• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک متحرک اور ارتقا پذیر معاشرے میں چیلنجز بھی اُبھرتے ہیں اور مسائل بھی۔ سمجھ دار قومیں آنے والے حالات کا ادراک رکھتی ہیں اور دانشمندانہ فیصلوں اور اقدامات کے ذریعے بحران پیدا نہیں ہونے دیتیں‘ جبکہ ہمارے ہاں سیاسی‘ اقتصادی اور سماجی طوفان اُمڈتے چلے آتے ہیں اور حکمران اور منصوبہ ساز یا تو اُن سے جان بوجھ کر آنکھیں بند رکھتے ہیں کہ عوام اُن کی آگ میں سلگتے رہیں اور انہیں مقتدر حلقوں کی بداعمالیوں کی طرف دھیان ہی نہ جائے یا وہ حد سے بڑی ہوئی خوداعتمادی کا شکار ہوتے ہیں کہ چٹکی بجاتے ہی تمام بادل چھٹ جائیںگے۔ انہی خام خیالیوں نے ہمارے نہایت خوبصورت اور عظیم وطن کو مسائلستان بنا دیا ہے۔ قدرت جو ہم پر حد سے زیادہ مہربان ہے ‘ وہ ہمارے لیے وسیع امکانات کے در کھولتی رہتی ہے لیکن ہم اُن سے پورا پورا فائدہ اُٹھانے کے بجائے‘ آپس ہی میں دست و گریبان رہتے ہیں کیونکہ ہم اجتماعی زندگی کے مسلمہ اصول اور تہذیبی روایات اپنانے سے مسلسل گریز کرتے چلے آئے ہیں اور دستور و قانون اور میرٹ کی بالادستی قائم کرنے سے زیادہ اپنی لامحدود خواہشات کی تکمیل میں لگے رہتے ہیں۔ا س تلخ حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بدعنوانی‘ نااہلی‘ اقربا پروری اور جاہ پرستی نے سیاسی‘ انتظامی اور تنظیمی ڈھانچے میں بڑے بڑے شگاف ڈال دیے ہیں۔
آج ہمارا پورا ملک پی آئی اے کے مسافر طیارے کی تباہی پر سوگ میں ڈوبا ہوا ہے کہ اس پر قیامت صغریٰ ٹوٹی ہے۔ حویلیاں سے ملحق علاقہ آگ کے شعلوں میں لپٹا اور چاروں طرف کہرام مچا ہوا تھا۔ 48 قیمتی جانیں شعلوں کی نذر ہو گئیں جن میںجنید جمشید اور اُن کی اہلیہ بھی شامل تھیں جو اسلام کی تبلیغ کے لیے چترال گئے تھے اور اسلام آباد واپس آتے ہوئے فضائی حادثے کا شکار ہو گئے۔ جاں بحق ہونے والے مسافروں میں غیرملکی مسافر بھی شامل تھے۔یہ حادثہ اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ پی آئی اے کے معاملات زوال پذیر ہیں اور فرائض سے غفلت ہمارے رگ و پے میں اُترتی جا رہی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ پورے خطے میں ہماری یہ قومی فضائی کمپنی بے مثال شہرت کی حامل تھی۔چند سال پہلے ملتان کے قرب و جوار میں فوکر طیارے کا حادثہ پیش آیا جس میںایک عظیم المرتبت ہائی کورٹ کے جج بھی شہید ہوئے تھے۔ اس حادثے کے بعد فوکر طیارے پی آئی اے فلیٹ سے خارج کر دئیے گئے اور اُن کی جگہ اے ٹی آر طیارے خریدے گئے۔ حویلیاں کے قریب اے ٹی آر طیارہ تباہ ہوا ہے جس نے فضائی سفر کی سلامتی کے بارے میں بڑے بڑے سوالات اُٹھائے ہیں اور یہ احساس دلایا ہے کہ ہماری انتظامی اور فنی صلاحیتیں تشویشناک حد تک مفلوج ہوتی جارہی ہیں اور ایک خوفناک اخلاقی بحران سر اُٹھا رہا ہے۔
امرتسر میں پچھلے دنوں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس منعقد ہوئی جس میںروس اور چین سمیت چودہ ممالک مدعو کیے گئے تھے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جنہوں نے استنبول میں افغانستان پر پہلے مشاورتی اجلاس اور ہارٹ آف ایشیا کا تصور پیش کیا تھا اور گزشتہ سال اسلام آباد میں ہارٹ آف ایشیا کی میزبانی کا شرف حاصل کیا تھا۔ بھارت کی طرف سے بلائی ہوئی اس کانفرنس میں پاکستان کی شرکت ایک پیچیدہ مسئلے کی صورت اختیار کر گئی‘ کیونکہ بھارت ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت کی تمام حدیں عبور کر رہا تھا اور دوسری جانب لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سول آبادی کو نشانہ بنا رہا تھا۔ ملک میں آوازیں اُٹھ رہی تھیں کہ ان حالات میں پاکستان کو ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت نہیں کرنی چاہیےلیکن حکومت نے بردباری اور دوربینی کا ثبوت دیا اور وزیراعظم کے مشیر خارجہ جناب سرتاج عزیز‘ جو عالمی حالات پر گہری نگاہ اور اپنا مافی الضمیر ادا کرنے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتے ہیں‘ وہ ایک رات پہلے امرتسر پہنچے اور وزیراعظم نریندر مودی کے عشائیے میں بھی شریک ہوئے۔ انہوں نے کانفرنس میں نہایت جچی تلی تقریر کی اور پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ہم افغانستان میں قیام امن‘ اس کی سلامتی اور ترقی میں ایک فعال کردار ادا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ پورے علاقائی اورعالمی امن افغانستان کے استحکام سے وابستہ ہے۔ بھارت نے مسلمہ سفارتی آداب کے منافی جناب سرتاج عزیز کے ساتھ سلوک روا رکھا‘ اُنہیں ایک ہوٹل میں محصور کر دیا‘ اخبار نویسوں سے بات چیت کرنے اور گولڈن ٹیمپل جانے کی اجازت نہیں دی‘ تاہم ہمارے ہائی کمشنر جناب عبدالباسط نے کمال جرأت کامظاہرہ کرتے ہوئے سیکورٹی گارڈ کو ڈانٹ پلائی اور اپنا راستہ بنایا۔ اس کانفرنس میں افغان صدر جناب اشرف غنی نے پاکستان کے خلاف نہایت زہریلی باتیں کیں اور اپنا ہی نقصان کر ڈالا۔ پاکستان کے باوقار طرزعمل سے یہ مثبت نتیجہ برآمد ہوا کہ روس کے نمائندے نے جناب سرتاج عزیز کی تقریر کو مثبت اورتعمیری قرار دیا اور افغان صدر کے رویے کی سخت مذمت کی۔ اسی طرح چین بھی کھل کر پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا۔ اس کانفرنس نے بھارت اور افغانستان کے انتہائی نامعقول رویے کو عالمی برادری میں پوری طرح بے نقاب کر دیا ہے اور پاکستان کی عزت میں اضافہ کیا ہے۔
پنجاب کی یونیورسٹیوںپر گزشتہ ایک سال سے کسی قدر بحرانی کیفیت سایہ فگن ہے جس کا تعلق وائس چانسلروں کے انتخاب سے ہے۔ اس ضمن میں اہم فیصلہ یکم دسمبر کو سنایا گیا جو غالباً 3دسمبرکو ضبط تحریر میں آیا ہے۔ فیصلے کے نتیجے میں پنجاب کی چودہ یونیورسٹیاں متاثر ہوں گی۔ فیصلے کے مطابق وائس چانسلر کے تقرر کامعیار مقرر کرنے کا اختیار صرف وفاقی ہائر ایجوکیشن کو حاصل ہے‘ اس لیے اسے باضابطہ طور پر جلد سے جلد اُسے تحریر میں لانے اور اسے نافذ کرنے کی ضرورت ہے،لہٰذا حکومت پنجاب نے وائس چانسلر کے تقرر کا جو معیار نوٹیفکیشن کے ذریعے جاری کیا ہے‘ وہ آئین سے متصادم ہے۔ فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ ہر یونیورسٹی کے لیے ایک علیحدہ سرچ کمیٹی بنائی جائے جس کی میعاد قانون کے مطابق دو سال ہے۔
مقصد یہ ہے کہ اسے اہل افراد کی تلاش کے لیے مناسب وقت میسر آئے۔ ان کمیٹیوں میں حکومتی ارکان کا شمولیت سے گریز کیا جائے تاکہ غیرجانبداری اور آزادی کے ساتھ وائس چانسلر کاانتخاب عمل میں آ سکے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو قائم مقام وائس چانسلر کے طور کام کررہے ہیں‘ انہیں سات روز کے اندر بنا دیا جائے اور اُن کی جگہ سب سے سینئر پروفیسر کو یہ چارج دیا جائے۔ اس کے بعد سرچ کمیٹیاں بنائی جائیں جو ایک ماہ کے اندر اندر وائس چانسلروں کا انتخاب عمل میں لائیں۔
اس فیصلے میں صوبائی خودمختاری کا ایشو بھی زیربحث آیا ہے اور جو احکام صادر کیے گئے ہیں تاثر یہ ہے کہ اُن پر محدود وقت کے اندر عمل درآمد ایک بحرانی کیفیت پیدا کرسکتا ہے‘ جبکہ دہشت گردی کے تشویشناک ماحول میں یونیورسٹیوں میں نظم و نسق کا قیام وقت کا سب سے بڑا تقاضا ہے، لہٰذا اس فیصلے پر دوبارہ غور ہونا چاہئے۔ یہ تمام کام جلد بازی میں کرنے سے بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے۔ چودہ یونیورسٹیوں کے لیے سرچ کمیٹیوں کے انتخاب کا مرحلہ بھی بہت دشوار ثابت ہو گا اور ایک مہینے کے لیے دوسرے قائم مقام وائس چانسلر کاتقرر یونیورسٹی کا نظام درہم برہم کر سکتا اور حکومت کو آزادی سے کام کرنے میں خلل ڈال سکتا ہے۔ اِن نازک اور حساس معاملات کو دانشمندی سے طے کرنا ضروری ہے۔


.
تازہ ترین