• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما لیکس ، فریقین کے شواہد کی تفتیش ضروری ہے، کمیشن بنائیں یا خود فیصلہ کریں؟سپریم کورٹ

اسلام آباد(نمائندہ جنگ ) سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز لیکس کیس کی سماعت کے دوران فریقین کے وکلاء کو مجوزہ انکوائری کمیشن کے قیام کے حوالہ سے اپنے موکلان سے ہدایات لینے اور مشاورت کرنے کیلئے مہلت دیتے ہوئے کیس کی مزید سماعت کل بروز جمعہ 9دسمبر تک ملتوی کردی ہے جبکہ آئندہ سماعت پر وزیر اعظم کے خلاف آرٹیکل 62 اور 63 کے حوالہ سے دائر اسلام آباد ہائیکورٹ او ر الیکشن کمیشن میں زیر التوا مقدمات کی تفصیلات عدالت میں پیش کرنے اور وزیر اعظم کے جیو کے اینکر پرسن حامد میر کو دیئے گئے ایک انٹر ویو کی ویڈیو پیش کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ ہم ٹھوس بنیادوں پرآگے بڑھنا چاہتے ہیں، فریقین کی طرف سے جمع کرائے گئے دستاویزی شواہد میں خلا ہے، کئی دستاویزات ہیں جنکی تصدیق کیلئے تحقیقات کی ضرورت ہے، چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہمارے سامنے ان الزامات کی تحقیقات کیلئے انکوئری کمیشن تشکیل دینے کا راستہ موجود ہے، اگر فریقین مقدمہ نے اتفاق کرلیا تو انکوائری کمیشن تشکیل دیدیا جائیگا بصورت دیگر عدالت خود ہی فیصلہ جاری کر دیگی، مجوزہ انکوائری کمیشن مطلوبہ ٹی او آرز اور مکمل اختیارات کے ساتھ سپریم کورٹ کے ایک جج پر مشتمل ہو گا، انہوں نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات پر وزیر اعظم کی جانب سے جواب نہیں آیا ہے جبکہ وزیر اعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ چالیس سال کا ریکارڈ کہاں سے لائیں؟ وزیر اعظم نے اسمبلی اور قوم سے خطاب کے دوران جوتقاریر کی تھیں وہ سیاسی نوعیت کی تھیں،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ وزیر اعظم کے وکیل کا یہ موقف بڑا خطرناک ہے، کسی چیز کا ریکارڈ نہ رکھنا خطرنا ک بات ہے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے ہیں کہ فریقین مقدمہ عدالت میں کم اور میڈیا کے کیمروں کے سامنے زیادہ بولتے ہیں، عدالت میں جو بات کرتے ہیں، باہر جاکر اس سے مختلف بات کرتے ہیں، میڈیا کے تبصرے دیکھ کر ہمیں لگتا ہے کہ ہم پاناما پیپرز لیکس کیس کی نہیں بلکہ کسی اور ہی کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید خان کھوسہ ، جسٹس امیر ہانی مسلم ،جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 5رکنی لارجربنچ نے بدھ کے روز کیس کی سماعت کی تو جسٹس شیخ عظمت سعید نے مسول علیہ و وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل سلمان اسلم بٹ سے استفسار کیا کہ وزیر اعظم نے اپنی بیٹی مریم کیلئے زمین کس سال خریدی تھی؟تو انہوں نے کہا کہ یہ اراضی 9 اپریل 2011 میں خریدی گئی تھی۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ مریم نواز نے زمین کی رقم کب ادا کی تھی ؟ ہمیں بھی پتہ ہے کہ اس ٹرانزکشن میں ہوا کیا ہے؟ عام طور پر سب ایسا ہی کرتے ہیں ، وزیر اعظم نے رقم تحفہ میں بیٹی کو دی ،بیٹی نے یہ رقم زمین کی قیمت میں واپس کردی، زیر کفالت ہونے کا معاملہ ابھی تک حل نہیں ہوا ہے۔ فاضل وکیل نے کہا کہ مریم نواز جاتی امراء میں رہتی ہیں ،جاتی امرا ء میں بہت سے خاندان رہتے ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا جاتی امرا ء کی زمین مریم نواز کے نام پر ہے؟تو انہوں نے کہا کہ نعیم بخاری نے واجبات اور اثاثوں کو آپس میں ملا دیا ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ مریم نواز کے رہن سہن کے اخراجات کہاں سے آتے ہیں؟تو فاضل وکیل نے بتایا کہ مریم نواز زرعی اراضی کی آمدن سے اپنے اخراجات چلاتی ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ریٹرن کے مطابق مریم نواز کی انکم ٹیکس میں آمدن صفر تھی ، فاضل وکیل نے کہا کہ مریم نواز اگر والد کے گھر میں رہتی ہیں تو بھی زیرکفالت میں نہیں آتی ہیں بلکہ وہ قانونی طور پر اپنے شوہر کی کفالت میں ہیں اور انکی باقاعدگی سے آمدن زرعی زمین سے آتی ہے، اس سال مریم نواز کی زرعی آمدن 21 لاکھ 68 ہزار426 روپے تھی ،جس پرجسٹس شیخ عظمت سعیدنے کہا کہ مریم نواز کے سفری اخراجات تو 35 لاکھ روپے تھے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ مریم نواز کوئی ملازمت بھی نہیں کرتیں ، میں جو سمجھا ہوں کہ زرعی آمدن کے علاوہ ان کااور کوئی ذریعہ آمدن بھی نہیں ہے ،جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ کیپٹن صفدر کی زرعی زمین 160 کنال ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ عدالت زیر کفالت کے معاملہ کو دیکھ رہی ہے۔ فاضل وکیل کا کہنا تھاکہ ہم نے کفالت کے معاملہ پر دلائل دیئے ہیں، مریم اپنے والد کی زیرکفالت نہیں ہیں، میرے موکل میاں نواز شریف کو مریم نواز کے اثاثے کاغذات نامزدگی میں ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی، مریم نوازآف شور کمپنیوں کی ٹرسٹی ہیں ،حسین نواز آف شور کمپنیوں کے بینی فشل مالک ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس موقف سے درخواست گزار نے اتفاق نہیں کیا ہے ، اس معاملہ کا فیصلہ یہاں نہیں ہو سکتا ہے دستاویزات کے جائزہ کیلئے کمیشن بنانا پڑیگا، دونوں فریق اپنی اپنی دستاویزات پر انحصار کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس بنچ کیلئے ان دستاویزات کا جائزہ لینا ممکن نہیں ہے،اسی لیے کمیشن بنانے کا آپشن کھلا رکھا ہے ،کیا الیکشن کمیشن میں وزیر اعظم کیخلاف آئین کے آرٹیکل 62اور 63سے متعلق معاملہ زیر التوا ہے؟تو فاضل وکیل نے بتایا کہ یہ معاملہ ا لیکشن کمیشن میں زیر التوا ہے،اسپیکر قومی اسمبلی نے معاملہ نمٹادیا تھا جس کے خلاف تحریک انصاف ہائی کورٹ چلی گئی تھی۔ جسٹس آصف سعید نے ریمارکس دیئے کہ دونوں فور مز پر معاملہ زیر التوا ہے، کیا آپ چاہتے ہیں عدالت عظمی آئین کے آرٹیکل 184(3)کے ذریعہ اس میں مداخلت نہ کرے۔ چیف جسٹس نے فاضل وکیل کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ سماعت پر وزیر اعظم کے خلاف آرٹیکل 62 اور 63 کے حوالہ سے اسلام آباد ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن میں زیر التوا مقدمات کی تفصیلات عدالت میں پیش کریں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا ٹرسٹی کو کمپنیوں کا ٹیکس نہیں دینا پڑتا ہے ؟ تو فاضل وکیل کا کہنا تھا کہ دونوں کمپنیاں آف شور ہیں اس لیے ٹیکس ادائیگی کا معاملہ نہیں ہے ،برطانوی قانون میں ایسے ٹرسٹ کی اجازت ہوتی ہے اور اس کی رجسٹریشن کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ بعض دستاویزات کے مطابق مریم تو بینی فشری مالک ہیں ،دستاویزات میں لکھا ہے کہ کمپنی کو کسی ٹرسٹ کا علم نہیں ہے۔ فاضل وکیل کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں ٹرسٹ کا قانون بڑا لچکدار ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ ایک پرائیویٹ انڈراسٹینڈنگ ہے ؟کیا ٹرسٹ بنانے کے معاملے پر موسیک کمپنی کو آگاہ نہیں کر نا چاہیے تھا؟ جس پر فاضل وکیل کا کہنا تھا کہ موسیک کو آگاہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی،بڑے بڑے بحری بیڑے پاناما میں رجسٹرڈ ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ موسیک نے کس بنیاد پر مریم کو بینی فشل مالک قرار دیا ہے؟ تو فاضل وکیل نے کہا کہ مجھے ایسی کسی دستاویزات کا علم نہیں ہے۔انہوں نے وزیر اعظم کی تقریر میں مبینہ تضاد ات پر بات کرنا شروع کی تو جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ پر بات ابھی ختم نہیں ہوئی ہے،کیا آپ منروا نامی کمپنی اور دیگر دستاویزات سے انکاری ہیں تو فاضل وکیل کا کہنا تھا کہ اس پر میں بعد میں بحث کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ نعیم بخاری نے گلف اسٹیل ملز کے مجموعی واجبات 36ملین درہم بتائے ہیں، 21 ملین درہم بینک کو دے کر باقی 14اعشاریہ 6 ملین درہم واجبات ادا کیے ہیں اورگلف اسٹیل کے پانی کے واجبات قسطوں میں ادا کیے گئے تھے۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ کیا پانی کے واجبات طارق شفیع نے ادا کیے تھے تو فاضل وکیل نے کہا جی ہاں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ خسارے میں جانے والی فیکٹری سے واجبات کیسے ادا کیے گئے تھے ؟ تو فاضل وکیل نے کہا کہ 1978میں نئی انتظامیہ آنے کے بعد فیکٹری منافع میں چلی گئی تھی، ہم چالیس سال پرانا ریکارڈ کہاں سے لائیں؟فیکٹری کے 75 فیصد شیئرز کا معاہدہ موجود ہے ،دبئی کے بینک صرف پانچ سال کا ریکارڈ رکھتے ہیں ،1980 کا ریکارڈ کہاں سے لائیں،1999میں تمام ریکارڈ قبضے میں لے کر سیل کردیا گیا تھا ،کمپنیوں کی بک ویلیو کچھ اور جبکہ اصل قیمت کچھ اور ہوتی ہے،دستاویزات بک ویلیو پر تیار ہوتی ہیں،بڑے بڑے شہروں میں کاروبار پرچی پر ہوتا ہے، فیصل آباد میں اس وقت بھی پرچی پر کروڑوں روپئے کا کاروبار ہوتا ہے۔ جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ آپ کا یہ موقف بڑا خطرناک ہے، کسی چیز کا ریکارڈ نہ رکھنا خطرنا ک بات ہے۔ فاضل وکیل نے کہا کہ 1978میں نواز شریف طالب علم تھے پوری کہانی میں ان کا کہیں پر بھی ذکر نہیں ہے ، ان کا نام نہ تو پاناما پیپرز لیکس میں ہے اور نہ ہی کسی متعلقہ دستاویز میں ہے۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کا کہنا تھا کہ عوامی عہدہ رکھنے والوں پر ایسی مشکلات آتی رہتی ہیں۔
تازہ ترین