• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جولائی 2015ء تک ملاّ اختر محمد منصور نے افغان طالبان کے سپریم کمانڈر، ملاّ محمد عمر کی وفات کی خبر کو کم و بیش دوسال تک بہت کامیابی سے چھپائے رکھا ۔ دودسمبر کو ملاّ منصور بذات ِخود ایسی ہی صورت ِحال سے دوچار ہوئے جب اُن کی ہلاکت کی خبریں میڈیا میں گردش کرتی دکھائی دیں۔ کہا گیا کہ ملا اختر محمدمنصورگزشتہ رات مبینہ طور پر کوئٹہ کے نزدیک ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہوگئے ہیں۔ یہ ایک بڑی خبر تھی اور اسے چھپانا ممکن نہ تھا کیونکہ وہ صرف چار ماہ پہلے ہی طالبان کے نئے امیر بنے تھے ،چنانچہ اتنے قلیل وقت میں دوسرے امیر کو کھونا طالبان کے لئے ایک دھچکے سے کم نہ ہوتا۔ باون سالہ منصور کو ایک مشکل، بلکہ عجیب وغریب صورت ِحال کا سامنا تھا کیونکہ افغان حکومت کے دھڑے، بشمول پہلے نائب صدر عبدالرشید دوستم کے ترجمان، طالبان کے مخالف گروہ، جیسا کہ محب اﷲ اور نعیم نیازی، اور کچھ میڈیا تنظیمیں بہت اعتماد سے دعویٰ کررہے تھے کہ ملاّ منصورشدید زخمی ، یا غالباً ہلاک ہوچکے ہیں۔طالبان کی طرف سے کی جانے والی تردید کو مسترد کردیا گیا کیونکہ اس سے پہلے ان کی ملاّ عمر کی وفات کے بارے میں کی گئی پیہم تردیدیںاپنی ساکھ کھوچکی تھیں۔ طالبان نے ہمیشہ ملاّ عمر کی وفات کی تردید کی تھی اور اس کا اعتراف صرف اُسی صورت میں کیا جب اپنے امیر کی وفات کو چھپانا ممکن نہ رہا۔
اس واقعہ، جو مبینہ طور پر بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے نزدیک ایک قصبے، کچلاک کے قریب پیش آیا، کے پانچ دن بعد ایک آڈیو ٹیپ منظر ِعام پر آئی جس میں طالبان کے براڈکاسٹر نے ایک ’’شخص‘‘ کو متعارف کرایا ، جس کا کہنا تھا کہ وہ ملاّ منصور ہے اور اُس پر نہ کوئی حملہ ہوا اور نہ ہی وہ گزشتہ کئی سالوں سے کچلاک گیا، اور یہ کہ اُس پر حملے کی افواہ دشمنوں کی پروپیگنڈا مہم کا حصہ ہے۔ پشتو زبان میں منصور کے آڈیو پیغام کوتحریک ِطالبان کی ویب سائٹ پر پوسٹ کیا گیا۔ اس ویب سائٹ پر حالیہ برسوں میں طالبان کے عسکری کارنامے اور میڈیا پیغامات ملتے ہیں۔ اس ٹیپ کا دورانیہ 16 منٹ،53 سیکنڈز کا ہے اور اس متکلم کے لہجے سے اس امر کی قطعاً غمازی نہیں ہوتی کہ وہ زخمی یا مجروح ہے۔ آواز جانی پہچانی ہے اور ملاّ منصور کی ہی معلوم ہوتی ہے۔تاہم ملا محمد رسول کی قیادت میں بننے والے طالبان مخالف گروہ کا کہنا ہے کہ یہ آواز ملاّ منصور کی نہیں، اُن کے چھوٹے بھائی کی ہے۔ کچھ کا دعویٰ ہے کہ آڈیو ٹیپ میں آواز کی تبدیلی کی گئی ہے۔ جو گروہ ملاّ منصور کی ہلاکت کادعویٰ کرتے ہیں، اُن کے پاس بھی کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں۔ اُن کے دعوے کی بنیاد بھی مختلف ذرائع سے سنی سنائی باتیں ہیں۔ تاہم طالبان کے جو ارکان ملاّ منصور سے مل چکے ہیں یا اُنہیں جانتے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ ٹیپ میں متکلم ملاّ منصور ہی ہیں۔ اس پیش رفت سے ظاہرہوتا ہے کہ طالبان قیادت پر دبائو یقینی طور پر موجود تھا کہ وہ ملاّ منصور کے حیات اور تندرست ہونے کا ثبوت فراہم کرے۔ اگرچہ طالبان کی طرف سے فوری طور پر صوبہ واردک کے نام نہاد گورنر، عبدا ﷲ سرحدی کا ایک آڈیو پیغام نشر کردیا گیا جس میںعبداﷲ سرحدی نے دعویٰ کیا تھا کہ نہ تو اُن کا کچلاک میں کوئی مکان ہے اور نہ ہی فائرنگ کا ایسا واقعہ پیش آیا ہے جس میں وہ یا ملاّ منصور نشانہ بنے ہوں، لیکن ناقدین اس پیغام سے مطمئن نہ ہوئے۔ وہ چاہتے تھے کہ ملاّ منصور اپنی آواز میں اپنی ہلاکت کی تردید کریں۔ اس پر ملاّ منصور نے اپنا پیغام ریکارڈ کرایا ہوگا لیکن اس کا پانچ دن بعد ریلیز کیا جانا شکوک و شبہات بڑھانے کا موجب بنا۔ تاہم ٹیپ میں کچھ حالیہ واقعات کا ذکر موجود تھا، جیسا کہ افغان فورسز کی طرف سے فائر کیے جانے والے ایک شیل سے دس نوعمر بچوں کی ہلاکت پر ملاّ منصور کی جانب سے مذمت اور سوگوار خاندانوں کے ساتھ کی گئی تعزیت ۔ اس واقعہ سے افغانستان بھر میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی اور افغان حکومت کو احتجاجی مظاہرین کو پرسکون کرنے کے لئے کمیشن قائم کرنا پڑ ا کیونکہ سوگوار مظاہرین دھمکی دے رہے تھے کہ اگر واقعہ کے ذمہ داران کا تعین کرتے ہوئے اُنہیں سزا نہ دی گئی تو وہ طالبان کی صفوں میں شامل ہوجائیںگے۔ اس پر حکومت نے اعلان کیا کہ سید آباد سے فائر کرنے والے تین فوجیوںکوفوج سے برخاست کرکے گرفتار کرلیا گیا ہے۔ صدر اشرف غنی نے اعلان کیا کہ مرنےوالے بچوں کی یاد میں گائوں میں ایک مدرسہ قائم کیا جائے گا۔ شیل کی زد میں آکر جاںبحق ہونے والے بچے ایک مدرسے میں زیر ِ تعلیم تھے اوراُس وقت ایک مسجد کے باہر کھیل رہے تھے۔
اگر چہ یہ بات یقینی دکھائی دیتی ہے کہ ملاّ منصور حیات ہیں لیکن شک کرنے والے حلقوں کا موقف ہے کہ ملاّ عمر کی وفات کے کئی ماہ بعد تک ایسے پیغامات منظر ِعام پر آتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے طالبان کی ساکھ کو یقینا نقصان پہنچا ہے۔ تحریک ِطالبان کے بانی امیر اکیس سال تک تحریک کی قیادت کرنے کے بعد تیئس اپریل 2013ء کو اُس وقت فوت ہوئے جب نیٹو افواج افغانستان سے انخلا کے پروگرام کو حتمی شکل دے رہی تھیں، تاہم طالبان نے اُن کی موت کاحتمی اعتراف انتیس جولائی 2015ء کو کیا۔منصور کے علاوہ تحریک ِطالبان کی چھ اہم شخصیات، جو ملاّ عمر کی وفات سے باخبر تھیں، کو بہت سے طالبان نواز حلقوں نے سراہا کہ اُنھوں نے طویل عرصے تک اس راز کو اپنے سینوں میں اس طرح دفن رکھاکہ کئی ایک انٹیلی جنس ایجنسیاں اور چوکنا میڈیا بھی اس خبر تک رسائی حاصل نہ کرسکا۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ دنیا کی طاقتور ترین افواج کے خلاف لڑتے ہوئے بھی طالبان اپنے راز محفوظ رکھنے پر قادر تھے۔ جو سات افراد ملاّ عمر کی وفات سے باخبر تھے، اُن میں ملاّ عمر کے واحد زندہ بھائی، ملاّ عبدالمنان اور اُن کے بڑے بیٹے، ملاّ محمد یعقوب شامل تھے۔ ان سب نے فیصلہ کیا کہ ملاّعمر کی وفات کی خبر طالبان کو بددل کرنے کے علاوہ اُن کی صفوں میں دراڑیں ڈال سکتی ہے، اس لئے اس کا پوشیدہ رکھا جانا ہی بہتر ہے۔ یہ تشویش بے بنیاد نہ تھی کیونکہ ملاّعمر کی وفات کے انکشاف نے ان خدشات کو سچ ثابت کردیا اور طالبان دھڑے بندی کا شکار ہوگئے۔ ان میں سے بڑے اور طاقتور دھڑے کی قیادت ملاّ منصور کے پاس جبکہ صوبے نمروز کے سابق گورنر، ملاّ رسول مرکزی تحریک سے جدا ہونے والے نسبتاً ایک چھوٹے گروپ کی قیادت کررہے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ ملاّ منصور اس مرتبہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے ہوں لیکن اُن کی مشکلات کا دروازہ بند نہیںہوا، کیونکہ اُن کاطالبان کے ایک باغی ہونے والے خاندان سے خونی تنازع چل رہا ہے۔ یہ خاندان ایک طالبان کمانڈر منصور داداﷲ کا ہے جو اپنے بھائی ملاّداد، عرف حاجی لالہ کے ہمراہ چند سال پہلے زابل پر طالبان کے حملے کے دوران ہلاک ہوگئے تھے۔ ان ہلاکتوں کا الزام دادا ﷲ خاندان نے ملاّ منصور اور دیگر طالبان کمانڈروں پرلگایا تھا۔ اگرچہ داداﷲ خاندان کمزور ہوچکا ہے لیکن وہ انتقام کی آگ سرد کرنے کے لئے ملاّ منصورکو موقع ملتے ہی ہدف بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جس دوران تمام توجہ ملاّ منصور کی وفات یا حیات کی تصدیق پر مرکوز تھی، ان کی آڈیو ٹیپ کے کچھ اہم نکات کو نظر انداز کردیا گیا حالانکہ ان کا تعلق ابھرنے والی اس صورت ِحال سے تھا جس میں کابل، اسلام آباد اور واشنگٹن طالبان کو مذاکرات کی میز پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ملاّ منصور نے اپنے پیغام میں طالبان کے درمیان ابھرنے والے اختلافات کا اعتراف کیا ،لیکن اُن کا کہنا تھا کہ ابھی اختلافات اس نہج کو نہیں پہنچے کہ وہ ایک دوسرے کو ہلاک کرنا شروع کردیں۔ اہم بات یہ تھی کہ اُنھوں نے افغان حکومت کے ساتھ پرامن مذاکرات کے امکان کورد نہیں کیا تھا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ مذاکرات طالبان کی شرائط اور کسی مناسب وقت پرہوں گے ۔ اگرچہ اُنھوں نے اُن شرائط کا خاکہ پیش نہیں کیا لیکن اس مطالبے کا اعادہ ضرور کیا کہ طالبان افغانستان میں اسلامی قوانین، شریعت، کا نفاذ چاہتے ہیں۔ انھوں نے مذاکرات سے پہلے غیر ملکی افواج کی مکمل واپسی کی شرط کا ذکر نہیں کیا ، لیکن یہ اُن کی ہمیشہ سے ہی پیشگی شرط رہی ہے۔ منصور نے دعویٰ کیا کہ کوئی بھی طالبان کو حکم دے کر اپنی بات نہیں منوا سکتا۔ اُن کے کہنے کا یہ مطلب تھا کہ طالبان ایک آزاد او ر خود مختار طاقت ہیں، چنانچہ پاکستان اُنہیں کسی قسم کی ہدایت دینے کی پوزیشن میں نہیں۔ کیا اس بیان کے ذریعے اُنھوں نے اسلام آباد کو کوئی پیغام دیا ہے؟ہوسکتا ہے کہ یہ پیغام کابل کے لئے ہو جو طالبان کو پاکستان کا پراکسی لشکر سمجھتا ہے۔
تازہ ترین