• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سائبیریا کی منجمد جھیلوں سے ڈاروں کی شکل میں ہزاروں میلوں سے اڑان کر کے سندھ یا ملک کے پانیوں پر اترے ہوئے ان بیچارے پردیسی پرندوں کو کیا خبر کہ وہ اترتے ہی بڑی بیدردی سے بے موت مارے جائیں گے۔ ہر سال ان سرد موسموں میں انٹارکٹک سے لیکر پیسفک اور چین، منگولیا، قازقستان نہ جانے شرق و غرب کے کیسے کیسے دور دیسوں سے اڑ کر آئے ہوئے یہ پرندے، سندھ پنجاب کے پانیوں، صحرائوں، بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں اور بے آب و گیاہ میدانوں میں اترے ہوئے مہمان پرندے کیا جانیں کہ اپنے دانے پانی سے زیادہ وہ شاہی مہمانوں کا لقمہ اور ان کے میزبانوں کی کرسی و طاقت کی مضبوطی کا وسیلہ بنیں گے، اور اسکی اس ملک میں پوری تاریخ ہے آج اور کل کی بات نہیں کہ جیسے سوشل میڈیا پر کچھ دل جلے از راہ تفنن لکھ رہے ہیں پاکستان میں جمہوریت اور حکومتیں بچانے کیلئے سب سے زیادہ قربانیاں پرندے تلور نے دی ہیں۔ ظاہر ہے کہ انکا صاف اشارہ آجکل پاکستان میں بھڑکے ہوئے پاناما معاملے سے ہے جس میں ایک حوالے سے کسی قطری شہزادے کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔
میں سوچ رہا ہوں کیا تاریخ انتقام بھی لیتی ہے؟ کسی وقت ہمارے لیاری کے پڑھے لکھے لوگ بے پر کی اڑایا کرتے تھے کہ غریب لیاری کی ڈرگ مافیا کے ڈانڈے پاناما کے نوريگا سے ملتے جلتے ہیں لیکن آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ پاکستانی نوريگائوں کے ڈانڈے اب جاکر پاناما کے بنکوں میں مل رہے ہیں۔
بے یار و مدد گار پرندہ تلور یا ہوبارا بسٹرڈ جو خلیج اور امیر ریاستوں کے شہزادوں کی مرغوب غذا ہوتی ہے اور ہمارے خواص کیلئے ان کے اقتدار اور طاقت کیلئے سونے کی چڑیا! ایسے بھی بیچارے بڑے چھوٹے وڈیرے ہیں جو بس اپنے علاقوں کے جٹ جاموٹ یعنی خیرو کھموں نتھو خیرے پر رعب اور دبدبہ رکھنے کو بھی گویا شرق اوسط کے یہ وڈیرے اپنے گھروں گوٹھوں کو مدعو کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ بہت پرانی کہانی ہے۔ برصغیر میں انگریز کی آمد سے ہی اس خطے کے شرفا نے چڑھتے سورج کو سلامی کیلئے اپنے گھر گھاٹ عزت وقار دائو پر لگانا شروع کردی تھی۔ یہ کوئی چوتھائی یا نصف صدی کا قصہ نہیں۔ آپ نے یاد دلایا تو ہمیں یاد آیا۔
شکار کے موسم میں انگریز حکمران اور صاحب لوگ یا لاٹ صاحبان کی خوشامد میں جو شکار کی دعوتیں راجوں مہاراجوں رئوسا وڈیروں سرداروں نے کی تھیں ان پر بڑی بڑی داستانیں رقم ہیں۔ ایسی داستانیں بھی ہیں جن کو پڑھ کر آپ کو ہنسنا اور رونا آجائے۔ ایک بہت ہی شاہکار طربیہ نثر کبھی اسی اخبار کے معرکتہ الآرا کالم نگار پیر علی محمد راشدی، جو کہ خود بھی ایک مشاق شکاری تھے(جو کہ بہرحال سندھ کی جدید تاریخ کے انتہائی متنازع سیاستدانوں میں سے ایک رہے، کی اپنی خود نوشت:’’اھي ڈينھن اھي شينھنٔ‘‘(وہی شیر وہی دن) میں درج ہے۔
جواہر لال نہرو کےہندوستان میں آزادی کے فوری بعد جاگیرداریاں اور بڑی جڑی زمینداریاں بیک جنبش قلم ختم ہوگئیں تو اسی لئے شکار کی سیاست بھی ختم ہوئی، اور پھر وہ دیس انسانوں پہ رحم کھائے نہ کھائے لیکن چرند پرند پر رحم کھانے والا دیس تو کسی حد تک ہے نا۔ لیکن ہمارے ہاں تاثر ہے گویا یہ ملک بنایا ہی جاگیرداروں اور جرنیلوں نے تھا تو شکار کی ریت ایک سیاست کی شکل میں نہ فقط موجود رہی پر ترقی کی منازل طے کرتی رہی۔ یہ خلیجی شہزادے تو بہت بعد میں داخل ہوئے ہیں۔ اس شکاری قوم کو تو ازلی بد دعائیں ہیں جوشاہ لطیف نے سب سے پہلے دی تھیں۔ بغل میں بندوق شکاری میلے کپڑے، مار کر میر ملوگ،گھاٹیاں سرنگیں لتاڑتا چڑھ رہا ہے۔
