• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
LAWکا لفظی مطلب قانون کے ہیں لیکن جدید دور میں اس کی اصطلاح انگریزی زبان میںLion Avoiding Wrongیعنی "شیرکو غلط کرنے سے روکنا"آپ نے سن رکھا ہوگا کہ "شیر" جنگل کا بادشاہ ہوتاہے کیوں کہ جنگل کی ہرچیز اس کی طاقت اور زور کےبل بوتے پر اس کے قبضے میں ہوتی ہے اور وہ کلی اختیار کا مالک بھی ہوتاہے،اسی طاقت کے نشے میں کہیں توازن نہ کھو جائےیا اس کے غلط استعمال کو روکاجائے،قانون اپنا کردار ادا کرتاہے لیکن اس کی کامیابی اس کے درست استعمال کرنے والے کی نیت و کوشش پر منحصر ہوتی ہے،کیونکہ "شیر" طاقتور ہوتاہے اور اس کو غلطی سے روکنا تو درکنار اس کو غلط کرنے کا احساس دلانا جوئےشیرلانےکےمترادف ہوتاہے۔
جنگل کی زندگی سے انسانی ترویج ،تہذیب وتمدن اور پھر ترقی کے دور سمیت زندگی گزارنے کےلئےمعاشرتی نظام کی بات کریں تو اس میں سب سے قابل قبول اور عوامی نوعیت و اہمیت کا نظام "جمہوریت" کہلاتا ہے،جس کا بنیادی مقصد اختیارات کی تقسیم اور ذمہ داریوں کا حیثیت کے مطابق تعین ہے،اسی جمہوری نظام کی تین بنیادی اکائیوں میں پارلیمنٹ (سپریم ادارہ) عدلیہ اور ایگزیکٹو شامل ہیں جوآئین اور قانون کےدائرے میں رہ کرریاست اور عوامی مفاد کےفیصلوں میں مصروف عمل رہتے ہیں،تقابلی جائزہ لیاجائےتو جنگل کے دور میں "شیر" کےپاس کلی اختیارات کے ساتھ مرضی کےفیصلے اور انصاف کا بھی مکمل اختیار ہوتاتھا تاہم جمہوریت آنے کے بعد برابری اور انصاف پرمبنی معاشرتی نظام وجود میں آیا۔قارئین ،14 سو سال پہلے رسول کریم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے ساتھ انصاف اورخود احتسابی کے نظام کی ایسی داغ بیل ڈالی جس سےمعاشرے میں ہرقسم کی برائی کےخاتمےکاتصور اور شعور اجاگرہوا،دیگراقوام نےاس حقیقی ماڈل کو بطور منشور ایک کامیاب معاشرتی نظام کا بنیادی ڈھانچہ بنایاہے ،آپ ﷺ نے چوری کےایک کیس میں ملزم عورت کےساتھ انصاف پرمبنی فیصلہ سناتے ہوئے واضح ارشاد فرمایاکہ اگر نبی ﷺ کی بیٹی جناب سید فاطمہؓ بھی ایسا کام کرتیں تو انہیں بھی یہی سزاملتی۔ جناب خلیفہ دوئم عمر بن خطاب ؓکا بھری مسجد میں اپنے لباس پر اٹھنے والے سوال کا جواب کس کو یاد نہیں ہوگا جس میں ا نہوں نے اپنی خلافت کے دور کی کامیابیوں و فتوحات سمیت اپنے دلیرانہ کردار کوجواز بناکر کسی وضاحت کی بجائے ،ایک عام شہری و جوابدہ شخص کی حیثیت سے اپنے اوپر لگائےگئےمخصوص الزام کا بنفس نفیس سیدھا اور کھرا جواب دیا اورعوام اور خدا کےہاں سرخرو ہوئے۔
قارئین کثرت سےکہاجاتاہے،"Justice delayed is Justice denied"اس کامطلب ہے "انصاف میں تاخیر گویا انصاف سے انکار "لیکن شاید آپ اس مثل کےدوسرے حصےکے بارے میں کم ہی واقف ہوں گے کہ“Justice hurried ,Justice hurled”یعنی "انصاف میں جلدی گویا انصاف کو باہر اٹھاپھینکنے کے مترادف ہے"۔وطن عزیز کے70 برس کےحالات کا جائزہ لیں تو جمہوریت کا درس دے کراقتدار پرسب پہلے شب خون مارنے والے فوجی ڈکٹیٹرجنرل ایوب خان سےلےکر جنرل ضیاء اور جنرل مشرف تک سب نے نظریہ ضرورت اورقومی مفاد کےنام پر عدلیہ کا استعمال اوراسکو نقصان پہنچایا،اقتدار کی ہوس میں غاصبانہ قبضے کو جائز قرار دینے کا سوال ہو یا اقتدار کو دوام دینے کا، یا منتخب وزیراعظم کو اقتدار سے محروم کرکے موت کی نیند سلانے کا ،اعلیٰ عدلیہ تک کو محکوم بناکر جلدبازی میں مرضی کےفیصلے لئے گئے،اس سیاہ تاریخ کے روشن باب کی ایک کرن 2007 میں پھوٹی ،جب اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نےطاقت ور فوجی حکمران کےغیرآئینی احکامات