• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ضبط نفس کا شمار اعلیٰ عبادات میں ہوتا ہے۔لالچ فطری عمل لیکن قابل علاج مرض ہے جبکہ حرص و ہوس کی کوئی حد اور علاج نہیں۔یہ ایسا کینسر ہے جو جسم ہو جان کے علاوہ روح تک کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ناجائز دولت کمانے کی ہوس میں انسان انسان نہیں جانور بن جاتا ہے۔
کتنے عظیم ہیں وہ لوگ جنھوں نے پرکشش سرکاری ملازمتوں میں رہتے ہوئے بھی راہ مستقیم کو نہیں چھوڑا اور ہر کام اللہ کی خوشنودی کے لئے کیا۔رشوت نہیں لی۔کرپشن اور جھوٹ کے خلاف اپنے نفس اور حالات سے لڑتے رہے۔ملازمت عبادت سمجھ کر کی۔پولیس وردی کے تقدس کو قائم رکھا اور کسی فرد یا حکومت کی نہیں بلکہ وطن اور مملکت کی ملازمت کی اور مدت ملازمت پوری ہونے پر سرخرو ہو کر گھر چلے گئے۔۔۔کتنے ہوں گے ایسے لوگ؟؟
رحمتیں ہوں ان پولیس والوں پر جو بدترین حالات میں بھی راہ مستقیم پر چلتے ہوئے اپنے بچوں کی رگوں میں رزق حرام نہیں اترنے دیتے۔معاشی مشکلات کے باوجود پاکدامن ہیں اور دین اور دنیا سنوار رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ ایسے ایماندار پولیس افسروں اور اہلکاروں کو اس دنیا میں ہی ان کے نیک اعمال اور رزق حلال پر ایمان رکھنے کا اجر اور آسودگی دے اور ان کے بچوں کو اعلیٰ مقامات عطا فرمائے ۔۔اور۔۔بداعمال، بددیانت اور راشی پولیس والوں کو اسی دنیا میں عذاب میں مبتلا کرے جنھوں نے بے آواز لوگوں پر ظلم کیے۔اور گمراہ ہوئے اور شیطان کی پیروی کی۔پولیس کے مظالم کے حوالے سے آئے دن دل دہلا دینے والے واقعات نے پورے معاشرے کو آسیب زدہ کردیا ہے۔بے آواز لوگ انصاف کے حصول کے حوالے سے مایوسی کا شکار ہیںاور تھانوں سے انصاف حاصل کرنے کے بجائے عزت بچانے کے لئے خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں۔جس کے نتیجے میں ظالم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور مظلوم خود کو غیر محفوظ تصور کرتا ہے۔رشوت ہمارے معاشرے کی رگ و پے میں سراعیت کر چکی ہے اور پولیس کا اس میں کلیدی کردار ہے۔اس لئے کہ غریب اور بے آواز لوگ براہ راست ان کے عتاب کا شکار ہوتے ہیں۔ ان بے آواز لوگوں کے خلاف زیادتیوں کا آغاز تھانوں اور کچہریوں سے ہوتا ہے۔ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جن میں پولیس نے ذاتی منفعت کے لئے مظلوم کو ظالم بنا کر کٹہرے میں کھڑا کر دیا اور وہ ثبوت جو ظالم کے خلاف تھے مظلوم کے کھاتے میں ڈال دیے۔ اگرچہ معاشرے کی تطہیر کا عمل انتہائی دشوار ہے لیکن اس عمل کا نکتہ آغاز کب اور کہاں سے ہوگا۔ہر دور میں صرف بیانات اور خواہشات کی شکل میں پولیس کی اصلاح کی بات کی گئی۔توقع یہ تھی کہ موجودہ حکومت تھانہ کلچر کے خاتمے کے لئے کوئی ٹھوس اور قابل عمل منصوبہ بندی کرے گی اور تعمیراتی منصوبوں کی تکمیل کی طرح تھانہ کلچر کے منصوبے کو مختصر ترین عرصہ میں پورا کرے گی۔لیکن شائد پولیس کی اصلاح اور تھانہ کلچر کا خاتمہ موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں کیونکہ ماضی کی طرح موجودہ دور میں بھی تھانہ کلچر اور پولیس کرپشن کے خلاف سنجیدگی اور لگن کے ساتھ باضابطہ طور پر آغاز ہی نہیں کیا گیا۔سب کچھ وہی چل رہا ہے جو ماضی سے چلا آرہا ہے۔کرپٹ افیسر ویسے ہی راج کر رہے ہیں جیسے ماضی میں تھے۔اچھے اور ایماندار افیسر موجودہ سیٹ اپ میں فٹ نہ ہونے کی وجہ سے کنارہ کش ہیں۔بعض پولیس والوں کو اعتراض ہے کہ صرف پولیس کو ہی کیوں ہدف تنقید بنایا جاتا ہے۔کرپشن پورے معاشرے میں اور ہر محکمے میں موجود ہے تو صرف پولیس کیوں۔؟عام محکموں میں لوگ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے رشوت دیتے ہیں۔جس کا فائدہ سینکڑوں گناہ اضافے کے ساتھ حاصل کرتے ہیں۔لیکن پولیس بے گناہوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتی ہے اور غریب لوگ کسی بڑے عذاب سے بچنے کے لئے مجبوری کے تحت رشوت دیتے ہیں۔اس لئے تنقید بھی پولیس کے رویے اور بے حسی کے نتیجے میں کی جاتی ہے۔ بہتر ہو گا کہ اعلیٰ اور ادنیٰ اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ وہ کس فہرست میں شامل ہیں۔ایماندار یا کرپٹ۔۔۔؟ان کا ضمیر منصف ہو گا وہ خود کو کسی ایک خانے میں درج پائیں گے۔
تازہ ترین