• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتہ ایسا گزرا جس میں کئی ایک ایشوز سامنے آئے، کچھ ایسے واقعات بھی ہیں جن کو حکمراں اور ذمہ داران اہمیت ہی نہیں دیتے مگرپس منظر کے ساتھ عوام کو اِن سے آگاہ کرنا ضروری ہے —پی آئی اے کا جہاز جو چترال سے اسلام آباد آرہا تھا حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہوگیا جس میں سوارجہاز کے عملہ سمیت تمام 48مسافر جاں بحق ہوگئے۔اِن مسافروں میں معروف نعت خواں جنید جمشید بھی شامل تھے۔ اس حادثے کے بعد کئی ایک سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ جہاز کا ایک انجن خراب تھا لیکن پھر بھی پرواز کیلئے کلیئرنس دے دی گئی۔لینڈنگ سے پہلے ہی اسکا ایک پنکھا ریورس ہو جاتا تھا۔ یہ باتیں بھی ہو رہی ہیں کہ پی آئی اے میں مینجمنٹ کے مسائل ہیں۔ جہازوں کی مین ٹیننس نہیں ہوتی، ہینگر میں کھڑے ایک جہاز کے پرزے دوسرے جہاز میں لگا دیئے جاتے ہیں،اس جہاز میں بھی پرزے پورے نہیں تھے۔ اس جہاز کو 2009ء میں بھی لینڈنگ کے وقت حادثہ پیش آیا، جس سے طیارے کا نچلا حصہ اور لینڈنگ گیئر تباہ ہوگیا تھا۔ گو وزیراعظم نے اس حادثے کی تمام پہلوئوں سے تحقیقات کا حکم دیاہے۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ 1956ء سے لیکر اب تک پی آئی اے کے جہازوں کو 22بڑے حادثات پیش آئے جن میں سینکڑوں افراد جاں بحق ہوئے، ان کی تحقیقات ہوئیں اور نہ ذمہ داران کو سزائیں۔حکمرانوں کے ایسے رویے سے تو یہی لگتا ہے کہ ہم نہ تو خرابیوں کو دُور کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اِن سے سبق سیکھنا چاہتے ہیں —اس حادثے سے چندر وزپہلے کراچی کے ایک بڑے ہوٹل میں آگ لگنے سے 5خواتین اور 5ڈاکٹروں سمیت 13افراد ہلاک اور ایک سو سے زائد زخمی ہوگئے اور یہ کراچی میں آگ لگنے کا کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ آگ لگنے کی تاریخ بڑی درد ناک ہے۔ ماضی میں بلدیہ ٹائون میں دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایگ گارمنٹس فیکٹری میں آگ لگا دی گئی جس سے تین سو کے قریب جانیں ضائع ہوئیں۔ گزشتہ مہینے سانحہ گڈانی بھی پیش آیا جس کے بعد آج تک نہ تو ہلاک ہونیوالے مزدورں کی صحیح تعداد معلوم ہوسکی اور نہ ہی اس کی تحقیق صحیح سمت میں شروع کی گئی اور بنیادی سوالات کہ ہلاکتیں کیوں چھپائی جارہی ہیں، جہاز لانے والے 18بھارتی کہاں گئے ؟ توڑنے کیلئے لائے گئے جہاز میں 14لاکھ بیرل ڈیزل کی موجودگی کے پیچھے کیا رازہے؟ کونسی شخصیات ملوث ہیں اور اس ساری صورتحال میں کنفیوژن کیوںپیدا کی جارہی ہے ؟ کراچی میں آگ لگنے کے حادثات ہی کیوں ؟ کیا ٹارگٹ گلنگ اوردہشت گردی کا یہ نیا روپ ہے؟ ان سوالات کے جواب کوئی تلاش کرنے کیلئے تیار نہیں؟
لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے یونیورسٹیز ترمیمی ایکٹ2012ء کوکالعدم قرار دیتے ہوئے حکومت پنجاب نے وائس چانسلرز کی تقرریوں کا اختیار ہائر ایجوکیشن کو سونپ دیا ہے۔ ہائیکورٹ نے ان ترامیم کو غیر آئینی قرار دیا اور تمام یونیورسٹیوں کے قوانین کے تحت سرچ کمیٹیوں کی دفعات بھی غیر قانونی قرار دی ہیں، فیصلے میں حکومت پنجاب سے کہا گیا ہے کہ جن یونیورسٹیوں میں قائمقام وائس چانسلر کام کررہے ہیں وہاں 7روز کے اندر اندر سینئر ترین پروفیسرز کو قائمقام وائس چانسلر مقرر کیا جائے۔ اسلئے کہ وائس چانسلر کی مدت ملازمت میں توسیع غیر قانونی ہے۔ ہائیکورٹ کا یہ فیصلہ بلاشبہ قابل تحسین ہے کیونکہ تعلیم سے محبت کرنیوالی حکومت نے وائس چانسلر کی تقرری میں بھی ہمیشہ سیاسی مفاد کو ترجیح دی اور تواور تمام یونیورسٹیوں کیلئے ایک ہی سرچ کمیٹی بنائی گئی۔ اسی وجہ سے ان یونیورسٹیوں کا معیار تنزلی کی جانب گامزن ہے اور افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ دنیا کی ٹاپ ایک ہزار یونیورسٹیوں میں ایک بھی پاکستانی یونیورسٹی نہیں۔ صوبے کی سب سے بڑی یونیورسٹی کے معیار کی تباہی کی بھی سب سے بڑی وجہ یہی ہے۔ ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر کہاہے کہ ہر یونیورسٹی کی ا سپیشل لائزیشن کے لحاظ سے الگ الگ سرچ کمیٹی قائم کی جائے اور شفافیت کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کمیٹیوں کے ممبران کا تعین کیا جائے۔ لاہور ہائیکورٹ نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو یہ بھی حکم دیا ہے کہ ایک ماہ کے اندر ایچ ای سی آرڈیننس کی دفعہ اکیس کے تحت عالمی معیار کی یونیورسٹیوں کے قواعد وضوابط کے مطابق پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں تقرریوں کا عمل شروع کیا جائے۔ اس فیصلے پر عملدرآمد سے امید کی جاسکتی ہے کہ پنجاب میں قائم سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی بادشاہت ختم کرنے میں مدد ملے گی۔
ایک رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور کے اجلاس میں سرکاری تعلیمی اداروں میں بارہویں جماعت تک قرآن پاک حفظ، ترجمے، اور تجوید کی تعلیم لازمی قرار دینے کے بارے میں بل کو اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا ہے۔اب یہ بل قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد ممکن ہے نافذ بھی ہوجائے۔ اس بل کی منظوری پر ہو سکتا ہے کسی کو اعتراض نہ ہو بلکہ خوش آئندہ قرار دیا جائے۔ اس سے پہلے کہ یہ بل منظوری کیلئے قومی اسمبلی میں پیش ہو قائمہ کمیٹی کو عوام کے ذہنوں میںاٹھنے والے سوالات پر بھی غور کرنا چاہئے،لگتا ہے کہ اس بل کی منظوری کے وقت اسکے تمام پہلوئوں پر غور نہیں کیا گیا کیونکہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ بارہویں جماعت تک قرآن کا حفظ کرنا، ترجمے کیساتھ پڑھنا اور تجوید کی تعلیم لازمی ہے اور وہ بھی صرف سرکاری تعلیمی اداروں میں، اسکامطلب یہ ہے کہ جو لوگ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں وہ نہ تو اس ملک کے شہری ہیں اور نہ ہی مسلمان،پھر سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھنے والوں کا تناسب پرائیویٹ سے کم ہے۔ اس کامطلب ایک یہ بھی ہے کہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے پڑھنے والے جب ملازمت کیلئے انٹرویو دیں گے تو ان سے اس حوالے سے کوئی سوال نہیں کیا جاسکتا کیونکہ انہوں نے قرآن حفظ نہیں کیا ہوگا اور نہ ہی ترجمہ اُن کیلئے لازمی ہے،جہاں تک سرکاری تعلیمی اداروں کا تعلق ہے۔ اُس میں قرآن پاک کی تکریم کا خدانخواستہ وہ حال ہو جو پاکستان اسٹیڈیز اور اسلامیات کے مضامین کو لازمی قرار دینے کے بعد ہوا تھا۔ طالبعلم صرف اس کو نمبر حاصل کرنے کیلئے پڑھیں گے نا کہ سمجھنے اور عمل کرنے کیلئے۔ہم تو بس اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کر سکتے ہیں کہ اس طرح کا غیر مکمل اور کنفیوژن پیدا کرنیوالا بل پاس کرتے ہوئے انہیں عقل استعمال کرنے کی ہدایت دے۔ آپ کو بل پاس کرنا ہے تو حالات کا ادراک کرتے ہوئے کریں نہ کہ سیاسی کھیل شروع کردیں۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ ایسا قانون پاس ہو کہ میٹرک کی سند اُس وقت تک جاری نہ کی جائے جب تک ناظرہ قرآن پاک کو ترجمے کے ساتھ مکمل نہ کیاجائے، یہ صرف سرکاری تعلیمی اداروں میں نہیں بلکہ پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں میں لازمی ہو، لیکن وہ اکثریت جو ا سکولوں میں ہی نہیں جاتی اُن کو آپ کیسے قرآن کی تعلیم دیں گے، اس کیلئے بھی منصوبہ بندی کرنی چاہئے!

.
تازہ ترین