھی کہانی،اچھا ٹریٹمنٹ ، اچھی اداکاری اور اچھے چہرے دیکھ کر خوشی ہو ئی۔ اس فلم میں مہرین جبار ہمیں ان پاکستانی خاندانوں سے ملا تی ہیں جو امریکہ میں رہتے ہیں۔ وہ پاکستانی جو اس ماحول میں رچ بس گئے ہیں۔ ان کے باہمی تعلقات، ان کی نفرتیں اور محبتیں کیسے کیسے روپ اور رنگ اختیار کرتی ہیں؟ یہ ہے اس فلم کا مو ضوع۔یہ ایک اچھی کوشش ہے۔لیکن ہمیں یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ مغربی ملکوں میں رہنے والے اکثر پاکستانی اس معاشرے کا حصہ نہیں بنے ہیں۔ وہ وہاں رہتے ہوئے بھی پاکستانی معاشرے میںہی رہتے ہیں۔اصل میں تو مہرین جبار کو ان کی زندگیوں پر توجہ کرنا چاہئے۔ بہرحال، ہندوستانی فلموںکے ساتھ مقابلے نے ہمیںاچھی پاکستانی فلمیں دیکھنے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ لیکن ہمارے دشمن یہ بات پسند نہیں کرتے۔ وہ ہمیں اس مقابلے سے محروم کر نا چا ہتے ہیں ۔ اور یہی ہمارا رونا ہے ۔

.
تازہ ترین