• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کشمیر، سیاچن، دریائی پانی اور دہشت گردی جیسے بنیادی متنازع مسائل اس وقت پاک بھارت خوشگوار تعلقات کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہیں۔ ان کا کوئی نہ کوئی حل نکالے بغیر دونوں اطراف پائی جانیوالی کشیدگی کے مستقل خاتمے کی صورت نظر نہیںآتی۔ دعویٰ اور ردِّ دعویٰ کے سلسلے خواہ تلخ تر ہوں لیکن ان سے پیدا شدہ تنازعات کے خاتمے کی خاطر فریقین کے درمیان ڈائیلاگ کا سلسلہ بہرحال جاری رہنا چاہیے۔ بھارتی وزیر خارجہ کی بظاہر ہارٹ آف ایشیاکانفرنس میں شرکت کیلئے پاکستان آمد، وزیر اعظم سے ملاقات اور ہمارے مشیر خارجہ سر تاج عزیز کے ساتھ پریس کانفرنس کے بعد انکی طرف سے جاری کردہ مشترکہ اعلامیے سے ایک دفعہ پھر تنائو میں کمی کے اشارے مترشخ ہوئے ہیں۔ماضی میں کشمیر کا مسئلہ سلجھانے کیلئے دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کے سلسلے دسیوں دفعہ ٹوٹے اور جڑے ہیں لیکن ناصرف یہ کہ مسئلہ کشمیر وہیں کا وہیں کھڑا ہے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ کئی اور سنگین مسائل بھی حل طلب فہرست پر آشامل ہوئے ہیں۔ بھارتی قیادت کے رویے میںاس دفعتاً تبدیلی کی وجوہات عالمی قوتوں کی مداخلت ہو یا نریندر مودی کے بیرون ملک کئے جانے والے احتجاجی سواگت۔ بہار کے انتخابات میں انکی پارٹی کی شکست ہو یا اندرون اور بیرون ملک انحطاط پذیر مقبولیت کا احساس، دوطرفہ تنائو اور کشیدگی میںکمی اور حل طلب معاملات کو بات چیت کے ذریعے کنارے لگانے پر اتفاق رائے نیک شگون ہے۔اس میں شک نہیں کہ بھارت پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہتر تعلقات خطے کے امن اور سہ طرفہ خوشحالی کی ضمانت بن سکتے ہیں۔ جس کا سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو پہنچے گا جسے پاکستان کے راستے افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں تک محفوظ تجارتی راہداری میسر آئے گی۔ اس سلسلے میں کلیدی حیثیت پاک بھارت تعلقات کی نو عیت کو حاصل ہے جن کے عوام صدیوں تک مرضی یا جبر کے تحت اکھٹا رہنے کی وجہ سے تہذیب و ثقافت اور بڑی حد لسانی اشتراک کے پس منظر سے بھی جڑے ہوئے ہیں لیکن ریاستوں کی سطح پر پائے جانے والے مسائل اور تنائو کی بناء پر ذہنی دوریوں کا شکار ہیں۔ دونوں ممالک اپنی کل سالانہ آمدنی کا خطیر حصہ دفاعی اخراجات میں کھپا دیتے ہیں جبکہ دونوں کی تقریباً نصف آبادی غربت کی لکیر کے آس پاس سانس لے رہی ہے اور اگر دو طرفہ مسائل کے حل کی راہ نکالی جائے تو انہی اخراجات میں نصف کمی کر کے بھی غربت کے سائے کم کئے جا سکتے ہیں۔ اس منزل کی راہ میں مسئلہ کشمیر سب سے اہم رکاوٹ ہے جس پر 65میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ بھی ہو چکی ہے۔کشمیر پاکستان کی دکھتی رگ ہے جس کے پاکستان اور کشمیریوں کو قابل قبول حل تک پاکستان اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتا ۔ پاکستان کا اس سلسلے میں موقف بڑا سادہ اور معقول ہے کہ اقوام متحدہ کے طے کردہ اصول کے مطابق کشمیری قوم کو استصواب رائے کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ وہ بہتر بندوبست کے تحت بھارت کے ساتھ الحاق کرکے پاکستانی فیڈریشن کا حصہ بننے، پاکستان کیساتھ کنفیڈریشن بنانے یا آزاد خودمختار ریاست قائم کرنے کا فیصلہ کر سکیں۔ سیا چن کے علاقے پر تنازع کی تہہ میں فریقین کی انائیں متحرک ہیں ان پر قابو پاکر اس کا حل ممکنات میں شامل ہے ۔ دریائی پانیوں کا مسئلہ پاکستان کے حوالے سے روز بروز سنگین تر صورت حال اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ ہمارے ملک کو سیراب کرنے والے بیشتر دریائوں کے منبع و مصادر بھارت میں واقع ہیں ۔ طےشدہ معاہدات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت کے جگہ جگہ بند باندھنے سے ہمارے دریا ایڑیاں رگڑرگڑ کر عدم کے گھاٹ اُتر رہے ہیں۔ اگر صورت حال یہی رہی تو مستقبل قریب میں پورے ملک کا بنجرستان میں تبدیل ہونے کا خدشہ ہے۔ جس کے ردِ عمل میں حالات انتہائی خطرناک حدوں کو چھو سکتے ہیں۔ اس مسئلے کا واحد حل طے شدہ اصولوں کی بھارتی پیروی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ دہشت گردی کا مسئلہ دو طرفہ ہے اگر بھارت کو اس کی سرزمین پر دہشت گردی کے پسِ پشت پاکستانی ہاتھ دکھائی دیتے ہیں تو کراچی اور بلوچستان کے حالات مزید بگاڑنے اور افغانستان کے ذریعے پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ کرنے کے سلسلے میں ادھر بھی جائز شکایات کے دفتر کھلے ہیںلیکن پُر امن بقائے باہمی کی حقیقی خواہش اس مسئلے پر قابو پانے کی راہیں کھول سکتی ہے۔
بھارت کو پاکستان پر سب سے اہم اعتراض یہ ہے کہ اس کی سرحدوں کے اندر دہشت گردی کے واقعات میں پاکستان ملوث ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ا س ضمن میں معاملہ دو طرفہ ہے اور اس کا خاتمہ ہی دونوں ملکوں ، ان کی معیشتوں اور عوام کی خوشحالی کیلئے ازبس ضروری ہے۔ افغانستان اور اس کے راستے وسطی ایشیائی ریاستوں سے تجارتی تعلقات کے خواب کی تعبیر افغانستان میں امن اور استحکام سے وابستہ ہے جس کی توقع کی جانی چاہیے لیکن راقم الحروف کی ذاتی تجربے اور قریب رہ کر مشاہدے کی بنا پر پختہ رائے (خدا کرے غلط ثابت ہو) ہے کہ پُرامن افغانستان کیلئے جاری کوششوں اور ممکنہ صورتوں کے باوجود وہاں قیامِ امن کی منزل دور دور تک دکھائی نہیں دے پارہی ہے۔ دسمبر1979کو سوویت افواج کے قبضے سے لیکر تادم ہنوز روسی یا امریکی سائے تلے قائم ہونے والی ببرک کر مل سے لیکر اشرف غنی تک تمام حکومتوں کا دائرہ اثر لڑاکا گروہوں میں گھرے کابل اور چند دیگر شہروں کی فصیلوں تک ہی محدودرہا ہے ۔ روس کے بعد اب شکست خوردہ امریکہ کی واپسی کے بعدبھی وہی منظر دوبارہ بنتا دکھائی دیتا ہے جو جنیوامذاکرات کے نتیجے میں سر زمین افغانستان سےروس کی مراجعت اور امریکہ کی افغانستان سے وقتی لاتعلقی کے نتیجے میں ابھرا تھا۔ افغان مسئلے کے منحوس سائے مستقبل قریب میں بھی پاکستان کے افق سے سمٹتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ جہاں بھارت کو پاکستان کی ان مشکلات میں اضافہ کرنے کی پالیسی ترک کر کے اس کے ساتھ پر امن بقائے باہمی کی راہیں استوار کرنے پر گامزن ہونا چاہئے، وہیں پاکستان کے حکمرانوں اور فیصلہ کن قوتوں کو بھی قیام امن اور بہتر مستقبل کی خاطر دہشت گردی سے متعلق بھارتی تحفظات کے خاتمےکی طرف نیک نیتی پر مبنی فوری اقدامت کرنے چاہئیں تاکہ تعطل کے شکار مذاکرات کی مجوزہ بحالی نتیجہ خیزی کی طرف بڑھ پائے۔
تازہ ترین