• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مفاد پرست عناصر اتنے بڑے ذہنی مریض بن چکے ہیں کہ جب بھی ملک کے اہم ترین اداروں کے چیفس کو مقرر کیا جاتا ہے تو وہ ایک بھرپور زہریلی مہم شروع کر دیتے ہیں جس میں ان کا ٹارگٹ وزیراعظم تو ہوتے ہی ہیں مگر ساتھ ساتھ وہ نئے سربراہوں کے خلاف بھی پروپیگنڈہ شروع کر دیتے ہیں۔ اس ایڈونچر سے انہیں کچھ حاصل تو ہوتا نہیں اور نہ ہی نئی تقرریوں کو واپس لیا جاتا ہے مگر وہ ماحول کو پراگندہ کرنے کی ضرور کوشش کرتے ہیں۔ ایسے افراد جن میں بہت سے سینئر ریٹائرڈ سروس مین بھی شامل ہیں جن کے پاس کرنے کو کچھ اور نہیں ہے وہ لوگوں کو صرف گمراہ کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ درحقیقت وہ چاہتے ہیں کہ ان کے پسندیدہ افراد کو اہم ترین اداروں کا سربراہ مقرر کر دیا جائے۔ ظاہر ہے ایسا ہونا ناممکن ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ 2013ء میں جب وزیراعظم نوازشریف نئے آرمی چیف کا تقرر کرنے والے تھے تو بہت سے ایسے عناصر کی دلی تمنا تھی کہ جنرل ہارون اسلم کو یہ عہدہ دے دیا جائے مگر وزیراعظم نے جنرل راحیل شریف کو آرمی چیف کی پوسٹ کیلئے بہترین سمجھا اور ان کا تقرر کر دیا۔ اب بھی جب وزیراعظم کو نیا آرمی چیف مقرر کرنا تھا توایک جنرل کے حق میں مہم چلائی گئی تاہم چیف ایگزیکٹو نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو نیا کمانڈر مقرر کر دیا۔ نہ صرف یہ کہ نئے آرمی چیف اس عہدے کیلئے تمام کوالیفکیشنزرکھتے ہیں بلکہ وہ ایک بطور پرو ڈیموکریسی جنرل بھی جانے جاتے ہیں۔ اس تقرری پر یہ مخصوص کلاس آپے سے باہر ہو گئی ہے اور اسے ہضم کرنے کو تیار نہیں تاہم یہ ایک لاحاصل مشق میں مصروف ہیں اور وہ اپنے آپ کو حسد اور دکھ کی آگ میں جلا رہے ہیں۔
یہ ٹولہ واٹس ایپ گروپوں پر تو ڈس انفارمیشن پھیلا ہی رہا ہے مگر ہمارے بعض ٹی وی چینلز بھی ہیں جو ہر روز ا نہیں پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں۔ ایک ریٹائرڈ افسرایک ٹی وی چینل پر یہ فرما رہے تھے کہ نئے آئی ایس آئی چیف بہت ہی قابل، پروفیشنل اور منجھے جنرل ہیں مگر وہ چوہدری منیر (جو کہ مریم نواز کی بیٹی کے سسر ہیں) کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ یہ کہہ کر انہوں نے دراصل لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کی تقرری کو متنازع بنانے کی کوشش کی۔ اسی پروگرام میں وزیراعظم کے ترجمان ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا کہ یہ رشتہ داری ایسے ہی ہے جیسے میں کہوں کہ میں ملکہ وکٹوریہ کا رشتہ دار ہوں کیونکہ میری پھوپھی کی بیٹی کے بیٹے کا دور سے رشتہ ملکہ سے بنتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھلا نئے آئی ایس آئی چیف کی چوہدری منیر سے رشتہ داری کا تعلق ان کی تقرری سے کیسے جوڑا جاسکتا ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جنرل نوید مختار کی کارکردگی کی بنا پر جنرل راحیل شریف نے انہیں کور کمانڈر کراچی مقرر کیا تھا۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ چند ماہ قبل جب راحیل شریف ہی آرمی چیف تھے تو ایک انگریزی اخبار میں یہ خبر چھپی تھی کہ جنرل نوید مختار کو آئی ایس آئی چیف لگانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے جس کی تردید نہیں کی گئی تھی۔ ظاہر ہے اس وقت تو کسی کے خواب میں بھی یہ بات نہیں آئی تھی کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اگلے آرمی چیف ہوں گے۔ ریکارڈ کیلئے ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ نوید مختار لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر پروموشن سے قبل آئی ایس آئی میں ہی تعینات تھے۔ ترقی کے بعد انہیں کراچی کا کور کمانڈر لگایا گیا تھا۔ واپس آئی ایس آئی میں لانے میں ان کا گزشتہ اسی ایجنسی میں تجربہ بھی مد نظر رکھا گیا ہوگا۔ آئی ایس آئی چیف کی تقرری وزیراعظم کا اختیار ہے مگر یہ نامزدگی آرمی چیف سے مشورے کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔ یہ مخصوص ٹولہ چاہتا ہے کہ اہلیت کی بنا پر تقرری حاصل کرنے والے جنرل نوید مختار کو متنازع بنائیں حالانکہ رشتہ داری کی بنا پر نہ تو کسی اہل شخص کو ترقی ملنی چاہئے اور نہ اس کی ترقی رکنی چاہئے۔ اہل شخص کو اس کی رشتہ داری کی وجہ سے متنازع بنانا کہاں کا انصاف ہے۔ مخصوص ٹولے کو بڑا دکھ ہے کہ (سابق آئی ایس آئی چیف) لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر کو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کا صدر کیوں مقرر کر دیا گیا ہے۔ وہ بڑے کرب میں ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ جو کہ گزشتہ چار سال سے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل تھے کو انسپکٹر جنرل آرمز کیوں لگا دیا گیا ہے۔ یہ عناصر چاہتے تھے کہ ان دونوں جنرلز کو ان کی مرضی کے مطابق نئی پوسٹنگ دی جائے۔ جب بھی نئے آرمی چیف آتے ہیں تو وہ فوج میں بہت سی تبدیلیاں کرتے ہیں اور نئے کور کمانڈرز بھی مقرر کرتے ہیں۔ یہ ان کا صوابدیدی اختیار ہے جس کو چیلنج کرنا سوائے الزام تراشی کے کچھ نہیں۔
نہ ہی صدر اور نہ ہی وزیراعظم کو کوئی اختیار ہے کہ وہ نئے چیف جسٹس آف پاکستان کا تقرر کریں۔ کچھ سال قبل عدالت عظمیٰ نے خود ہی اس کیلئے طریقہ کار وضع کر دیا تھا جس کی مکمل پابندی کی جارہی ہے۔ اس کے مطابق سینئر ترین جج ہی چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ عہدہ خود بخود ہی سنبھال لیتے ہیں۔ کوئی بھی حکومت چاہتی تو وہ اس فیصلے کو پارلیمنٹ کے ذریعے نیا قانون بنا کر بدل سکتی تھی مگر کسی نے ایسا نہیں کیا۔ اس فیصلے کا مقصد حکومت کو کسی جونیئر جج کو چیف جسٹس مقرر کرنے سے روکنا ہے۔ اب بھی جسٹس انور ظہیر جمالی کی ریٹائرمنٹ جو کہ 30 دسمبر کو ہوگی کے بعد سینئر ترین جج جسٹس میاں ثاقب نثار اگلے روز نئے چیف جسٹس کا حلف اٹھا لیں گے۔ ٹنل ویو رکھنے والے عناصر کو بڑی تکلیف ہے کہ میاں ثاقب نثار کیوں چیف جسٹس بن گئے حالانکہ ظاہر ہے کہ ان کی تقرری میں وزیراعظم کا سرے سے کوئی کردار ہی نہیں ہے۔ سب سے غیرذمہ دارانہ بات قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے قومی اسمبلی میں کی جب انہوں نے کہا کہ اب تو یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ’’چیف جسٹس بھی ہمارے آگئے ہیں‘‘ یعنی یہ کہ وہ حکومت کے بندے ہیں۔ اسپیکر ایاز صادق نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان کے ہیں نہ کہ کسی اور کے۔ خورشید شاہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ بات حکومت والے نہیں کہہ رہے بلکہ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ ’’لوگ ‘‘ کون ہیں۔ کوئی اور نہیں ہیں بلکہ وہ خود خورشید شاہ ہی ہیں جنہوں نے یہ پروپیگنڈہ کیا ہے۔ اپنے 18 سال کے عدالتی کیرئیر جو کہ لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں رہا جسٹس ثاقب نثار کا ایک بھی فیصلہ کوٹ نہیں کیا جاسکتا جس میں انہوں نے شریف فیملی کو کوئی ریلیف دیا ہو۔ وہ بہترین جج مانے جاتے ہیں اور اپنے فیصلے بڑے دبنگ انداز میں کرتے ہیں۔ چند ماہ قبل انہوں نے ایک بہت اہم فیصلہ دیا جسے وفاقی حکومت نے کافی ناپسند کیا اور اس کے خلاف نظرثانی کی درخواست بھی دی مگر اصل فیصلے میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی اور یہ پٹیشن خارج کردی گئی۔ اس فیصلے میں معزز جج نے لکھا کہ مالی معاملات میں وزیراعظم کابینہ کی منظوری کے بغیر فیصلے نہیں کرسکتے اور کابینہ کی منظوری کے بغیر تمام صوابدیدی اخراجات قانون کے خلاف ہیں۔ مخصوص عناصر کو ان اداروں میں تقرریوں کو اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر متنازع بنانے سے گریز کرنا چاہئے۔ انہیں کچھ حاصل تو نہیں ہوگا مگر اداروں کے بارے میں بدگمانیاں پیدا ہوسکتی ہیں جو کہ ملک کیلئے نقصان دہ ہوسکتا ہیں۔دراصل مخصوص ٹولہ چاہتا ہے کہ جھوٹے الزامات لگا کر اور پروپیگنڈہ کر کے فوج اور عدلیہ کو دبائو میں لائیں اور ان سے اپنی من مرضی کے فیصلے کرائیں مگر یہ ٹولہ جان لے ان کی خواہشیں پوری نہیں ہو سکتیں۔

.
تازہ ترین