• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
12؍ربیع الاوّل کے مبارک دن لاہور میں قومی سیرت کانفرنس منعقد ہوئی جس میں وزیراعظم نوازشریف نے حضرت محمد ﷺ کے اسوۂ حسنہ کے مطابق جدید معاشرے کی تشکیل پر نہایت پُرمغز اور عشقِ نبیؐ میں ڈوبی ہوئی تقریر کی۔ اِس کانفرنس میں شرکت کے لیے کراچی سے پروفیسر ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر بھی آئی تھیں جنہیں اُن کی تصنیف ’اسلام میں تصورِ غلامی‘ پر صدارتی ایوارڈ دیا گیا۔ ان کے اعزاز میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل افیئرز (پائنا) نے ایگزیکٹو کلب پنجاب یونیورسٹی میں ظہرانے کا اہتمام کیا۔ اس تحقیقی ادارے کا بنیادی مقصد قومی یکجہتی اور افکارِ تازہ کو فروغ دینا اور انتہا پسندی کے خلاف صحت مند رویوں کو پروان چڑھانا ہے۔ پروفیسر صاحبہ شاعر بھی ہیں، افسانہ نگار بھی اور اسلامی تاریخ کی اُستاد اور ایک محقق بھی۔ اِس لیے ادیبوں، شاعروں، دانش وروں اور اہلِ صحافت کو مدعو کیا گیا۔ ہمارے معروف قانون دان اور بلند پایہ کتابوں کے مصنف جناب ایس ایم ظفر نے اِس مجلس کی صدارت فرمائی۔ جناب شاہد علی خاں، جاوید نواز، ڈاکٹر حسین پراچہ، سجاد میر، فاروق تسنیم، فاروق چوہان، قیوم نظامی، ڈاکٹر پروفیسر امان اللہ، سلمان عابد، ڈاکٹر پروفیسر جمیلہ شوکت، بشریٰ رحمٰن، ڈاکٹر ناہید قاسمی، سلمیٰ اعوان، ڈاکٹر عمرانہ مشتاق، محسن فارانی، پروفیسر محمد یحییٰ اور کالجوں کے اساتذہ اور طلبہ نے شرکت کی۔
اِس مجلس میں پروفیسر ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر نے اسلامی تاریخ کی تدریس کے حوالے سے اپنے حیرت انگیز تجربات بیان کیے۔ وہ دو سال پہلے کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخِ اسلامی سے چیئرپرسن کی حیثیت سے ریٹائر ہوئی ہیں اور اپنا اشاعتی ادارہ چلا رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں سائنس کی طالب علم تھی، لیکن مجھے کراچی یونیورسٹی میں شعبۂ اسلامی تاریخ میں داخلہ مل گیا۔ وہاں ہمیں نہایت شفیق اور قابل اساتذہ میسر آئے جنہوں نے ہمیں یہ مضمون اِس پیرائے میں پڑھایا کہ ہمارے اندر تاریخ کے مطالعے کا ذوق پرورش پاتا رہا۔ پھر میں اِس شعبے میں تدریس کے فرائض ادا کرنے لگی۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ احساس بڑھتا گیا کہ اُردو میں اسلامی تاریخ پر کتابیں ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ میں اپنے طلبہ کو مولانا رشید احمد ندوی، علامہ شبلی نعمانی یا مولانا غلام رسول مہر کی ترجمہ شدہ کتابیں پڑھنے کے لیے کہتی، تو جواب ملتا کہ یہ کتابیں دستیاب ہی نہیں۔ میرے استاد پروفیسر علی محسن صدیقی عربی، فارسی اور انگریزی کے بہت بڑے عالم تھے۔ انہوں نے عظیم مؤرخ ابنِ قُتِیبہ کی ضخیم کتاب ’المعارف‘ کا اُردو ترجمہ کیا تھا۔ میں اُن سے پوچھتی آپ اِس کی اشاعت کا اہتمام کیوں نہیں کرتے۔ وہ جواب میں ناشرین کو بے نقط سناتے۔ پھر ایک روز انہیں یہ مژدہ سنایا کہ میں نے اپنا اشاعتی ادارہ قائم کر لیا ہے، اس پر انہوں نے ترجمہ شدہ مسودہ میرے حوالے کر دیا۔ اب طباعت کے لیے مالی وسائل درکار تھے۔ میں نے وقت ضائع کیے بغیر اپنے پروویڈنٹ فنڈ سے ایک لاکھ روپے نکلوائے جن میں سے کتاب المعارف کی اشاعت پر نوے ہزار روپے خرچ ہو گئے۔ میری کوشش سے روزنامہ جنگ میں ایک خبر شائع ہو گئی کہ 1200سال پہلے عربی زبان کی نایاب کتاب کا پہلا اُردو ترجمہ شائع ہو گیا ہے۔ اِس خبر نے اہلِ علم کو متوجہ کیا اور چند مہینوں ہی میں پہلا ایڈیشن نکل گیا۔ اب تک میرا اشاعتی ادارہ 300 سے زائد تاریخی کتابیں شائع کر چکا ہے اور ہر کتاب کے چار چار پانچ پانچ ایڈیشن نکل رہے ہیں جو اِس تاثر کو غلط ثابت کرتے ہیں کہ کتاب کے شائقین ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔
