• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قومی اخبارات کی نمایاں سرخی، سعودی عرب کی قیادت میں پاکستان سمیت 34ملکوں نے دہشت گردی کے خلاف اتحاد قائم کر لیا۔ یہ خبر پڑھتے ہی پروفیسر غنی جاوید کا سنایا ہوا واقعہ ذہن میں تازہ ہو گیا۔ پروفیسر سے دوستی کی تیس ’’سالگرہیں‘‘ اسی برس (2015ء میں ) پوری ہو گئی ہیں۔ ضلع چکوال کے گائوں ’’بھون‘‘ کے رہنے والے اس مرد شریف کی شہرت انگریزی پڑھانے والے استاد کی ہے۔ دارالحکومت اسلام آباد میں وہ ایک وسیع المطالعہ دانشور اور علم ستارہ شناسی میں ماہر مانے جاتے ہیں۔ خبر پڑھتے ہی پروفیسر صاحب کو فون پر کہا کہ ’’وہ بجلی والا واقعہ سنائیے‘‘ کہنے لگے ’’آپ کوعلم ہے کہ چکوال سطح سمندر سے ہزار بارہ سو فٹ کی بلندی پر ہے اور ہمارا گائوں ’’کٹھہ‘ ‘ اور ’’کلر کہار‘‘ کے پہاڑوں کے دامن میں ہے۔ شہر میں ایک صاحب تھے نام تو ان کا یاد نہیں مگر سب لوگ اسے’’لم ڈھینگ‘‘ کہا کرتے تھے۔ اس لئے کہ موصوف کا قد حد سے نکلا ہوا تھا‘ پچاس ہزار کے جلسے میں کھڑے ’’لم ڈھینگ‘‘ کو آسانی سے پہچانا جا سکتا تھا۔ اس کی قامت کسی طرح ساڑھے چھ فٹ سے کم نہیں رہی ہوگی۔ ایک دن بری طرح گھبراہٹ میں‘ اڑی رنگت کے ساتھ وارد ہوئے۔ پوچھا بہت پریشان لگتے ہو‘ کیا ہوا؟ بولے‘ پروفیسر صاحب! بس مرتے مرتے بچا ہوں‘ ابھی تھوڑی دیر پہلے مجھ پر بجلی گری۔ پوچھا ! تم کہا ں تھے؟ بولا اونٹ پر‘ اور اونٹ کہاں تھا؟ جواب آیا ‘ پہاڑی پر۔ تو میں نے کہا اللہ کے بندے‘ اول تو چکوال ہی سطح سمندر سے کافی اونچا ہے اور تم علاقے بھرمیں سب سے لمبے ہو‘ پھر اونٹ پر بیٹھ کر پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے‘ اب کہتے ہو بجلی گری ہے؟ یہ بیچاری بجلی گری ہے ‘یا تم خود اس کی ’’کوکھ‘‘ میں جا گھسے ہو؟
لوہا‘ پتھر‘ دھاتیں‘ ریت‘ زمین کے اندر بہت نیچے خوفناک آگ میں پگھل کر کھولتی رہتی ہیں۔ لاکھوں ‘ کروڑوں برس سے یہ ہوتا رہتا ہے۔ پھر ایک دن کسی لمحے سب سے کمزور تہہ کو توڑ کر یہ لاوا بہہ نکلتا ہے۔ ساری فضا سیاہ دھویں سے ڈھک جاتی ہے‘ دہانے سے آگ کے بلند شعلے نکلتے ہیں‘ پگھلتی دھاتوں کے اس لاوے سے اردگرد ساری زمین بھر جاتی ہے‘ زمین کے اندر سے خوفناک گڑگڑاہٹ سنائی دیتی ہے‘ بس اسی کو ہم آتش فشاں کہتے ہیں۔ زیر زمین بھڑکتے الائو‘ گڑگڑاہٹ‘ بلند شعلے‘ بہتا لاوا‘ اس آتش فشانی کو ریت کے بورے بجھا سکتے ہیں‘ نہ آگ بجھانے والے پانی کے انجن ٹھنڈا کر سکتے ہیں بلکہ یہ انجن بے چارے قریب بھی نہیں پھٹک سکتے۔ آتش فشاں بھڑک اٹھیں تو خود اپنی مدت پوری کر کے خاموش ہو تے یا ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں‘ باہر سے ان کاکوئی علاج ممکن نہیں۔ افغانستان ہمارا ہمسایہ ہے‘ یہاں پر تشدد اور جنگ و جدل گزشتہ چالیس برس سے جاری ہے‘ 70ء کی دہائی میں اندرون ملک شروع ہونے والی اقتدار کی کش مکش‘ روس کی مداخلت کے بعد دنیا بھر میں نہ ختم ہونے والی جنگ کی وجہ بن گئی۔ پاکستان اس کا اولین ہمسایہ ہے‘ اس لئے اس کا متاثر ہونا لازمی تھا۔ بدامنی میں گھبرائی عورتیں‘ بچے ‘بیمار‘ بوڑھے امن او رپناہ کی تلاش میں پاکستان آنے لگے اور ان کے بہانے نوجوان جنگجوبھی سستانے اور جنگ کیلئے وسائل تلا ش کرنے کیلئے آنا جانا شروع ہو گئے۔ پچاس لاکھ سے زیادہ پناہ گزین یہاں آئے جن کی اکثریت اب بھی یہیں مقیم ہے۔ اس لئے کہ افغانستان میں اب تک اتنا امن آیا ہی نہیں کہ یہ لوگ واپس جا کر آباد ہو سکیں۔ یہ صرف مہاجرین ہی نہیں تھے‘ ان کے طور اطوار‘ خیالات و افکار بھی ان کے ساتھ تھے۔ جن کی وجہ سے یہ جنگ چپکے سے پاکستان میں داخل ہو گئی۔ روس کو افغانستان پر فوجی قبضہ مہنگا پڑ گیا‘ اس کی اقتصادی حالت تباہ ہو گئی اور فوجیں شکست کھا گئیں۔ مشرق و مغرب میں اس کی مقبوضہ ریاستیں ایک ایک کر کے قبضے سے نکل گئیں جن پر صدیوں کی ریاضت اور فوج کشی سے قبضہ کیا گیا تھا۔ روس کی افواج نے نجیب اللہ کی قیادت میں حکومت بنا رکھی تھی۔ جب روس افغانستان سے روانہ ہوا تو ہمارا مطالبہ تھا کہ اس کی قائم کردہ نجیب اللہ کی حکومت اس کے ساتھ جائے تاکہ روس کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کے تعاون سے قومی حکومت قائم ہو جو قانون کی حکمرانی اور امن و امان بحا ل کرے۔ نجیب اللہ کی ہوس اقتدار خانہ جنگی کا باعث بنی اور نجیب اللہ خوفناک انجام سے دوچار ہوا۔ آخر میں طالبان نے افغانستان میں اپنا اقتدار قائم کر کے ملک میں قدرے امن قائم کیا اور پاکستان نے بھی ان کی حکومت کو تسلیم کر لیا۔ اب امریکہ کی باری تھی۔ اس نے روس کے انجام سے سیکھنے کی بجائے خود اس تجربے کو دہرانے کا فیصلہ کیا اور ’’اسامہ بن لادن‘‘ کو بہانہ بنا کر لشکر کشی کر دی۔ برے انجام سے دوچار ہونے کے بعد امریکہ بھی واپسی کی راہ پر ہے مگر امریکہ بہادر کے ’’نجیب اللہ‘‘ ابھی تک ’’اشرف غنی‘‘ اور ’’عبداللہ عبداللہ‘‘ کے نام سے اقتدار میں ہیں۔ کیا ہم یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ افغانستان میں دراصل حکمرانی کا حق کس کو حاصل ہے؟ جارحیت کرنے والا امریکہ بھی‘ روس کی طرح بھاگ نکلا مگر اس کی قائم کردہ ’’کٹھ پتلی‘‘ حکومت ابھی موجود ہے جس کے خلاف اندرون ملک سخت مزاحمت جاری ہے۔ کیا پاکستان کی حکومت اشرف غنی کی خواہش پر طالبان کے خلاف ویسا آپریشن کر سکتی ہے جیسا پاکستان میں کیا جا رہا ہے یا افغانستان کی حکومت اپنے طالبان پر اس طرح قابو پا سکتی ہے جو پاکستان نے پایاہے؟ افغانستان کے بارے میں ہمارا تذبذب یہی ہے کہ ’’جو حکمران ہیں وہ اصل نہیں‘ جو اصل ہیں وہ حکمران نہیں۔‘‘ بین الاقوامی ادارے حکومت کو تسلیم کرتے ہیں مگر افغان عوام کی طاقت اور مرضی مزاحمت کاروں کے ساتھ ہے۔ پاکستان کے حصے میں Davel and Deep Sea‘‘۔
روس اور امریکہ کی پسپائی کے جو اثرات افغانستان میں ہوئے بالکل وہی نتائج مشرق وسطیٰ میں نکل رہے ہیں مگر مشرق وسطیٰ میں ان کی شدت اور وسعت کہیں زیادہ ہے۔ افغانستان کے اثرات پاکستان‘ ایران اور سینٹرل ایشیا تک زیادہ تھے لیکن عراق اور لیبیا اور شام پر جارحیت نے مشرق وسطیٰ سے نکل کر براعظم افریقہ‘ یور پ اور اب امریکہ کی راہ پکڑی ہے۔ اب اس شدت کی لہریں پوری دنیا میں محسوس ہونے لگی ہیں۔ امریکہ نے طاقت اور لالچ کے دبائو سے دنیا بھر کی حکومتوں اور حکمرانوں کو اپنے گرد جمع کر کے اتحاد بنایا ہے۔ افغانستان‘ عراق کو تباہ کیا‘ لیبیا کو کچل ڈالا‘ امریکہ میں کمزوری ظاہر ہوئی تو اتحاد بھی بکھر گیا لیکن دنیا بھر میں ’’دہشت گرد‘ شدت پسند‘ مزاحمت کار ‘‘ سب ایک دوسرے کے قریب آنے لگے ہیں اور دنیا ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ غیرمحفوظ اور خطرناک بنتی جا رہی ہے۔
