• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

28جولائی 10ء کوملکی تاریخ کا بدترین فضائی حادثہ ہوا،152افراد چل بسے

لاہور ( صابر شاہ ) پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز ( پی آئی اے ) دنیا کی دیگر فضائی کمپنیوں کی طرح اپنے قیام کے بعد سے اب تک کئی بڑے حادثات کا شکار ہوئی ہے جبکہ نجی کمپنیوں کو بھی اس قسم کے سانحات کا سامنا رہا۔ پاکستان کا اولین فضائی حادثہ 25 فروری 1956ء کو 2:56 سہ پہر گلگت سے راولپنڈی آنے والی مال بردار پرواز کو پیش آیا جو بارش اور طوفان کے باعث لاستگروش کے علاقے جلکوٹ میں ہوا جس میں طیارے میں سوار تمام 3 افراد جاں بحق ہوئے۔ اس طیارے کا ملبہ 11 مارچ 1956ء کو ملا۔ حادثے کی ممکنہ وجہ پائلٹ کی غلطی ظاہر ہوئی جس نے اپنی صلاحیت اور تجربے سے بڑھ کر پرواز کی کوشش کی ۔ گزشتہ 60 سالوں میں پاکستان کے بڑے فضائی حادثات کی تاریخ کچھ اس طرح ہے کہیکم جولائی 1957ء کو 24 افراد کی اس وقت جانیں گئیں جب چٹا گانگ سے ڈھاکا جانے والی پرواز خلیج بنگال کی لہروں میں جا گری۔ اس کا ملبہ4 جولائی 1957ء کو جزیرہ چار مکھی میں ملا جو چٹا گانگ کے مغرب میں تقریباً 50 میل کے فاصلے پر تھا۔ اس حادثے کی ممکنہ وجہ طوفان تھا جس کے باعث طیارے پر بہت زیادہ دبائو پڑا جو وہ نہ سہا سکا۔15 مئی 1958ء کو دہلی ایئر پورٹ پر کراچی کے لئے پی آئی اے کا ایک طیارہ ٹیک آف کے فوری بعد گرا اور ہوائی اڈے کی نواحی باڑ سے جا ٹکرایا جس سے طیارے میں سوار 38 میں سے 21 افراد جاں بحق ہوگئے۔اس حادثے کی وجہ یہ تھی کہ کپتان اپنی پرواز کے آلات کا بروقت جائزہ نہ لے سکا اور اس نے بلا سوچے سمجھے ٹیک آف کے فوری بعد طیارے کو گرائونڈ کر دیا جبکہ اس وقت باہر  دیکھنااس کیلئے ممکن نہ تھا۔ اس سے مزید یہ کہ بگڑتی صحت کے باعث پائلٹ صورتحال کا فوری سامنا نہ کرسکا۔26 مارچ 1965ء کو پشاور سے چترال جانے والا پی آئی اے کا ایک اور طیارہ وادی دیر کے قریب لواری پاس میں کریش کر گیا جس سے اس میں سوار 26 میں سے 22 افراد جان کی بازی ہار گئے۔20 مئی 1965ء کو پی آئی اے کا بوئنگ 707 طیارہ قاہرہ ایئر پورٹ پر لینڈنگ کی کوشش میں تباہ ہوا اور119 افراد لقمہ اجل بن گئے، یہ اس طیارے کی افتتاحی پرواز تھی۔ وجہ یہ تھی کہ طیارہ  سرکٹ کیلئے مناسب پلان کا تعین نہ کر سکا اور زمین کا تعین کئے بغیر اتر گیا۔ اس غلط جائزہ کی وجہ کا پتہ نہیں چل سکا۔2 فروری 1966ء کو پی آئی اے کا ایک ہیلی کاپٹر سیر کے دوران فرید پور کے قریب ایک گدھ کے ٹکرانے سے تباہ ہوا جس سے اس میں سوار 24 میں سے 23 افرادچل بسے۔6 اگست 1970ء کو راولپنڈی سے لاہور جانے والی پرواز روات میں قلا بازی کھا گئی جس سے اس میں سوار 30 افراد جاں بحق ہوگئے۔8 دسمبر 1972ء کو گلگت سے راولپنڈی جانے وا لا پی آئی اے کا ایف 27 فوکر طیارہ جلکوٹ کے قریب برفانی چوٹی سے ٹکرا گیا ۔ حادثے میں کم از کم 31 افراد کی جانیں گئیں۔26 نومبر 1979ء کو پی آئی اے کا بوئنگ 707 طیارہ سعودی عرب سے حاجیوں کو لاتے ہوئے جدہ ایئر پورٹ پر ٹیک آف کے فوری بعد کریش کر گیا اور 156 افراد لقمہ اجل بن گئے۔23 اکتوبر 1986ء کو پی آئی اے کا فوکر ایف 27 طیارہ حادثے کا شکار ہوا۔ یہ طیارہ پشاور میں لینڈ کر رہا تھا۔ حادثے میں سوار54 میں سے 13 مسافرجاں بحق ہوگئے۔