• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مئی2016کو جب اس وقت کے امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ جو کہ اب امریکہ کے صدر منتخب ہوچکے ہیں نے اپنی صدارتی مہم کے دوران جاپان میں موجود امریکی افواج پر ہونے والے اخراجات میں جاپان سے مزید اور بہت زیادہ اضافے کا مطالبہ کیا اسی دن سے جاپان کی سیاست میں ایک ہلچل پیدا ہوگئی تھی، جاپانی تجزیہ نگار اور حکومتی شخصیات کو ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ مستقبل میں اگر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے تو جاپان اور امریکہ کے تعلقات میں بہت بڑی تبدیلی واقع ہوسکتی ہے کیونکہ جاپان جو پہلے ہی امریکی افواج کے اخراجات کی مد میں سالانہ دو ارب ڈالر سے زائد ادا کرتا ہے اس میں مزید اضافہ نہ صرف معاشی طور پر جاپان کے لئے مشکلات پیدا کرسکتا ہے بلکہ عوامی سطح پر بھی جاپانی عوام کی طرف سے ردعمل آنے کا امکان ہے اس سے جاپانی حکومت کا مستقبل بھی خطرے میں پڑسکتاہے وجہ اس کی یہ ہے کہ جاپانی عوام پہلے ہی جاپانی سرزمین پر چالیس ہزار امریکی افواج کی موجودگی سے پریشان ہیں آئے روز امریکی افواج کے جاپانی عوام کے خلاف مختلف جرائم میں ملوث ہونے کی خبریں آتی رہتی ہیں جن میں سب سے زیادہ امریکی فوجیوں کی جانب سے جاپانی خواتین کی عصمت دری کے واقعات ہوتے ہیں جس پر جہاں جاپانی عوام سراپااحتجاج نظر آتے ہیں وہیں جاپانی حکومت بھی امریکی حکومت اور افواج سے احتجاج کرتی نظر آتی ہے جبکہ ان واقعات میں ملوث امریکی فوجی جنھیں بعض اوقات رنگے ہاتھوں بھی گرفتار کر لیا جاتا ہے وہ امریکی اور جاپانی حکومت کے درمیان ماضی میں ہونے والے معاہدے کے تحت باآسانی رہا ہوکر امریکی افواج کی تحویل میں چلے جاتے ہیں جس کے بعد انھیں واپس امریکہ بھجوادیا جاتاہے جہاں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ انہیں جاپان میں کئے جانے والے جرائم کی سزا ملتی بھی ہے یا نہیں، اس طرح کے واقعات کے باعث جاپانی عوام امریکی افواج کے جاپان میں تعینات رہنے سے خوش نہیں تاہم جاپان کی سلامتی کی ضروریات کے تحت جاپانی حکومت امریکی افواج کی جاپان میں تعیناتی کے حق میں ہے، جاپان میں امریکی افواج کے جرائم کے علاوہ جس پہلو نے جاپانی حکومت اور عوام کو عدم تحفظ کے احساس سے دوچار کیا وہ امریکی حکومت کی قومی مفادات کے تحت بدلنے والی پالیسیاں ہیں، جس کی ایک جھلک قارئین کے لئے ایک واقعہ کی صورت میں حاضر ہے، 2012 میں جب جاپان اور چین کے درمیان جاپانی سمندری حدود میں واقع جزیرے سینکاکو آئی لینڈ پر کشیدگی عروج پر پہنچ گئی اور چین اپنی سمندری افواج مذکورہ جزیرے کے نزدیک لے آیا تھاتو اس وقت جاپان نے امریکہ سے اس معاملے میں مداخلت کی درخواست کی، امریکہ جو ایک معاہدے کے تحت جاپان کی سلامتی کے تحفظ کا ذمہ دار ہے اور یہی وجہ ہے کہ جاپان میں چالیس ہزار امریکی افواج تعینات ہیں اور جاپان ہر سال دو ارب ڈالر امریکی افواج کے اخراجات کی مد میں ادا کرتا ہے لہٰذا جاپانی حکومت کو امید تھی کہ امریکہ جاپان کی سرحدکے نزدیک جمع ہونے والی چینی افواج کو روکنے کے لئے کردار ادا کرے گا اور جاپان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے معاہدے کا پاس رکھے گا لیکن