• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کالے دھن کو سفید کرنے کے لئے حکومت کی ٹیکس ایمنسٹی سکیم کو قانونی شکل دینے کی غرض سے قومی اسمبلی کا منظور کردہ انکم ٹیکس ترمیمی بل 2016ء صدر مملکت کے دستخطوں کے بعد ایکٹ کی صورت میں نافذالعمل ہو گیا ہے اس کے تحت کالے دھن سے خریدی ہوئی جائیداد 3 فیصد ٹیکس دے کر قانونی بنائی جا سکے گی اور حکومت ایسے سرمائے کا ذریعہ بھی نہیں پوچھے گی تا ہم بنکوں،لاکر وں اور گھروں میں رکھے گئے کالے دھن کو سفید نہیں کیا جا سکے گا پراپرٹی کی فروخت کے وقت فائلر خریدار کو جائیداد کی کل قیمت کا دو فیصد اور نان فائلر کو چار فیصد ٹیکس ادا کرنا ہو گا ایک اندازے کے مطابق غیر قانونی طریقوں سے کمایا ہوا سات ہزار ارب روپے کا کالا دھن پاکستان کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں لگا ہوا ہے جس پر کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا گیا ایف بی آر کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ہر سال چار ہزار ارب روپے پراپرٹی سیکٹر میں لگائے جاتے ہیںایف بی آر کو اس وقت محصولات کی مد میں تقریباً سو بلین روپے کے شارٹ فال کا سامنا ہے نئے قانون کے تحت وہ 50 ارب روپے جمع کر سکے گا جس سے قومی خزانے کو فائدہ پہنچے گا ٹیکس ایمنسٹی سکیم کو قانونی تحفظ دے کر رئیل اسٹیٹ میں کالا دھن لگانے والوں کو اپنا سرمایہ قانونی بنانے کا موقع ملے گا اس سے قبل ٹیکس دینے اور نہ دینے والے سب برابر تھے اب ٹیکس دینے والوں کو قواعد و ضوابط کے تحت رعایت ملے گی اور نہ دینے والوں سے باز پرس کے علاوہ زیادہ ٹیکس وصول کیا جائے گایہ سکیم اگلے بجٹ تک جاری رہے گی جس کے بعد اس پر نظرثانی کر کے اسے مزید مفید بنایا جا سکتا ہے اگرچہ بعض حلقوں نے اس سکیم کی مخالفت بھی کی تھی مگر مجموعی طور پر اس سے ٹیکس دینے والوں کی حوصلہ افزائی ہو گی اور نہ دینے والوں کو ٹیکس ادائیگی کی ترغیب ملے گی جو ایک خوش آئند اقدام ہے حکومت کو چاہئے کہ ایسی پالیسیاں بنائے جس سے کالے دھن کا مکمل خاتمہ ہو سکے اور سرمائے کے جائز اور قانونی حصول اور سرمایہ کاری کو تقویت ملے۔

.
تازہ ترین