سپریم کورٹ کی سخت ہدایات کی روشنی میں آخر کار حکومت ملک میں فوری طور پر مردم شماری کرانے پر راضی ہو گئی ہے۔ دریں اثنا بلوچستان کے ایک بلوچ رہنما ثناءاللہ بلوچ نے مردم شماری کے پس منظر میں نہ فقط ایک اہم مطالبہ کیا ہے مگر کافی اہم باتوں پر توجہ مبذول کرائی ہے، میں اسے بلوچستان کے ایک بلوچ رہنما کی آواز نہیں سارے بلوچستان کی آواز سمجھتا ہوں بلکہ میں تو اسے سندھ اور ساتھ ہی تینوں صوبوں کی آواز قرار دوں گا۔ خبر کے مطابق بلوچ رہنما سینیٹر ثناءاللہ بلوچ نے یہ بیان غالباً ’’سی پیک‘‘ منصوبے کے تحت گوادر بندرگاہ پر ہونے والی سرگرمیوں کے پس منظر میں جاری کیا ہے، اس خبر کی کچھ اہم سرخیاں کچھ اس طرح ہیں:اسلام آباد بلوچستان میں الاٹمنٹ کر رہا ہے، بلوچستان کے ساحلی علاقے وفاق کے کنٹرول میں دیئے جائیں گے، چھوٹے صوبوں کی زمین اور وسائل بچانے کے لئے وہاں کی زمین ان صوبوں سے باہر کے لوگوں کو فروخت کرنے پر پابندی عائد کی جائے، ہندوستان کے آئین کی شق 370کشمیر میں باہر کے لوگوں کو زمین فروخت کرنے اور وہاں کی شہریت حاصل کرنے سے روکتی ہے، ایسے آئینی تحفظ کے لئے بلوچستان کے بلوچ اور پختونوں کو مل کر جدوجہد کرنی پڑے گی۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں بلوچستان کے سینیٹر اور بی این پی (مینگل گروپ) کے رہنما ثناءاللہ بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کی آبادی کو اقلیت میں تبدیل ہونے سے بچانے کا فقط ایک حل ہے کہ اسے اس سلسلے میں آئین کے تحت تحفظ دیا جائے، جیسے ہندوستان کے آئین کی شق 370 میں کشمیر کو تحفظ دیا گیا ہے۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے بلوچستان کی ساری بلوچ اور پشتون پارٹیوں کو اپنے مقامی اختلافات ایک طرف رکھ کر متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ بلوچ رہنما نے مزید کہا کہ اگر ہندوستان کے آئین میں آرٹیکل370 نہ ہوتا تو ہندوستان کی ایک ارب آبادی کشمیر کے دو لاکھ اسکوائر کلومیٹر علاقے میں ایک کروڑ کی آبادی کو دس دنوں کے اندر اقلیت میں تبدیل کر دیتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس آئینی شق کی وجہ سے ہندوستان کا کوئی غیر کشمیری کشمیر میں زمین خرید نہیں سکتا اور نہ ہی کشمیر کی شہریت حاصل کر سکتا ہے، اس نے اس بات پر تشویش ظاہر کی کہ روزانہ بلوچستان کی لاکھوں ایکڑ زمین اور سمندری کنارے کی زمین اسلام آباد سے مختلف محکموں، افراد اور گروپوں کو الاٹ کی جارہی ہے۔ انہوں نے پیش گوئی کی ہے کہ اس طرح الاٹمنٹ کیے جانے کے نتیجے میں جلد بلوچستان کے سمندری علاقے کو وفاق کے کنٹرول والا علاقہ قرار دیکر اسے بلوچستان سے الگ کردیا جائے گا۔ انہوں نےکہا کہ اتحاد کر کے ان بلوچستان مخالف پالیسیوں کا مقابلہ کیا جائے۔ میرے خیال میں سینیٹر ثناءاللہ بلوچ نے ایک انتہائی اہم اور حساس معاملے کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے، ویسے بھی بلوچستان اور سندھ کے ساحل اور بندرگاہ مرکز کی ملکیت کیسے بن گئے، بہت ضروری ہے کہ آئین میں ترمیم کرکے بلوچستان اور سندھ کے ساحل متعلقہ صوبوں کی تحویل میں دینے کے لئے آئین میں ترمیم کی جائے۔ اس سلسلے میں اگر سندھ اور بلوچستان کو مشترکہ جدوجہد کرنی پڑے تو کرنی چاہئے، ویسے بھی 1947 ء سے اب تک بلوچستان سے کم زیادتی نہیں ہوئی جب بلوچستان کے مقام سوئی میں گیس نکلی تو بلوچستان کو فراہم کرنے کے بجائے پنجاب اور دیگر علاقوں کو فراہم کی گئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی بلوچستان کے ساتھ زیادتی کی گئی، اب تو 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں میں نکلنے والی گیس اور تیل کے 50فیصد پر متعلقہ صوبوں کا حق تسلیم کیا گیا ہے حالانکہ مرکز ابھی اس شق پر عملدرآمد نہیں کررہا ہے۔ وقت ضائع کیے بغیر نہ فقط سارے صوبوں کے حوالے سے اس شق پر عمل کیا جائے بلکہ انصاف کا تقاضا ہے کہ جب سے بلوچستان سے گیس نکلی ہے اور جب سے یہ دیگر صوبوں کو فراہم کی گئی ہے اس کی مالیت کا اندازہ لگاکر کم سے کم اس مالیت کا 50فیصد بلوچستان کے حوالے کیا جائے۔ ویسے بھی اگر سندھ اور پنجاب کی زراعت پر فقط ان صوبوں کا حق ہے تو صوبوں میں جو زمین کے اندر سے گیس اور تیل وغیرہ جو نکلتا ہے اس پر ان صوبوں کا حق کیوں تسلیم نہیں کیا جاتا۔ آج کے پی کے لوگ روزگار حاصل کرنے کے لئے نہ فقط پنجاب، سندھ مگر ساری دنیا میں بھٹکتے پھر رہے ہیں تو اگر کے پی کے وسائل پر فقط کے پی کے لوگوں کا حق تسلیم کیا جائے تو وہ اس طرح کیوں بھٹکیں، بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ ماضی میں سندھ کے اندر کتنی سمندری بندر گاہیںتھیں، آج تو فقط کے پی ٹی اور بن قاسم ہیں مگر یہ بہت ضروری ہے کہ سمندری پورٹس مکمل طور پر سندھ کے کنٹرول میں ہوں اس وقت سندھ اور بلوچستان سے ملحق سمندر کو بھی بحر ہند کہا جاتا ہے، میری نظر سے حال ہی میں ایک کتاب گزری ہے جو پاکستان بننے سے پہلے1930ء کی دہائی میں شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب میں ایک نقشہ ہے جس میں سندھ سے ملحق سمندر کو ’’ساحل سندھ‘‘ لکھا گیا ہے۔
کچھ قوم پرست حلقوں کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 370کی طرح ایسا ہی آرٹیکل پاکستان کے آئین میں داخل کرکے نہ فقط مختلف صوبوں میں باہر کے لوگوں کی طرف سے زمین خریدنے اور یہاں کی شہریت حاصل کرنے پر پابندی عائد کی جائے مگر ساتھ ہی ایک اور شق آئین میں شامل کرکے سندھ اور بلوچستان پورٹس کو متعلقہ صوبوں کی دسترس میں دیا جائے جہاں تک باہر کے لوگوں کے سندھ میں آکر آباد ہونے کا تعلق ہے تو اس وقت اس خرابی کا سب سے زیادہ شکار سندھ اور اس کا بڑا شہر کراچی ہے، یہ خرابی اس حد تک بڑھی ہے کہ اندیشہ ہے کہ نہ فقط کراچی مگر سندھ کے اکثر علاقے باہر کے لوگوں کے حوالے ہوجائیں گے جن میں لاکھوں کی تعداد میں بنگالی، برمی، ایرانی اور افغانی شامل ہیں۔ سندھ کے عوام اس صورتحال کو شاید زیادہ دیر تک قبول نہ کریں اگر وفاقی اور سندھ حکومت نے اس سلسلے کو بند نہ کیا تو سندھ کے عوام کی طرف سے کوئی شدید ردعمل آ سکتا ہے۔
.