جو مسئلہ افغانستان میں پاکستان کیلئے تذبذب کی وجہ بن رہا ہے کہ کس حکومت کا ساتھ دے جو آج ہے یا جو امریکی مداخلت سے پہلے تھی؟ کٹھ پتلی حکومتوں کا یا عوام میں مقبولیت کا؟ عوا م کا رجحان دیکھے یا قابض حکمرانوں کا ساتھ دے؟ آج یا مستقبل؟ یہ سوال مشرق وسطیٰ میں زیادہ جلی حروف میں لکھا ہے۔ کیا پاکستان مشرق وسطیٰ میں ان حکومتوں کو قائم رکھنے میں مدد دے جو امریکی جارحیت کے نتیجے میں قائم ہو گئی ہیں اور اب عوامی رائے ان کے خلاف ہے اور تشدد کی لہر بھی۔
عراق سے کٹھ پتلیوں کو بچائے‘ لیبیا میں کیا کرے‘ دوسرے ملکوں میں حکومتوں کو بچائے‘ شام میں حکومت قائم کرے‘ داعش کے خلاف لڑے مگر ایران کو بھی روکے‘ مصر میں عوام کی منتخب مقبول عام حکومت کو ختم کرنے والے جرنیلوں کا ساتھ دے تاکہ پورے خطے میں جمہوریت کی بیخ کنی ہو۔ کیا اسرائیل کے تشدد اور غارت گری کو بھی یہ اتحاد کچلے گا جس کی وجہ سے امن عالم خطرے میں پڑ گیا ہے۔ مصر‘ عراق‘ لیبیا‘ شام‘ یمن سب کے مسئلے وہاں پر جاری تحریکیں اور تشدد‘ سب کی نوعیت اور سمت الگ الگ ہے۔ وہاں ہمارے عرب دوست ملک اور دوسرے قریبی دوست ترکی کے مفادات کہیں مشترک ہیں‘ کہیں مختلف۔ ہمارے تیسرے دوست اور ہمسایہ ایران کے ارادے اور مفادات سب سے الگ ہیں۔ 34ملکوں کا اتحاد ہر ملک میں برادر ملک کے مفاد کے مطابق کام کرے گا یا انصاف کے ساتھ‘ قانون کے مطابق؟ وہاں پر اسرائیل اور امریکی مفادات کیلئے حکومتوں کی حفاظت کرے گا یا عوام کی رائے کے مطابق حکومتیں بنائے گا؟ شام میں بشار الاسد کی حمایت کرنی ہے یا داعش کی پیٹھ ٹھونکنی ہے؟ 34 کے گروپ سے پاکستان کو نکال لیں تو سارے مل کر شام کے صدر کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتے‘ نہ داعش کو روک سکتے ہیں۔ پھر خطے میں امریکہ کا ساتھ دینا ہے یا روس کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ ایک طرف داعش سے لڑیں گے جو بشار الاسد کے خلاف ہے‘ پھر اس سے لڑیں گے جو ہمارے برادر ملک کو نا پسند ہے‘ پھر روس سے لڑیں کہ وہ بشار الاسد کا حامی ہے‘ ترکی کا کیا کریں ‘ حزب اللہ سے کیا کہیں؟ حماس کو کدھر کریں؟ اخوان المسلمون کو کیا جواب دیں؟ ایران کے ارادے‘ شیعہ کے حقوق‘ یمن کا مسئلہ؟سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں اس وسیع خطے میں عوام کی رائے کا احترام کرنا ہے یا برسوں سے غاصب حکمرانوں کی مدد کرنا ہے؟ جو پورے خطے کو ہلاکت میں ڈالنے کی وجہ بنے ہوئے ہیں؟ جو اپنے عوام کیلئے ہلاکو‘ چنگیز مگر اسرائیل او رامریکہ کے سامنے موم کی گڑیا ہیں۔
جناب عالی! ایسے اتحاد سے دور رہئے جس کی کوئی سمت ہے نہ راستہ۔ دوست ملکوں پر کوئی آفت آئے تو ان کی مدد ضرو رکریں لیکن کسی کے تخت بچانا پاکستان پر فرض نہیں ہے۔
تازہ ترین