• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے مغربی طاقتیں بشمول بھارت اکثر یہ پروپیگنڈا کرتی ہیں کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بہت تیز رفتاری سے جاری ہے اور یہ کہ اُس کا یورینیم کی افزودگی کا عمل دُنیا میں سب سے زیادہ بڑھ گیا ہے یا یہ کہ پاکستان کے پاس بھارت سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں۔ اب یہ عام پاکستانی کے لئے تو خوش کن خبر ہے کہ ہمارے پاس زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں یا ہم زیادہ ایٹمی ہتھیار بنا سکتے ہیں مگر اصل میں ایسی بات کرنے کا مقصد پاکستان کو دُنیا کے سامنے رسوا کرنے اور اُس کو امن کے دشمن کے طور پر پیش کرنا ہے اور ہم اس خوش فہمی میں ایک عشرے سے زیادہ مدت مبتلا رہے، ہوش آیا تو اسلام آباد کی انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز نے ایک کتاب تحقیق کے بعد شائع کی جو چار مضامین پر مشتمل ہے اور ہر ایک مضمون کا ایک مصنف ہے، یہ چار مصنّفین عدیلہ اعظم، احمد خان، سید محمد علی اور سمیر علی خان ہیں، جن کی کتاب کی رونمائی تو اسلام آباد میں مگر تقریب پذیرائی کا انعقاد کراچی میں کیا گیا۔ اِس کتاب میں بھارتی ایٹمی پروگرام کی وسعت اور اُسکی صلاحیتوں کو اُجاگر کیا گیا ہے، جس سے بھارت کی انسان دشمنی کھل کر سامنے آئی، اس کتاب میں چار پہلوئوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے، ایک تو یہ کہ بھارت کے پاس یورینیم کتنی مقدار میں موجود ہے، دوسرے یہ کہ یورینیم کی افزودگی میں وہ کس حد تک آگے بڑھ گیا ہے، تیسری یہ کہ اُس کے پاس کتنے ایٹمی ری ایکٹر ہیں، اور چوتھے یہ کہ یورینیم کے استعمال کے بعد جو فضلہ بچ جاتا ہے اُس کو دوبارہ قابل استعمال بنانے میں بھارت کس مقام پر ہے۔ اس حوالے سے وہ ممالک بھی اس میں ہیں جو ترقی پذیر ہیں اور وہ ممالک بھی شامل ہیں جنہوں نے ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدے پر دستخط کئے ہوئے ہیں۔ مصنفین کا کہنا ہے کہ بھارت کے ہندوتوا کی سوچ کے حامل اور بھارت کے ایٹمی پروگرام کے بانی ہومی بھابھایہ سوچ تقسیم ہند سے پہلے رکھتے تھے کہ ان کے پاس ایٹم بم ہونا چاہئے، جو اُن کی اپنی تحریروں سے ثابت ہوتا ہے اور عالمی اداروں نے بھی اِس کی تصدیق کی ہے، عدیلہ اعظم نے اپنی تفصیلی تحقیق میں یہ بات ثابت کی ہے کہ بھارت میں جھارکنڈ اور کرناٹکا ریاستوں میں جو یورینیم پایا جاتا ہے وہ 1500کلوٹن ہے اور وہ بھارت کے ایٹمی پروگرام اور ایٹمی آبدوزوں کو چلانے کیلئے ایک صدی سے زیادہ عرصے تک چلانے کیلئے کافی ہے۔ اس میں بھارت کے ایٹمی ری ایکٹرز بھی شامل ہیں۔ اسی طرح احمد خان نے اپنے تجزیے اور جائزے میں اِس بات پر زور دیا ہے کہ بھارت کی افزودگی کی صلاحیت ساری دُنیا کی صلاحیت سے زیادہ ہے اور وہ سب سے تیز رفتار یورینیم افزودہ کرنے والا ملک بن چکا ہے۔ اس کے باوجود دُنیا کے کئی ممالک جو بھارت کو یورینیم فراہم کر رہے ہیں وہ نہ صرف اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں بلکہ اس کرئہ ارض کے انسانوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں، ہمارے خیال سے دنیا کو بھارت کے سماج اور بھارت کی ذہنی حالت کو پیش نظر رکھنا چاہئے خصوصاً اِس حوالے سے کہ وہ ملک ایک ہزار سال تک غلام رہا ہے اور یہ کہ اسرائیل کی طرح اس کے توسیع پسندانہ عزائم ہیں، جیسے عظیم تر اسرائیل ویسے ہی مہابھارت یعنی عظیم بھارت بنانے کا خواب دیکھ رہا ہے، جس کی سرحدیں افغانستان و ایران اور پاکستان سے لیکر انڈونیشیا تک پھیلی ہوئی ہوں ورنہ جب ایک ملک کے پاس اتنے ذخائر ہیں کہ وہ اپنی ضروریات پوری کرسکتا ہے تو اس کو مزید یورینیم فراہم کرنا کہاں تک عالمی امن کیلئے درست ہو گا۔ اس کے عزائم پاکستان اور چین سے آگے کے ہیں جس سے روس اور امریکہ کو فکرمند ہونا چاہئے کہ وہ ایسے ملک کو عام تباہی پھیلانے والے ہتھیار بنانے میں مدد دے رہے ہیں جو مستقبل میں اُن کے ہی گلے پڑ جائے گا، وہ بلیسٹک میزائل بنا رہا ہے جس کا ہدف5 ہزار کلومیٹر ہے تو پاکستان کیلئے تو نہیں بنا رہا بلکہ امریکہ، روس اور ساری دنیا اُس کی زد میں آ جاتی ہے۔ اُس کے بلیسٹک میزائل کی مار 5 ہزار کلومیٹر تک موقوف نہیں بلکہ وہ 8 ہزار کلومیٹر تک مار کرنے والے میزائل بھی بنا رہا ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ وہ تھرمو ایٹمی ہتھیار بھی بنا رہا ہے، اِس کے معنی یہ ہیں کہ وہ دُہری تباہی کے ہتھیار بنانے میں لگ گیا ہے یعنی ایک دھماکہ تو ایٹمی ہوگا اور دوسرا دھماکہ ایٹمی دھماکے سے جنم لے گا جو زیادہ بڑی تباہی پھیلائے گا۔ سید محمد علی نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ بھارت 356 سے 492 تک ایٹم بم بنانے کی صلاحیت حاصل کررہا ہے، اس لئے وہ یورینیم کو غیر محفوظ طریقے سے افزودہ کرنے میں لگا ہوا ہے، اُس کو یورینیم اپنے ملک میں وافر مقدار میں کان کنی سے مل رہا ہے اور اُس کو دوسرے ممالک بھی پیسے کے حصول کیلئے یورینیم فراہم کرتے ہیں اور یہ ایٹمی ہتھیار پلوٹونیم ایٹمی ہتھیاروں کے جو سائز میں چھوٹے اور زیادہ تباہی کا باعث بنیں گے۔ سمیر علی خان نے اپنی تحقیق میں یہ ثابت کیا ہے کہ بھارت کے بڑی مقدار میں ری ایکٹر گریڈ پلوٹونیم کے ذخائر عام تباہی پھیلانے والے ہتھیار بنا سکتے ہیں اور انہوں نے افزودگی کے تمام پروگرام کو IAEAکے کنٹرول سے باہر رکھا ہوا ہے، اس کے علاوہ اس نے تیزی سے پیداوار کرنے والے ایٹمی ری ایکٹر بنا لئے ہیں، وہ بھی عالمی ایٹمی ایجنسی کے تحفظات کے دائرہ کار سے باہر ہیں اور یہ ری ایکٹر اپنی صلاحیت کے حساب سے80 فیصد یورینیم افزودہ کر رہے ہیں، اس طرح اب تک اس نے ایک ٹن کے قریب پلوٹونیم افزودہ کر دیا ہے جو 196 سے 294 تک ایٹمی ہتھیار بنا سکتا ہے۔ ان چار محققین سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بھارت اپنی حد سے بہت آگے بڑھ گیا ہے، اگر اُسے پاکستان یا چین سے خطرہ ہے تو ڈرانے کیلئے80 ایٹم بم ہی کافی ہیں مگر اُس کے عزائم اِس کے سوا ہیں، وہ دنیا کی واحد سپر طاقت بننا چاہتا ہے اُس کے خیالات عظیم تر بھارت پر جا کر مرکوز ہوتے ہیں، اگر بھارت کو عالمی طاقتوں نے نہ روکا تو دنیا اُس کی بے تدبیری، کم علمی، تباہ کاری سے تباہ ہوجائے گی۔ بھارت ایک غیر ذمہ دار ملک ہے اور اس کا ایٹمی پروگرام غیر محفوظ اور اس کا استعمال کم تر درجے کے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، اس لئے اگر اس ملک کو روکا نہ گیا تو یہ ملک کرئہ ارض کی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔

.
تازہ ترین