• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنجاب میں بلدیاتی انتخابات مکمل ہوئے ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔الیکشن کمیشن اور حکومت پنجاب نے باہمی مشاورت سے پنجاب بھر کے 9ڈویژنز میں تین مرحلوں کے دوران بلدیاتی انتخابات مکمل کرائے اور اس سلسلے کا آخری مرحلہ گزشتہ سال دسمبر میں مکمل ہوا۔بدقسمتی سے گزشتہ سال دسمبر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات بھی چھ سال تاخیر کے بعد ہوئے تھے۔حالانکہ آئین پاکستان واضح طور پر بلدیاتی انتخابات ریاست کے لئے لازمی قرا ر دیتا ہے۔آئین کے آرٹیکل7 میں ریاست کی تعریف اس انداز میں کی گئی ہے کہ وفاقی حکومت،صوبائی حکومت اور لوکل باڈیز سمیت ہر وہ اتھارٹی جو قانون کے تحت ٹیکس لاگو کرسکتی ہے کو ریاست قرار دیا گیا ہے یعنی بلدیاتی حکومت کے بغیر ریاست پاکستان مکمل ہی نہیں ہوتی ہے۔جبکہ آرٹیکل140Aواضح کہتا ہے کہ ہر صوبہ قانون کے ذریعے مقامی حکومتوں کا نظام قائم کرے گاجبکہ پھر سیاسی،انتظامی ، مالیاتی ذمہ داری اور اختیارات مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو منتقل کردے گا۔جبکہ آئین کا آرٹیکل 32کہتا ہے کہ ملک میں بلدیاتی حکومتیں قائم کی جائیں گی۔ جبکہ آرٹیکل 219الیکشن کمیشن کو ذمہ داری تفویض کرتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کرانا ان کی ذمہ داری ہے۔یہ آئین کی وہ شقیں ہیں جو بالواسطہ اور بلاواسطہ بلدیاتی انتخابات کرانے پر زور دیتی ہیں۔لیکن ان سب شقوں کے باوجود آئین میں ایک خامی موجود ہے کہ وہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کو مقررہ وقت پر بلدیاتی انتخابات کرانے کا پابند نہیں کرتا۔بہرحال ایک سال قبل پنجاب میں بلدیاتی انتخابات مکمل ہونے کے بعد اگلا مرحلہ مخصوص سیٹوں پر انتخاب کا تھا۔جس میں کچھ حکومتی خامیوں اور کچھ عدالت میں زیر التوا معاملات کی وجہ سے پورا ایک سال لگ گیا۔اب ایک ماہ قبل مخصوص سیٹوں کے انتخابات بھی مکمل ہوچکے ہیں۔جس کے بعد اب آخری مرحلہ ان بلدیاتی اداروں کے سربراہان کے تقرر کا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے اس حساس معاملے کی ذمہ داری حمزہ شہباز شریف کو تفویض کی تھی۔جنہوں نے اپنے پبلک افیئر سیل کے ذریعے امیدواروں کی اسکروٹنگ شروع کی۔صوبائی وزیر منشابٹ،ندیم کامران اور سینیٹر سعو د مجید پبلک افیئر سیل کا حصہ رہے۔عطا تارڑ جیسے قابل اور زیرک افسران نے اس مرحلے کو مکمل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔بلکہ گزشتہ رات فیصل آباد کے ایک سینئر صوبائی وزیر اس افسر کی ایمانداری اور ذہانت کی تعریف کرتے ہوئے کہنے لگے کہ آپ اکثر لکھتے ہیں کہ سول سروس میں اب قابل اور ایماندار افسران ناپید ہوگئے ہیں مگر عطا تارڑ جیسے نوجوان افسران پر بلاشبہ فخر کیا جاسکتا ہے۔بہرحال حمزہ شہباز شریف کی قیادت میں پبلک افیئر سیل نے پورے پنجاب کے بلدیاتی اداروں کے سربراہان کے نام شارٹ لسٹ کئے اور ہر ضلع کے موثر امیدواروں کے حوالے سے بریفنگ تیار کی گئی۔وزیراعلیٰ پنجاب کو بریفنگ دینے کے بعد اگلا مرحلہ وزیراعظم نوازشریف سے تجویز شدہ ناموں کی حتمی منظوری لینا تھا۔وزیراعظم نوازشریف کو بریفنگ دینے سے قبل مسلم لیگ ن کے سیاسی حلقوں میں چہ میگوئیاں کی جارہی تھیں کہ وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے حمزہ شہبا ز شریف کے پبلک افیئر سیل کے کئے گئے فیصلوں میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کی جائے گی۔