• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کل سندھ کے عوام اور خاص طور پر سندھ کی نوجوان نسل خاصی مشتعل ہے کہ سندھ کے ساتھ آخر یہ سلوک کیوں؟ ویسے تو ان کو کافی شکایتیں ہیں‘ ان میں کچھ شکایتیں ان تک سندھ کے بزرگوں سے پہنچی ہیں جبکہ کچھ شکایتوں اور ’’قابل اعتراض‘‘ سلوک کے تو وہ خود گواہ ہیں۔ سندھ کے عوام کو ویسے تو اپنے حکمرانوں اور دیگر حلقوں سے کئی شکایتیں ہیں مگر خاص طور پر کافی عرصے سے ’’نامعلوم حلقوں‘‘ کی طرف سے سند ھ میں پرامن سیاسی کارکنوں کو اغوا کرنے کے بعد ان کو غائب کرنے‘ جیل میں ڈالنے یا ان کی کچلی ہوئی لاشیں ہاتھ آنے کے نتیجے میں نوجوان بہت مشتعل ہیں۔ خاص طور پر کچھ عرصہ پہلے گھوٹکی ضلع کے ایک قوم پرست رہنما ذاکر بوزدار کو اغوا کیا گیا تھا مگر تین دن پہلے یعنی اس دن جب ساری دنیا میں انسانی حقوق کا دن منایا جارہا تھا اور عید میلاد النبیﷺ کے مقدس دن سے صرف ایک دن پہلے ان کی لاش ملی ہے‘ اس سے پہلے تقریباً ایک ماہ پہلے کڑیو گھنور کے علاقے سے ایک انتہائی بزرگ قوم پرست رہنما استاد راہموں جن سے چلا بھی نہیں جارہا تھا کو اغوا کرلیاگیااور ابھی تک ان کا کوئی پتہ نہیں چلا‘ ان کی بیٹی سندھو کی شادی ایک دن پہلے تھی مگر نکاح کے بعد وہ آکر بھوک ہڑتالی کیمپ میں بیٹھی‘ ان واقعات کے بعد یہ سندھی نوجوان تو بہت مشتعل ہیں‘ یہ سندھی صحافیوں سےپوچھ رہے ہیں کہ سندھ کے لوگ اور سیاسی کارکن حتیٰ کہ قومی کارکن بھی پرامن جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں ان میں سے آج تک کسی کے ہاتھ میں پستول تو کیا چاقو بھی نہیں دیکھا گیا پھر ان کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا جارہا ہے‘ سندھ کے ان نوجوانوں کو تو بلوچستان کے سیاسی کارکنوں کےاغوا کیے جانے پر بھی غصہ رہا ہے‘ جب ایک دن پہلے یہ خبر آئی کہ اغوا کئے گئے ایک بلوچ قوم پرست رہنما واحد بلوچ کو چار ماہ بعد رہا کردیا گیا تو سندھ میں خوشی کی لہر پھیل گئی مگر یہ نوجوان بار بار سوال کرتے ہیں کہ سندھ کے ساتھ یہ سلوک کیوں؟ کیا سندھ میں کوئی تحریک چل رہی ہے؟ سندھ کے عوام کو تو پاکستان سے عشق ہے۔ دیکھا جائے تو یہ کہانی اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب کئی مارشل لائوں کے بعد ایک جمہوری حکومت قائم ہوئی‘ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو تھے اور سندھ کے وزیر اعلیٰ ممتاز بھٹو تھے‘ ایسا پہلا واقعہ اس دور میں ہوا جب مہران انجینئرنگ کالج کے پروفیسر اشوک کو اچانک ’’نامعلوم حلقوں‘‘ کی طرف سے اغوا کیا گیا اور اس کا آج تک پتہ نہیں چلا‘ اس کے بعد ایک اور تکلیف دہ واقعہ ہوا جب ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی میں رہائش پذیر پاکستان کے ممتاز بلوچ رہنما سردار عطا اللہ مینگل کے بیٹے کو انہی ’’نامعلوم حلقوں‘‘ نے اغوا کرایا اور اس کا بھی ابھی تک پتہ نہیں چلا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں اغوا کے واقعات کے بارے میں ذوالفقار علی بھٹو اور ممتاز بھٹو کے فرشتوں کو بھی پتہ نہیں ہوگا‘ اس کے علاوہ ایک بڑا واقعہ اس وقت پیش آیا جب سندھ کے آزاد منش عوام دوست رہنما فاضل راہو کا قتل ہوا‘ ظاہر یہ کیا