• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ اپنی جماعت کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کر سکیں۔ بظاہر تو ان کے والد سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے بیٹے کو فری ہینڈ دیا ہوا ہے مگر دراصل ایسا نہیں ہے اور باہر بیٹھے ہوئے بھی وہی پارٹی مکمل طور پر کنٹرول کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ جب تک بلاول اپنے والد سے مکمل طور پر سیاسی لاتعلقی نہیں کریں گے ۔اس وقت تک پارٹی کونئی پالیسی کے مطابق نہیں چلا سکیں گے۔ گزشتہ ادوار حکومت میں جب آصف زرداری بلاشرکت غیرے حکمراں تھے تو ان کی کارکردگی بہت بری رہی اور پیپلز پارٹی کو اس نہج پر پہنچا دیا۔ ابھی یہ حکومت اپنے 5سال مکمل بھی نہیں کر پائی تھی کہ اس کی سیاسی ’’اسپیس‘‘ پر پاکستان تحریک انصاف نے قبضہ کر لیا۔ باوجود اس کے کہ بلاول کافی اچھی کمپین چلا رہے ہیں مگر ابھی تک وہ یہ اسپیس واپس لینے میں کامیاب ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ ان کا لاہور جو کہ پنجاب کی سیاست کا دل ہے میں کیمپ لگانا اچھی سیاسی اپروچ ہے۔ انہیں چاہئے کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت پنجاب کو ہی دیں۔ انہیں اندرون سندھ جہاں ان کا کوئی سیاسی مدمقابل ہی نہیں ہے اور اب بھی پیپلز پارٹی وہاں سب سے مقبول جماعت ہے میں کم سے کم وقت گزارنا چاہئے۔
انہیں نون لیگ کو ضرور آڑے ہاتھوں لینا چاہئے مگر ان کا سب سے بڑا ہدف پی ٹی آئی ہونی چاہئے جو ان کا ووٹ بینک کھا گئی ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب کے سرکردہ لیڈرز جو بلاول کے اتالیق بنے ہوئے ہیں وہ انہیں پی ٹی آئی پر ہاتھ نرم رکھنے اور نون لیگ کو سخت تنقید کا نشانہ بنانے پر مائل کرتے رہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے یہ رہنما 2013کے عام انتخابات میں نون لیگ کے ہاتھوں بری طرح شکست کو بھولنے کو تیار نہیں ہیں اور ان کا مائنڈ سیٹ بھی پرانا یعنی 90کی دہائی والا ہے جب نون لیگ اور پیپلزپارٹی ہی 2بڑی جماعتیں تھیں اور ایک دوسرے کے خون کی پیاسی تھیں۔ کبھی ایک حکومت بنالیتی اور کبھی دوسری۔ 2011میں پی ٹی آئی کا ’’فنامنن‘‘ایک بڑے دھماکے سے سامنے آیا جس نے نون لیگ کی نیندیں تو حرام کیں مگر اس نے پیپلزپارٹی کا پنجاب میں بوریا بستر مکمل طور پر گول کردیا جس پر مہر تصدیق 2013کے عام انتخابات نے ثبت کر دی۔ پاپولر ووٹوں کے لحاظ سے نون لیگ پہلے نمبر پر رہی اور پی ٹی آئی دوسرے نمبر پر جبکہ پیپلزپارٹی بہت پیچھے رہ گئی۔ بعد میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی کا گراف بہت ہی برا رہا جبکہ نون لیگ اور پی ٹی آئی نے اپنی پرانی پوزیشنیں بحال رکھیں۔ تاہم ان تلخ حقائق نے بھی پیپلز پارٹی پنجاب کے گنے چنے رہنمائوں نے ذہن کو نہیں بدلا اور ان کی سوئی ابھی تک نون لیگ پر ہی اٹکی ہوئی ہے۔ اب جبکہ پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک کوئی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکی یعنی وہ وزیراعظم نواز شریف کو ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوئی، یہ 2نومبر کے اسلام آباد کو لاک ڈائون کرنے میں مکمل ناکامی کے بعد بہت بددل ہوئی ہے۔