مگر آج وزیراعظم کو بریفنگنز مکمل ہونے کے بعد تمام افواہیں اور خواہشات دم توڑ گئی ہیں۔اطلاعات ہیں کہ وزیراعظم نوازشریف نے بلدیاتی اداروں کے سربراہان کے تقرر کے حوالے سے حمزہ شہبا زشریف کی کارکردگی کو خوب سراہا ہے بلکہ 95فیصد انہی فیصلوں کی توثیق کی گئی ہے ۔جس کی سفارش حمزہ شہباز کی ٹیم نے کی تھی۔منگل اور پیر کے روز ہونے والے بلدیاتی اداروں کے فیصلوں کے بعد ایک بات تو طے ہوگئی ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے حمزہ شہباز شریف کو اپنا سیاسی جانشین دیکھنا شروع کردیا ہے۔اسی وجہ سے پورے پنجاب کی سیاست کا مرکز انہیں بنادیا گیا ہے۔جو کہ بلاشبہ ایک اچھا فیصلہ ہے۔کیونکہ مسلم لیگ ن کی مضبوطی کی بنیاد پنجاب ہے اور جو شخص پنجاب میں مسلم لیگ ن کو لیڈ کرے گا وہی مستقبل کی قیادت ہوگی۔ظاہر ہے جو شخص 90کی دہائی سے سیاست میں فعال ہو۔پہلی مرتبہ 22،23سال کی عمر میں سیاسی قیدی بنا ہو۔اس کے فیصلوں میں پختگی ہونا فطری بات ہے۔اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف نے حمزہ شہباز شریف کے حوالے پنجاب کے تمام سیاسی معاملات کئے ہیں۔
بلدیاتی اداروں کے سربراہان کے حوالے سے حکمران جماعت کے کچھ فیصلے قابل تعریف بھی ہیں اور کچھ پہلوؤں پر تعمیر ی تنقید بھی ہونی چاہئے۔فیصل آباد میں قریبی عزیز کو نظر انداز کرکے جمہوریت کے چیمپئن رانا ثنا اللہ کو ترجیح دینا وزیراعظم نوازشریف کی دور اندیشی کی عکاسی کرتا ہے۔گو کہ رانا ثنا اللہ نے فیصل آبادمیں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے مگر جمہوریت مخالف فورسز کی خواہش تھی کہ رانا ثنا اللہ کے بجائے کسی اور کو موقع دلوادیا جائے مگر وزیراعظم نوازشریف کی یہ خوبی تو ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کو کبھی نہیں بھولتے اور رانا ثنا اللہ کی مشرف آمر کی پنجاب اسمبلی میںجمہوریت کے حوالے سے حق گوئی کو بھلا کوئی کیسے بھول سکتا ہے۔پاکستان میں جمہوریت پسند لوگوں کو بلاشبہ رانا ثنا اللہ جیسے لوگوں پر فخر ہونا چاہئے۔اس کے ساتھ ہی دوسرا اہم معاملہ لاہور کی مئیر شپ کا تھا۔اطلاعات آرہی ہیں کہ مسلم لیگ ن نے گزشتہ ایک سال سے مئیر کے امیدوار کو تبدیل کردیا ہے۔میری ذاتی رائے میں وزیراعظم نوازشریف لاہور کی سیاست کے حوالے سے بہت حساس اور سنجیدہ ہیں۔اس لئے جو بھی تبدیلی عمل میں لائی جارہی ہوگی اس کی وجہ 2018کے عام انتخابات ہونگے۔تادم تحریر بہت سے اضلاع کے سربراہان کا اعلان ہونا باقی ہے اور جب یہ کالم آپ کے سامنے ہوگا تو پورے پنجاب کے امیدواروں کا اعلان ہوچکا ہوگا مگر آج ہمیں ایک تلخ حقیقت کا بھی سامنا کرنا ہوگا کہ آج مسائل کا انبار بستیوں کو عفریت کی طرح منہ کھولے دکھائی دیتا ہے ۔ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ،ابلتے ہوئے سیوریج کس کو دہائی دیں۔یہ مسائل صرف مقامی سطح پر منتخب شدہ عوامی نمائندے ہی حل کرسکتے ہیں،جو اپنے پڑوس میں رہنے والوں کو جواب دہی اور کارگزاری کا حساب دینے کو حاضر ہوتے ہیں۔اور بلاشبہ مقامی مسائل کا ادراک ان کے علاوہ کسی کو نہیں۔سرکاری اعمال اپنے کام میں بھلے چنگے ہوں،مگر وہ مقامی نمائندوں جیسا درد محسوس نہیں کرسکتے۔اس لئے نئے بلدیاتی اداروں کے سربراہان کی اولین ذمہ داری ہونی چاہئے کہ مقامی مسائل کو پوری دیانت اور اخلاص کے ساتھ حل کرنے پر توجہ دیں۔


.
تازہ ترین