17 اگست 1988ء کو امریکی ساختہ ہرکولیس سی 130 فوجی طیارہ بہاولپور کے قریب گر گیا اور اس میں آگ لگ گئی جس سے اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق اور مزید 30 افراد چل بسے جن میں پاکستانی جرنیل اور امریکی سفیر بھی شامل تھے۔25 اگست  1989 کو شمالی علاقے گلگت سے 54 افراد کو لے کر روانہ ہونے والا فوکر طیارہ غائب ہوگیا جس کا ملبہ آج تک نہیں مل سکا یہ پاکستان کی ہوا بازی کی تاریخ کا انتہائی خوفناک سانحہ تھا۔28 ستمبر 1992ء کو پی آئی اے کی ایئر بس اے 300 نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں بادل سے گھری چوٹی سے اس وقت جا ٹکرائی جس نے مبینہ طور پر قبل از وقت اترنے کی کوشش کی تھی ۔ حادثے میں 167 افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔19 فروری 2003ء کو فضائیہ کا فوکر ایف 27 طیارہ کوہاٹ کے قریب دھند میں لپٹی پہاڑیوں سے ٹکرا گیا جس سے اس میں سوار پاک فضائیہ کے سربراہ مصحف علیی میر اپنی اہلیہ اور دیگر 15 افراد سمیت جاں بحق ہوگئے۔ 24 فروری 2003ء کو افغانستان کے وزیر معدنیات و صنعت جمعہ محمد محمدی، 4 افغان اہلکاروں ، ایک چینی مائننگ ایگزیکٹو اور عملہ کے 7  پاکستانی افراد کو لانے والی چارٹرڈ طیارہ سیسنا 402 بی کراچی کے قریب بحیرہ عرب میں جا گرا۔10 جولائی 2006ء کو ملتان سے لاہور آنے والا فوکر طیارہ ٹیک آف کے تقریباً 10 منٹ بعد ہی کھیتوں میں گر کر شعلوں کی نذر ہوگیا جس کے نتیجہ میں 41 مسافر اور عملہ کے ارکان جان کی بازی ہار گئے۔ اس بد قسمت طیار ے میں وائس چانسلر بہاء الدین زکریا یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر محمد نصیر خان اور بین الاقوامی شہرت یافتہ پاکستانی نیورو سرجن پروفیسر افتخار علی راجہ بھی سوار تھے۔28 جولائی 2010ء کو ایئر بلیو کی کراچی سے اڑنے والی پرواز اسلام آباد کے نواح میں مارگلہ کی پہاڑیوں میں اس وقت تباہ ہو گئی  جب اس کا پائلٹ لینڈنگ کی تیاری میں تھا۔ طیار ے میں سوار تمام 152 افراد زندگی سے محروم ہوگئے۔5 نومبر 2010ء کو پاکستانی چارٹر کمپنی جے ایس ایئر کا دو انجنوں والا طیارہ کراچی میں ٹیک آف کے فوری بعد تباہ ہوا جس سے اس میں سوار تمام 21 افراد جاں بحق ہوگئے۔ یہ طیارہ اطالوی کمپنی کے عملے کو ضلع جام شورو میں بھٹ گیس فیلڈ پر لے جا رہا تھا جہاں وہ تیل و گیس کی تلاش کا کام کر رہے تھے۔28 نومبر 2010ء میں اس وقت کم از کم 12 افراد لقمہ اجل بن گئے جب جارجیا کی فضائی کمپنی سن وے کا روسی ساختہ مال بردار طیارہ کراچی سے پرواز کے چند سیکنڈ بعد ہی گر کر تباہ ہوگیا ۔20 اپریل 2012ء کو بھوجا ایئر لائن کا کراچی سے اسلام آباد آنے والا طیارہ پاکستانی دارالحکومت کے قریب موسم کی خرابی کا شکار ہوگیا۔ حکام نے بتایا کہ اس کے نتیجے میں 125 سے زائد افراد تاریخ کا حصہ بن گئے ۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا جولائی 2010ء کے 152 افراد کی ہلاکت کے بعد دوسرا بڑا فضائی حادثہ تھا جبکہ یہ بوئنگ 737-200 سیریز کے طیاروں کو پیش آنے والا چوتھا مہلک ترین حادثہ تھا۔24 جون 2014ء کو پشاور ایئر پورٹ پر لینڈنگ کے دوران پی آئی اے کی پرواز پی کے 756 پر گولی لگنے سے ایک خاتون بلاک جبکہ دو مرد فلائٹ اٹینڈنٹ معمولی زخمی ہوئے تاہم طیارہ بحفاظت پشاور کے ہوائی اڈے پر اتر گیا تھا اسے جلد مرمت کے بعد واپس لایا گیا۔ 
تازہ ترین