اپنی شاعری میں پردیسی پرندوں کو عاشقوں اور محبوبوں کی روحوں اور پرواز سے تعبیر کیا تھا۔ کیا کیا نہ کھیڈ رچائی ہے اس کی شاعری نے۔ یہ ایک الگ داستان ہے۔جیسے سندھ کے اس سائیں نے کہا:’’پرندوں اور عاشقوں کی کیسی میتیں، کیسے قبرستان!‘‘
سندھ کے تالپور حکمران تو اکثر اپنی شکارگاہوں پر منزل انداز ہی ہوئے ہوتے تھے۔ میں نے بطور صحافی ایک دفعہ دوران انٹرویو مرحوم پیر پگاڑو سے پوچھا تھا کہ انکے بڑوں اور تالپوروں کے درمیان اختلافات کے اسباب کیا تھے تو انہوں نے الٹا پوچھا ’’پیر اور میر (تالپور) کیوں لڑیں گے سوائے شکار گاہوں پر۔‘‘
لیکن جب خلیج میں تیل کی دولت نہیں آئی تھی اور یہ کوئی اتنی پرانی بات بھی نہیں تو شاذ و نادر ہی اپنی سرزمین پر کسی نے عرب دیکھا تھا۔ اگر آبھی جاتا تو سادہ لوح دیہاتی اس کے پیچھے حمد و نعت پڑھتے اس کے ہاتھ چومتے۔ اسے مقدس مہمان سمجھتے۔ اب تو یہ شکاری شہزادے جنگل بیلوں ٹیلوں میں ہر سردیوں میں کیمپ در کیمپ پائے جاتے ہیں۔
سندھ کے وڈیروں سرداروں نے فوج کے سول اور اعلیٰ افسران کو شکار کی دعوت کی میزبانیاں بہت عرصے سے کی ہوئی ہیں۔ بلکہ بڑے بڑے خیمہ گاہ بنوائے ہوئے ہیں۔
سر شاہنواز بھٹو کے نوجوان بیرسٹر بیٹے ذوالفقار علی بھٹو کو پہلی بار وزارت میں اسکندر مرزا نے شکار کے تعلقات کے پس منظر میں لیا تھا۔ ایوب خان کے سندھ کے صحرا خانگڑہ کے مہر سردار علی گوہر سینئر سے تعلقات شکار کی دعوتوں کے حوالے سے بنے تھے جسکی وجہ سے ہی مہر خاندان نے حکومت کوئی بھی ہو اسٹیبلشمنٹ سے قریبی تعلقات رکھے ہیں، جو کہ اب خلیج کے شہزادوں تک ہیں۔
واقعی تلور نے حکومتیں اور جمہوریت بچانے میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔
انیس سو نواسی کی قومی اسمبلی میں جب بینظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی تھی جسے ’’پارلیمانی کو‘‘ کی کوشش یا بدنام زمانہ ’’گيدڑان نیم شب آپریشن‘‘ بھی کہا جاتا ہےکے دوران بینظیر بھٹو کی حمایت حاصل کرنے کیلئے خانگڑہ کے صحرا میں خیمہ زن خلیجی حکمران سے رابطہ کرکے سردار غلام محمد مہر کی حمایت حاصل کر لی گئی تھی۔
سجاول اور لاڑکانہ کی حمل، ڈرگھ بالا، جھیلوں میں شاہوں اور بھٹو نے یحییٰ خان کی شکار کی دعوتیں کی تھیں۔ سابق آرمی چیف وحید کاکڑ کے سندھ اور بلوچستان میں تیتر کے شوق کل ہی کی باتیں ہیں۔
کھیرتھر رینج سے لیکر بولان تک وڈیروں کے بے لگام بیٹے اور ان کے بگڑے ہوئے دیسی یا بدیسی شہزادے مہمان جس طرح ان پردیسی پرندوں کی نسل کشی کرتے ہوئے پھر اپنی ویگن اور ڈبل کیبنوں اور اوطاقوں کے صحنوں میں قطار در قطار ان سربریدہ پرندوں کی تصاویر دیتے اپنی ’’مردانگی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہیں اگر اسکی کہانی پرندوں کی آنکھ سے لکھی جاتی تو..... منظر دوسرا اور مختلف ہوتا۔
سندھ اور سرائیکی وسیب کے ضلعوں کے ضلعے پردیسی شہزادوں کو پردیسی پرندوں کے شکار کیلئے الاٹ کئے ہوئے ہیں گویا کہ تلور پرندہ اب پیارے پاکستانی کی خارجہ پالیسی کا ’’کارنر اسٹون‘‘ بن گیا ہے۔
اسی لئے تو رفعت غباس جیسے شاعر نے کہا ہے:
اپنڑے ہرن تلوریں دے خود وارث ہیسے رفعت
ہک ڈینہ ایں ریاست توں قتل انہاں دا پچھسوں


.
تازہ ترین