• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب پتّوں پر ٹھہرے ہوئے شبنم کے قطرے سورج نکلتے ہی گرنے لگیں تو سمجھئے جاڑے آگئے۔تمام دوسرے موسموں کے برعکس سردیاں چپ چاپ آتی ہیں اور کبھی سوچئے اپنے ساتھ کیسی کیسی سرمستیاں لاتی ہیں کہ ان پر بہار کا گماں گزرتا ہے۔ لباس دبیز ہوجاتے ہیں اسی طرح اوڑھنے بچھونے کے اسباب کا وزن بڑھنے لگتا ہے۔چادر کی جگہ لوئی نکل آتی ہے، بچّوں کے لئے شلوکے اور مرزئی،سر ڈھانپنے کے لئے کنٹوپ، گلے میں مفلر، ہاتھوں میں دستانے اور اونی جرّابیںاور بڑوں کی یہ ہدایتیں کہ دیکھو سینے اور پیٹھ کو ڈھانپ کر رکھو اور کانوں کو بھی۔
جاڑوں کی آمد کا پہلا اعلان وہ لڑکا کرتا ہے جو ایک جھولی میں بھنی ہوئی مونگ پھلیاں لاتا ہے جن کے اوپر کوئلوں سے بھری ہانڈی رکھی ہوتی ہے۔ غریبوں کا خشک میوہ یہی ہوتا ہے۔ اونچے گھرانوں میں یہی موسم چلغوزے، کاجو، پستے،اخروٹ اور بادام کا ہوتا ہے جہاں ہر طرح کے حلوے تیار ہونے لگتے ہیں، سفیدی کے الگ اور زردی کے الگ۔پھر حلوہ سوہن جوزی، اوپر سے چنے کی دال کا حلوہ جس کے اندر زعفران اور اوپر چاندی کے ورق سجے ہوتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ جاڑوں کے کھانے کا لطف ہر طرح کے گھرانوں میں ہوتا ہے جن کا بہت مالدار ہونا ضروری نہیں۔ اپنی اپنی بساط بھر سب ہی کے دسترخوان کسی نہ کسی شکل میں سج جاتے ہیں۔اُرد یا ماش کی دال کی کھچڑی، اُس پر اصلی گھی اور شلجم کا پانی والا اچار مل جائے تو دوسرے کھانے اپنی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں۔ جاڑوں میں یہ کھچڑی دھوپ میں بیٹھ کر کھائی جائے تو اس کی لذّت بڑھ جاتی ہے۔ گھی کے بارے میں یہ ہے کہ مٹّی کی ہانڈی میں گاؤں سے آیا ہو تو کیا بات ہے۔ اسی گاؤں سے ویسی ہی ہانڈی میں سرسوں کا ساگ بھی آسکتا ہے اورساتھ میں مکئی کی روٹی۔ اصلی گھی کےساتھ اگر سونے کی رنگت والا وہ ملائم گُڑ بھی آجائے جسے اندرکی کہا کرتے تھے تو سمجھئے کھانے والوں کی چاندی ہوگئی۔ گاؤں سے مٹی کی ہانڈی میں ایک او رسوغات بھی آسکتی ہے۔رساول، جسے لوگ اب بھول چکے ہوں گے۔ گنے کے رس اور چاول سے پکنے والے رساول کے ساتھ کشمش اور کترے ہوئے ناریل کا جوڑ بے مثال ہوتاہے۔
اسے پکاکر اور ہانڈی کے منہ پر کپڑا باندھ کر رات بھر شبنم میں رکھا جاتا ہے اور پھر کھاتے ہوئے خدا کی قدرت کو داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ بالکل اسی طرح کھچڑا مٹّی کے پیالوںمیں نکالا جاتا ہے اور ٹھنڈا کھایا جاتا ہے۔
مٹی کے پیالوں پر یاد آیا کہ شدید جاڑوںمیں حلوائی کی دکان پر جاکر خوب اچھالا ہوا گرم دودھ مٹی کے کُلہڑ میں پیا جاتا تھا اور آخر میں وہ کُلہڑ وہیں پھوڑ دئیے جاتے تھے۔ اُس دودھ کا سوندھا ذائقہ آج تک یاد ہے۔ اسی طرح ریل گاڑی میں گرم چائے بھی مٹی کے سکوروں میں ملا کرتی تھی۔ بعد میں سکوروں کو پھوڑنے کا فرض خاندان کے بچّے شوق سے ادا کیا کرتے تھے۔ اب تو چائے کاغذ یا پلاسٹک کے گلاسوں میں ملا کرتی ہے اور بالکل فضول ہوتی ہے۔
جاڑوں کے کھانے کے معاملے میں پاکستان والوں کا جواب نہیں۔ ان کا دن اس چائے سے شروع ہوتا ہے جسے عام طور پر دودھ پتّی کہا جاتا ہے۔ پھر کشمیری چائے، اوپر سے قلچے جنہیں اپنی سہولت کے لئے لوگ کلچے کہتے ہیں۔ پاکستان میں گہرے تیل میں تلے ہوئے کھانے کچھ زیادہ ہی مقبول ہیں۔ سردیا ں آتے ہی لوگ تلی ہوئی مچھلی پر ٹوٹ پڑتے ہیں، پکوڑے اور سموسے تو سال بھر کھائے جاتے ہیں لیکن سردیوں میں گوشت اور سجّی کا رواج بڑھ جاتا ہے۔ ان کے بعد گاجر کا حلوہ موسم سرما کی شان ہے۔ بازار میں آجائے تو لوگ کہتے ہیں کہ لو جی، جاڑے آگئے۔ گاجر کے حلوے میں اچھی زعفران اور کھویا ملا ہو اور گھی خالص ہو اور بھاپیں اٹھ رہی ہوں تو کھانے والوں کے چہروں پر کچھ زیادہ ہی رونق آجاتی ہے۔ بھاپ پر خیال ہوتا ہے کہ جاڑوں کی غذا میں کھانوں کا گرم ہونا کتنی اہمیت رکھتا ہے۔ ایبٹ آباد میں، جو پہاڑی اور سرد مقام ہے، الیاسی مسجد کے قریب تلے ہوئے آلو کے قتلے کھانے ایک خلقت وہاں جاتی ہے۔ ایبٹ آباد والے علاقے میں پشاور کے قریب کسی دریا کے کنارے کوئی دکان ہے جہاں منوں کے حساب سے تلی ہوئی مچھلی ملتی ہے اور وہیں کہیں اندرسے کی ٹکیاں بھی بنتی ہیں۔ ایک زمانے میں اندرسے کی گولیوں کا رواج تھا جو شاید چاول کے آٹے سے بنتی ہیں اور جن پر تل چپکے ہوتے ہیں۔ اب بھی بعض حلوائی بناتے ہیں۔
آخر میں جاڑو ں کی لذیذ ترین غذا، شب دیگ۔ جس میں شلجم، گوشت اور مصالے دیگ میں بھر کر، اس کا منہ بند کرکے اوپر نیچے کوئلے رکھ کر رات بھر پکایا جاتا ہے۔ اسی دوران خمیری روٹی کا آٹا تیار کیا جاتا ہے۔ صبح تڑکے تنور میں نان لگتے ہیں اور جوں ہی دیگ کھلتی ہے، گویا دروازہء خاور کھلتا ہے۔
اب رہ گئی میتھی کی کھچڑی، اس کی بات آئندہ کبھی۔

.
تازہ ترین