پروفیسر نگار اِس عظیم الشان کامیابی کے گُر بھی نہایت وضاحت سے بیان کر رہی تھیں۔ ہم سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ کتاب کا مصنف معروف ہونا چاہئے کہ اس کی تصنیف ہاتھوں ہاتھ نکل جاتی ہے، مگر ہمارے ادارے کے نزدیک اصل اہمیت کتاب کے مندرجات کو حاصل ہے۔ اگر وہ گراں پایہ تحقیق پر مبنی ہیں، تو ہم کتاب کی اشاعت میں ذرا تاخیر نہیں کرتے۔ مجھے ملتان سے ایک غیر معروف صاحب نے تقی امینی پر مسودہ بھیجا، میں نے پڑھا تو اسی وقت شائع کرنے کا فیصلہ کر لیا کہ ایسی بلند پایہ تحقیق پہلے کسی نے نہیں کی۔ میری توقع کے عین مطابق وہ کتاب حددرجہ مقبول ہوئی اور علمی حلقوں میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ہمارے اشاعتی ادارے کی پالیسی یہ ہے کہ معیار پر سمجھوتہ کیے بغیر کتاب کی قیمت اتنی رکھی جائے کہ درمیانہ طبقہ آسانی سے خرید سکے۔ ہمارے پیشِ نظر نفع کمانے سے زیادہ علم کی اشاعت ہے۔ کوشش ہے کہ اسلامی تاریخ پر مستند کتابیں بڑی تعداد میں دستیاب ہوں جن کے ذریعے تاریخی شعور کی آبیاری کا عمل جاری رہے۔ ہمارا ادارہ اسلامی تاریخ کے قدیم عربی ماخذ اردو میں منتقل کرنے کا صبر آزما کام سرانجام دے رہا ہے۔ اسلامی تاریخ سے آگاہی اور اِس کا تنقیدی جائزہ عصرِ حاضر کی بہت بڑی ضرورت ہے، مگر ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں صرف دو جامعات میں اسلامی تاریخ ایک باقاعدہ مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ ایک سندھ یونیورسٹی جام شورو اور دوسری کراچی یونیورسٹی۔ اِس کوتاہ نظری کے مضر نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ ہزار سال کے طویل دورانیے میں ہمارے آباؤاجداد نے انسانی تہذیب و تمدن کی تشکیل میں قابلِ قدر رول ادا کیا ہے، مگر ہماری نئی نسلیں اِس کردار سے ناواقف ہونے کے باعث احساسِ کمتری میں مبتلا ہیں۔ ہمیں مسلم سائنس دانوں، ریاضی دانوں، فلسفیوں اور حکیموں کے کارنامے اُجاگر کرنا اور حکمرانوں کی غلطیوں کا صحیح تناظر میں جائزہ لینا اور اِن غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا ہو گا جو بعض مستشرقین نے اسلام کے عالمگیر کردار کے بارے میں پھیلا رکھی ہیں اور اسلامی تاریخ کو مسخ کرنے کی سازش کی ہے۔
اہلِ فکر و نظر کی اِس مجلس میں پروفیسر نگار کی پُرعزم کوششوں کو بہت سراہا گیا اور ڈیڑھ گھنٹے تک علم، ادب اور تحقیق کے موضوعات پر تبادلۂ خیال ہوتا رہا۔ وہ اپنے بیشتر پرستاروں سے پہلی بار مل رہی تھیں۔ اور حاضرین کی گفتگو سے تازہ افکار کے غنچے چٹک رہے اور اپنایتوں کے رشتے محکم ہو رہے تھے۔ وہ سب پائنا کے بے حد شکر گزار تھے کہ اِس تقریبِ ملاقات کا اہتمام کیا۔ پروفیسر نگار نے اپنی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنے وطن کی بہت عظیم شخصیت جناب ایس ایم ظفر سے پوچھا کہ اِن دنوں آپ کیا کر رہے ہیں۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ پیشۂ وکالت سے دستبردار ہو چکا ہوں، ہمدرد یونیورسٹی کی وائس چانسلری بھی چھوڑ دی ہے اور سینیٹ سے بھی فارغ ہو گیا ہوں، البتہ اپنے اندر دیکھنے کا سفر جاری ہے۔ میں نے اُن سے درخواست کی کہ اِس اہم ترین سفر کی رُوداد ضرور قلم بند کیجئے۔ یہ سرگزشت اہلِ وطن کے لیے نہایت سودمند ہو گی۔ انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ میں آپ بیتی اور سوانحِ عمری بہت شوق سے پڑھتی ہوں اور مجھے مادام کیوری کی سوانحِ عمری نے بے حد متاثر کیا اور بڑا حوصلہ دیا۔ اِس لڑکی نے سولہ سال کی عمر میں اپنے لیے خود راستہ بنایا اور وہ ایک روز بہت بڑی سائنس دان بن کر شہرت کے اُفق پر جلوہ گر ہوئی اور دنیا پر واضح کیا کہ ایک باہمت خاتون حالات کے دھارے کا رُخ بدل سکتی ہے۔ ڈاکٹر نگار نے پورے یقین کے ساتھ کہا کہ اس الزام میں کوئی حقیقت نہیں کہ نسیم حجازی کے ناول دہشت گردی کی بنیاد بنے ہیں۔ وہ تو پاکستان کی نئی مملکت کے نوجوانوں میں تاریخی شعور اُبھارنے کا ایک عظیم تجربہ تھا۔ مجھے اُن کے ناول پڑھنے کے بعد مسلمانوں کی تاریخ میں گہری دلچسپی پیدا ہوئی تھی۔ یہ فکر انگیز تقریب اہل وطن کو پیغام دے رہی تھی ع
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سِرّ آدم ہے، ضمیر کن فکاں ہے زندگی

.
تازہ ترین