اس وقت جاپانی حکومت اور عوام شدید عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا ہوگئے جب امریکی حکومت نے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ جاپان اور چین اپنے معاملات خود طے کریں امریکہ دونوں کے درمیان فریق نہیں بنے گا، اس وقت سے ہی امریکہ سے جاپانی توقعات کم ہوگئی تھیں، جاپان نے امریکہ سے معاہدے کے بعد کبھی باقاعدہ جارحانہ افواج نہیں رکھیں، جو افواج موجود ہیں انھیں بھی دفاعی افواج کہا جاتا ہے،جبکہ دوسری جانب جاپان کو نہ صرف چین سے بلکہ شمالی کوریا سے بھی شدید سرحدی خطرات کا سامنا ہے جو آئے دن ایٹمی اور بلیسٹک میزائل کے تجربات کرتا رہتا ہے جو اکثر جاپان کی بحری سرحد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گزرتے ہیںتاہم امریکہ نے شمالی کوریا کے خلاف بھی آج تک کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی ہے یہی وجہ ہے جاپانی عوام کی امریکہ سے امیدیں نہ ہونے کی، لیکن اب آٹھ سال بعد ری پبلکن جماعت ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکہ میں حکومت قائم کرنے جارہی ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار سنبھالنے سے قبل ہی جاپانی حکومت اور عوام کو جاپان میں تعینات امریکی افواج کے لئے سالانہ رقم میں بہت زیادہ اضافے کامطالبہ کرکے مایوس کرچکے ہیں،جبکہ ایک اور اہم فیصلہ جس نے مزید جاپانی حکومت کو ڈونلڈ ٹرمپ سے سخت مایوس کیاہے وہ ٹرانس پیسفک پارٹنر شپ پروگرام کوبیک جنبش قلم ختم کردینا ہے، جاپان سمیت ایک درجن سے زائد ممالک TPPمعاہدے کو حتمی شکل دینے میں مصروف تھے جس کو امریکی صدر بارک اوباما کی بھی بھرپور حمایت حاصل تھی لیکن گزشتہ ماہ جاپانی وزیر اعظم جب نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے لئے امریکہ گئے اس وقت بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے جاپانی وزیر اعظم سے اپنی ملاقات میں ٹی پی پی معاہدے کا پاس رکھنے کی یقین دہانی کرائی لیکن جیسے ہی اگلے روز جاپانی وزیر اعظم یورپ کے دورے پر پہنچے تو نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹی وی پر جاری ہونے والے بیان میں واضح طور پر کہا کہ وہ اپنا صدارتی عہدہ سنبھالنے کے فوراََ بعد سب سے پہلے ٹی پی پی معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کریں گے جس سے جاپان سمیت اس معاہدے میں شامل تمام ممالک میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی اورپانچ سال سے معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لئے جاری کوششیں دم توڑ گئیں اور جاپانی حکومت اور عوام کو مستقبل میں امریکہ کے ساتھ تعلقات میں ایک نیا موڑ نظر آرہا ہے جو ماضی سے زیادہ مشکل بھی ثابت ہوسکتا ہے، نو منتخب صدر نے اپنا عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی جاپان کو اپنے مشکل بیانات سے مایوسی میں مبتلا کردیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ جنوری2017 میں امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ جاپان کو ساتھ لے کر چلتے ہیں یا جاپان کو معاشی طور پر عالمی طاقت بننے کے بعد دفاعی طورپر بھی عالمی طاقت بننے کے لئے خودمختاری کی پالیسی اپنانے پر کام شروع کرنا پڑے گا۔


.
تازہ ترین