ہر سیاستدان کا حق ہے کہ وہ ایسے خواب بھی دیکھے اور ایسے نعرے بھی بلند کرے جن کا زمینی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ان کے مستقبل قریب میں پورے ہونے کا کوئی امکان ہو۔ اسی طرح بلاول بھی حق بجانب ہیں کہ وہ یہ بلند بانگ دعویٰ کریں کہ وہ 2018کے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان کے اگلے وزیراعظم ہوں گے۔ تجزیہ نگاروں اور دوسری جماعتوں کو تو چھوڑیں پیپلز پارٹی کا شاید ہی کوئی رہنما یا کارکن ایسا ہو جو یقین سے کہہ سکے کہ بلاول 2018میں وزیراعظم بن جائیں گے یا ان کی جماعت اگلے انتخابات میں اپنی 2013والی پوزیشن کو بہتر کرے گی۔ تاہم ابھی الیکشن میں ڈیڑھ سال باقی ہے جو کہ ہر جماعت کے لئے بہت اہم ہے۔ اس عرصے میں بہت سی ڈویلپمنٹس ہوں گی جو کہ اگلے انتخابات کے نتائج کو متعین کرنے میں بڑا اہم رول ادا کریں گی۔ کوئی معجزہ ہی پیپلز پارٹی کو یہ الیکشن جتوا سکتا ہے اور پی ٹی آئی کی 2013والی پوزیشن پر واپس لا سکتا ہے۔ اب کافی حد تک الیکشن کمپین شروع ہو چکی ہے۔ نون لیگ حکومتی منصوبے تیزی سے مکمل کر رہی ہے تاکہ ان کا ثمر انہیں 2018میں ملے۔ پی ٹی آئی پاناما لیکس کے بارے میں سپریم کورٹ میں چلنے والے وزیراعظم اور ان کے بچوں کے خلاف کیس پر انحصار کر رہی ہے اور اس کا خیال ہے کہ اس نے نوازشریف اور ان کے فیملی ممبرز کو بہت نقصان پہنچا کے نون لیگ کو بڑی سخت زد پہنچائی ہے جس کا فائدہ عمران خان کو ہو گا۔ بلاول کے لئے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ پارٹی کی تنظیم خصوصاً پنجاب میں بہت بہتر کریں اور ایسے افراد جو کہ ’’ٹیلینٹڈ‘‘ نہ ہوں، کو سامنے لائیں۔ انہوں نے قمر زمان کائرہ کو پنجاب میں اہم عہدہ دے کر اچھا فیصلہ کیا ہے لیکن ان کے لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی ڈائریکشن کو درست کریں جس میں یہ واضح فیصلہ کریں کہ ان کا سب سے بڑا ٹارگٹ کیا ہے جس کو انہیں 2018میں حاصل کرنا ہے۔ پاکستان کی مقبول سیاسی جماعتوں میں دائیں بازو اور بائیں بازو کا فرق کافی مدھم پڑگیا ہے۔ تاہم خالصتاً مذہبی جماعتیں جیسے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) ہے، کا قصہ مختلف ہے مگر ایسی جماعتیں بھی نہ صرف آصف علی زرداری بلکہ بے نظیر بھٹو شہید کی بھی بڑی اتحادی رہی ہیں۔ اصل بات اب کارکردگی ٗ گڈ گورننس اور ڈیلیور کرنے کی ہے نہ کہ آئیڈیالوجی کی۔ پی پی پی کو 2013میں شکست اس کی حکومتی کارکردگی کی وجہ سے ہوئی تھی نا کہ اس کے نظریے کی وجہ سے۔ اسی طرح نون لیگ کو بھی جو کچھ 2018میں ملے گا وہ اس کی کارکردگی کی وجہ سے ملےگا نہ کہ آئیڈیالوجی کی وجہ سے۔ پی ٹی آئی کو بھی خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت کی کارکردگی کا حساب دینا ہو گا۔

.
تازہ ترین