گیا کہ ان کا قتل ذاتی یا خاندانی دشمنی کی وجہ سے ہوا مگر جو لوگ فاضل راہو کو جانتے تھے ان کو پتہ تھا کہ فاضل راہو ایسے شخص نہیں تھے جن کی کسی کے ساتھ ذاتی یا خاندانی دشمنی ہو۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ وہ سندھ کے ایسے عوامی جرنیل تھے جنہوں نے خالی ہاتھوں سے ہر عوامی جنگ میں حصہ لیا‘ جنرل ضیاء کی حکومت آتے ہی فاضل راہو اور رسول بخش پلیجو کی طرف سے ایک انتہائی کامیاب کسان کانفرنس منعقد کی گئی‘ اس کے بعد سندھ کی کون سی ایسی عوامی تحریک تھی جس میں فاضل راہو نے کلیدی کردار ادا نہیں کیا۔ ’’نامعلوم حلقے‘‘ اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ سندھ میں ایم آر ڈی کی تحریک میں فاضل راہو نے کیا کردار ادا کیا‘ اس کے بعد جنرل ضیاء کے خلاف جو صحافیوں کی تحریک چلی اس میں بھی فاضل راہو اور ان کی عوامی تحریک نے ایک اہم کردار ادا کیا‘ اس حد تک کہ انہوں نے اپنے ایک بیٹے کو صحافیوں کے ساتھ گرفتاری کے لئے پیش کیا‘ جیل سے ان کو کہیں اور لے جاکر بے پناہ تشدد کیا گیا‘ اس کے نتیجے میں وہ اس حد تک زخمی ہوگئے کہ رہا ہونے کے بعد انتقال کرگئے۔ یہ عجیب بات ہے کہ سندھ کے قوم پرست کارکنوں او رطلباء کی گرفتاری میں تیزی 2010 ء سے آئی اور یہ رفتار 2012 ء تک برقرار رہی ہے۔ اس سلسلے میں جو حقائق جمع کیے گئے وہ اس طرح ہیں۔ علی محمد برفت 8 نومبر 2010ء کو جامشورو سے اغوا کیا گیا مگر بعد میں رہا کردیئے گئے‘ کاشف ملک کو بھی اسی تاریخ کو اغوا کیا گیا اور اسے بھی بعد میں رہا کیا گیا۔ غلام شبیر ملاح کو 25نومبر 2010ء کو ٹھٹھہ سے اغوا کیا گیا اور بعد میں اسے تلاش کرلیا گیا‘ ممتاز سیاسی کارکن مظفر بھٹو کو 24 فروری 2011 ء کو جامشورو سے اغوا کیا گیا۔بعد میں اسے قتل کردیا گیا‘ ریاض کاکیپوٹو کو 11 اپریل 2011 ء کو نواب شاہ سے اغوا کیا گیا اور وہ ابھی تک غائب ہیں‘ علی نواز مہر کو 11 اپریل 2011 ء کو نواب شاہ سے اغوا کیا گیا اور بعد میں اسے تلاش کرلیا گیا‘ شاہنواز بھٹو کو 11 اپریل 2011 ء کو نواب شاہ سے اغوا کیا گیا اور بعد میں اسے بھی تلاش کرلیا گیا‘ جام بھٹو کو بھی اسی تاریخ کو نواب شاہ سے اغوا کیا گیاا ور بعد میں اسے تلاش کرلیا گیا‘ اسی دوران آغا یاسر کو ملیر کراچی سے اغوا کیا گیا اور بعد میں اسے تلاش کرلیا گیا‘ شفقت بروہی کو بھی ملیرسے اغوا کیا گیا اور بعد میں اسے تلاش کرلیا گیا‘ افضل پنہور کو 26 جون 2011 ء کو ٹنڈو محمد خان سے اغوا کیا گیا اور یہ ابھی تک غائب ہیں‘ ثناء اللہ بھٹی کو بھی اسی تاریخ کو ٹنڈو محمد خان سے اغوا کیا گیا اور یہ بھی ابھی تک غائب ہیں‘ مختیار پنہور کو 28 ستمبر 2011 ء کو دادو سے اغوا کیا گیا اور یہ بھی ابھی تک غائب ہیں‘ میر مرتضیٰ چانڈیو کو 17 اکتوبر 2011 ء کو قمبر سے اغوا کیا گیا اور ابھی تک غائب ہیں‘ غلام مرتضیٰ ابڑو‘ انور علی ڈیپر اور نواز محمد ابڑو کو 27 اکتوبر 2011 ء کو اور محمد بروہی اور ندیم لاشاری کو 6 نومبر 2011 ء کو لاڑکانہ سے اغوا کیا گیا جن میں سے غلام مرتضیٰ ابڑو‘ انور علی ڈیپر اور نور محمد تلاش کرلئے گئے‘ محمد بروہی رہا ہوگئے اور ندیم لاشاری کو تلاش کرلیا گیا۔ نوٹ،یہ لسٹ جون 2012 ء تک کی ہے۔

.
تازہ ترین