• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک اور اردو کانفرنس نمٹ گئی۔اپنے پیچھے تعریف و توصیف بھی چھوڑ گئی اور شکوے شکایتیں بھی۔ یہ ہر سال ہوتا ہے اور کانفرنس نے اپنی چال نہ بدلی تو یہی ہوتا رہے گا۔ کراچی کی آرٹس کونسل جیسا کہ میں کہتا ہوں، کرامات کرتی ہے۔ ایسے اہتمام سے سال کے سال اردو کانفرنس منعقد کرتی ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ملک بھر کے اکابرین اکٹھا ہوتے ہیں۔اور پھر جو علم و حکمت کی جھڑی لگتی ہے تو بٹورنے والے جھولیاں بھرتے ہیں۔ درجنوںاسکالر یکجا ہوتے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ موضوع دلچسپ ہو تو سننے والے اس کثرت سے آتے ہیں کہ تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی۔بالکل اسی طرح موضوع غیر دلچسپ ہوتوبولنے والے بھی ہم ہی ہوتے ہیں اور سننے والے بھی ہم۔
اس سال اک ذرا سا خسار ہ ہوگیا۔ بھارت کے مندوبین نہیں آئے۔ یہ نہیں کہ انہیں پروانہ ء راہداری نہ ملا ہو۔ وہ مل گیا لیکن سرحد پار کے اہل علم نے خود ہی طے کیا کہ وہ نہیں آئیں گے۔ سبب بڑ ا تکلیف دہ تھا۔ وہ یہ کہ وہ چلے تو آئیں گے لیکن جب لوٹ کے جائیں گے تو ان کے ساتھ جو سلوک ہوگا اس کا تصور ہی مارے ڈالتا ہے کہ کس غضب کی تفتیش اور کس بلا کی پوچھ گچھ ہوگی۔ دو ملکوں کے درمیان یہ تلخی بڑے دکھ دیتی ہے۔ دشمنی کریں اور شوق سے کریں لیکن اپنے بدن پر انسانیت کا لبادہ جیسا ہے ویسا ہی رہنے دیں۔ خاص طور پر ادب اور ثقافت کے نام پر بچکانہ پابندیاں لگاکر کسی کو کیا ملتا ہے، عقل سمجھنے سے قاصر ہے۔
اردو کانفرنس کو دوسرا جھٹکا یوں لگا کہ زبان کے میدان میں اپنے کارہائے نمایاں سرانجام دینے والے بزرگ اس طرف کچھ زیادہ ہی تیزی سے اٹھتے جاتے ہیں۔ کیسے کیسے نامور بزرگ، پچھلے برس تھے، اس سال نہیں تھے۔ ان کے نام کی کرسیاں خالی پڑی رہیں۔ اس سال انتظار حسین نہیں تھے،اسلم فرخّی کا صرف تذکرہ تھا، جمیل الدین عالی ہمیشہ ہوا کرتے تھے، اس برس نہ تھے۔ اور یہ فہرست طویل ہوئی جاتی ہے۔ یہ بات ستاتی ہے اور دکھ دیتی ہے۔ مگر یہی بات یہ احساس بھی دلاتی ہے کہ لوگو، کچھ کرو۔ اردو کو سنبھالو۔
اس کانفرنس کا میرے نزدیک سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ اردو جیسی پاک و پاکیزہ اور مہذب زبان کی آبرو جن خوبیوں سے ہے ان خوبیوں کو بچا کر رکھنے کی بات نہیں کی گئی۔ کانفرنس کا سارا زور ادب کو جدیدیت کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھانے پر تھا۔ اے بھائی، ہمارے معاشرے نے ابھی روایتی ادب کے امکانات کو کنارے نہیں لگایا ہے، اسے لاطینی امریکہ اور مغربی یورپ کے تجربوں کی گتھیوں میں کیوں الجھایا جارہا ہے۔ کانفرنس میں میلان کوندیرا کا نام بار بار سننے میں آیا، اردو کے دو ناولوں، شمیم او رانور کا نام ایک بار بھی نہیں لیا گیا۔ساختیات اور پس ساختیات کس بلا کا نام ہے، بھولے بھالے مجمع کے سروں پر یہ چٹانیں کیوں لڑھکائی جاتی ہیں، میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔ کانفرنس میں بارہا یوں لگا کہ ایم اے سال آخر کی کلاس لگی ہے۔ اعلیٰ ادب کی جو گاڑھی اور دقیق گفتگو ہو رہی تھی اس اونٹ کی مانند تھی جس کی چوہے کے بل میں سمائی ممکن نہیں۔اس پر یاد آیا کہ مولوی اسماعیل میرٹھی کی بات نہیں ہوئی جنہوں نے اردو معاشر ے کی نسلوں کی ذہنی تربیت کی۔ حامد اﷲ افسر کو دنیا نے کیوں بھلا دیا، راجا مہدی علی خاں، کرشن چندر اور ابن انشا کی بات کیوں نہیں ہوئی۔ خدا خدا کرکے بچّوں کے ادب کا ذکر چھڑا سو وہ بھی ادھورا ہی رہا۔خدا بھلا کرے محمد احمد شاہ کا جو اس اجتماع کے روح رواں ہیں، اچانک نازل ہوکر گفتگو کو قطع کرادیتے ہیں۔ ان سے خدا ہی سمجھے۔
بلا شبہ فیض صاحب کا بڑ اذکر رہا۔ احمد ندیم قاسمی کو یاد کیا گیا۔انتظارحسین کی بات ہوئی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مشتاق احمد یوسفی کی زیارت ہوئی۔ ایک شام تین ہونہار جوانوں نے یوسفی صاحب کی کتاب آب گم کا وہ باب سنایا جو حویلی کے نام سے مشہور ہے۔سننے کے لئے ایک خلقت اکٹھی ہوئی۔ ایک رات بڑا مشاعرہ ہوا اور یہ بتانے کی ضرور ت نہیں کہ کتنا بڑا مجمع کتنی رات گئے تک بیٹھا رہا۔
یہ سارے مذاکر ے اور مباحثے سننے کے بعد میں جس نتیجے پر پہنچا وہ عرض کئے دیتا ہوں۔ کتاب ہمارے معاشرے سے خارج ہونے کو ہے، نہ کوئی خریدتا ہے اور نہ پڑھتا ہے۔ کتا ب گئی تو سمجھئے ناول بھی رخصت ہوا اور افسانہ بھی اپنے انجام کو پہنچا۔ کتب خانوں پر تالے پڑ گئے، وہ چند ٹکوں کے عوض کتاب رات بھر کے لئے گھر لے جانے کا چلن اٹھ گیا۔ تاریخ، تنقید اور تحقیق عام آدمی کے مطالعے میں نہ پہلے کبھی آئے نہ اب آئیں گے۔اب بڑا سوال یہ ہے کہ کیا رہ جائے گا۔ جواب ساد ہ بھی ہے اور آسان بھی۔ جو رہی سو بے خبری رہی۔لفظ بے خبری کی جگہ آپ چاہیں تو لفظ ’غزل‘ رکھ دیں۔ بس شعر رہ جائیں گے اور وہ بھی استاد ذوق کے۔

.
تازہ ترین