پراسکےمنہ پرNoکہنے کی کمال ہمت کا بےمثال مظاہرہ کیا ،جووکلاء،سول سوسائٹی اور میڈیا کی آئین و قانون کی بالادستی کی جدوجہد کی بنیاد اورپھرمطلق العنان کے اقتدار سے ہاتھ دھونے اور جمہوریت پسندی کا استعارہ بھی بنی،اسی جدوجہد کےنتیجےمیں جمہوریت بھی بحال تو ہوئی لیکنWith due apologyآزادی اور انصاف پسندی کے تقاضوں کو برقرار رکھنے کا عہد زیادہ وقت چلانہیں اور عوام نے دیکھا کہ ماضی میں کیا کیا"فیصلے"نہیں کئےگئے، وعدوں کےباوجودانصاف کے نظام کو فعال ومضبوط نہ بنانے کے نتائج اورحالات یہ ہیں کہ ملک آج پھردوراہے پر کھڑا ہے، "طاقت ور ترین "حکمران خاندان کو عدلیہ کے سامنے جوابدہی کا سامناہے،بلاشبہ الزام کےثابت ہونے تک ہرشخص معصوم ہے لیکن مسلم ریاست کےسربراہ کی حیثیت سے حضرت عمرؓ کےاوللعزم فیصلے کےمصداق حکمرانوں کو خود پر الزامات کا مردانہ وار مقابلہ اور محض اپنی اچھائیوں اور خدمات کے ذکر کی بجائے ،مخصوص سوالات کا من وعن جواب بھی دیناہو گا۔
قارئین کرام ،پاناما پیپرز کیس میں فریقین کا موقف اور عدالت کے اندر اور باہر دئیے گئے دلائل کی تمام تفصیلات آپ کے سامنے ہے،جس کی تفصیل میں جانا اس لئے بھی ضروری نہیں کہ دوران ’سماعت‘ کئی دنوں تک سنائےگئے ریمارکس نے،20کروڑعوام کی ’سماعتوں‘ کو بھی اتنا متاثر کیا ہےکہ کبھی وہ بیچ چوراہے تو کبھی کہیں کونے کدھرے میں غیرمحسوس لیکن پریشان کن انداز میں جلد یا بدیرکسی فیصلےکے ہونے کےبارےمیں اپنی بےچینی کا اظہار کربیٹھتےہیں اور کوئی توانصاف ہونےکامشکل ترین لاجواب سوال بھی کر بیٹھتا ہے ، بہرصورت کیس کی ازسرنو سماعت شروع کرنے کے فیصلےنے صورتحال کامنظر یوں بنایاہےکہ ایک درخواست گزار کیس کی محض آٹھویں پیشی پر اپنے جوتوں سے ہی محروم ہوچکاہے جو شاید باقیوں کےلئے بھی سبق آموز ضرور ہے،بعض قانون دانوں کی عمیق رائےمیں ایک بات کسی حد تک واضح ہےکہ اب مزید کچھ مہینےنئےپراسس میں گزر جائیں گے،"شیر"کی اقتدار پر قدرے ڈھیلی پڑتی گرفت کہیں زیادہ مضبوط ہورہی ہےاور اب وہ اپنے اقتدار کے دوام کےخواب دیکھےگا ،تاریخ اور موجودہ حالات پرگہری نظر رکھنے والے ایک تجزیہ کار کےمطابق کوئی نہیں جانتا کہ فیصلہ آئے گا یا انصاف ہوگا ،ممکن ہےکچھ بھی نتیجہ نہ آئےلیکن یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئےکہ جمہوریت کے تین ستونوں کے ساتھ میڈیا کابطور چوتھےستون کےسچ بےنقاب کرنےکا کردار کلیدی اور ناقابل تردید ہوچکاہے،اسی میڈیاکےطفیل ہرسطح پر عوام کی عدالت بھی زبان اور کان کھول کر سماعت جاری رکھے ہوئےہے،معلومات واطلاعات کی سرعام بحث کا نتیجہ کیا نکلےگا یہ تو کوئی نہیں جانتا تاہم امریکی میڈیا کے آشکار کردہ تاریخی واٹر گیٹ اسکینڈل کا احوال اور محض خبر پر مستعفی ہونے والے طاقتورامریکی صدر نکسن کےتاریخی واقعہ کا مطالعہ کرنے سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، نکسن دنیا کی بڑی اور مضبوط جمہوریت کےواحد صدر تھےجو اخباری خبرپرمستعفی ہوئے، آج پھر1999کے زور آور اقتدار کی تاریخ خود کو دہراتی نظر آرہی ہےلیکن غلطیاں بھی جاری ہیں،اس وقت کےانجام کو بھی شاید ہی کوئی بھولا ہوگا؟یہ حقیقت ہےکہ اپنی ذات سے شروع ہونے والا احتساب اور انصاف دوسرے کی اٹھائی جانے والی انگلی کا رخ اس کی اپنی طرف موڑ سکتاہے، اگرکوئی سمجھنا چاہےتو فاتح خیبر شیرخدا جناب علیؓ کےقول عظیم کامفہوم واضح ہے"کفر پرمبنی معاشرہ تو قائم رہ سکتاہے لیکن انصاف کےبغیر نہیں" ایک اور جگہ فرمایاکہ حکمران کاخود کو احتساب سے مبرا سمجھنا گویا بدعنوانی کےاعتراف کےمترادف ہے۔




.
تازہ ترین