• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں کئی وجوہات کی بناء پر تاشقند بہت اہمیت کا حامل شہر ما نا جاتاہے۔ جہاں سے امیر تیمور، ظہیر الدین بابر، البیرونی، فارابی اور شاعروں میںعلی شیرنوائی جیسے بڑے لوگ پیدا ہوئے، یہاں کے لوگ امیر تیمور کو اپنی شناخت کے طور پر پیش کرتے ہیں، امیر تیمور کے نام پر ایک چوک، میوزیم اور اس میں اس کا مجسمہ ایستادہ ہے، اسی طرح علی شیرنمائی کی یادگار اور اسکا میوزیم بھی موجود ہے۔ پھر 1965ء کی جنگ کے بعد روس کے دبائو پر پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی معاہدہ 10 جنوری 1966ء میں ہواجس پر پاکستان کے صدر جنرل محمد ایوب خان اور بھارت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری نے دستخط کئے، اِس معاہدے کے بعد لال بہادر شاستری کا انتقال ہوگیا۔ بھارت کے کئی لوگوں نے ان شائع شدہ دستاویزات جو ایک خاص مدت گزر جانے کے عیاں کردی جاتی ہیں کے حوالے سے لکھا ہے کہ روس کو لال بہادر شاستری کی دل کی حالت معلوم تھی مگر انہوں نے اسکو اسلئے خفیہ رکھا کہ کہیں اُن کی جنگ بندی کی کوشش ناکام نہ ہوجائے۔ اس معاہدے کے بعد پاکستان کے صدر جنرل محمد ایوب خان کے خلاف تحریک چلی اور تین سال تک مظاہرے اور مخالفت ہوتی رہی کیونکہ پاکستان میں یہ تصور تھا کہ جیتی ہوئی جنگ میز پر ہار دی گئی، اگرچہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کیلئے سودمند تھا اور اسی کشمکش میں ذوالفقار علی بھٹو ابھر کر آئے، مشرقی پاکستان علیحدہ بھی ہوا، تیسرے تاشقند میں 2 جون 2016ء کو پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کی ممبر شپ ملی، اس پر پاکستان کے صدر ممنون حسین نے دستخط کئے، میرے لئے یہ شہر اور یہ ملک اسلئے بھی اہم ہے کہ میرے آبائواجداد اسی ملک کے ایک صوبے وادی فرغانہ سے آئے تھے، اسلئے جب مجھے یہاں کے الیکشن کمیشن کے چیئرمین مرزا الغ بیگ کی طرف سے بطور ایک انٹرنیشنل الیکشن مبصر کے آنے کی دعوت ملی تو میں نے خوشدلی سے قبول کی۔ یہ الیکشن چار دسمبر 2016ء کو منعقد ہوئے، دُنیا بھر سے مبصرین کو بلایا گیا تھا تاکہ وہ جائزہ لے سکیں کہ اِس ملک میں انتخابات صاف شفاف طریقے سے ہوئے، اِس میں چار امیدوار حصہ لے رہے تھے جن میں حتم جان عبد الرحمان وچ کٹمونوف جنکا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی آف ازبکستان سے تھا، شفقت مرزی یا یوف جن کا تعلق ازبکستان ڈیموکریٹک لبرل پارٹی سے ہے، تیسرے امیدوار نریمان عمروف جو عدالت سوشل پارٹی کی نمائندگی کر رہے تھے اور چوتھے امیدوار سرور مرادوف جو نیشنل ریوئیول پارٹی کی طرف سے سے نامزد کئے گئے تھے، اس صدارتی انتخاب میں شفقت مرزی یا یوف بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ 87.3فیصد ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اور شفقت مرزی یایوف نے 88,6ووٹ لیکرکامیابی حاصل کی، ہم نے دیکھا کہ واقعی اس بڑی تعداد میں لوگوں نے انتخابات میں حصہ لیا اور الیکشن آزادانہ،منصفانہ اور شفاف تھے۔پاکستان کے وفد میں سابق ڈائریکٹر وزارت خارجہ اور دیگر حضرات شامل تھے۔ ہمارے وفد کو وہ یادگار آزادی پر لے جایا گیا، سوویت یونین اس وقت ٹوٹنا شروع ہوا جب 31 اگست 1991ء کو ازبکستان کے صدر اسلام کریموف نے اعلانِ آزادی کیا۔ یہ پہلا وسطی ایشیائی ملک تھا جس نے روس سے الگ ہونے کا اعلان اور ایک کے بعد دوسرا اعلان ہوتا رہا یہاں تک کہ سال کے آخر تک 15 ممالک نے علیحدگی کا اعلان کردیا۔ اسلام کریموف اپنی ذات میں انجمن تھے، اُن کے بارے میں یہ تاثر عام تھا کہ وہ مرد آہن تھے، انہوں نے اس ملک کی بہت خدمت کی اور آزادی کے بعد اِس ملک میں نمایاں تبدیلی لائی گئی، یادگار آزادی مجسمے میں ایک خاتون کو اپنی گود میں ایک بچہ کے ساتھ دکھایا گیا ہے کہ وہ اب بہت خوش ہے اور یہ کہ زندگی پھل پھول رہی ہے اور یہ کہ آزادی کے بعد اُن کی قوم مطمئن ہے، اُسکے دو فرلانگ پر ایک اور غمزدہ عورت کا مجسمہ ایستادہ ہے جو دوسری جنگ عظیم میں شہید ہونے والے کی یاد میں بنایا گیا ہے اور اس مجسمے کے سامنے آگ مسلسل جل رہی ہے۔ میرے دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ یہ عورت ان تمام خواتین کی نمائندگی کرتی ہے کہ جن کے بچے، شوہر یا بھائی دوسری جنگ عظیم میں سوویت یونین نے آگ کا ایندھن بنا دیئے تھے اور آگ امید کی کرن کی مظہر ہے کہ اُن کے پیارے کسی نہ کسی دن لوٹ آئیں گے۔ اِسکے علاوہ مرحوم اسلام کریموف اُن شہداء کی یاد میں ایک اور یادگار بنائی جن کو اسٹالن نے سارے ازبکستان کے امراء اور ماہرین کو مار دیا تھا تاکہ یہاں سے آزادی کی تحریک نہ اٹھ سکے۔ اِن کو کل تعداد 6921 کی تھی جس جگہ یہ یادگار بنائی گئی وہاں پہلے جنگل تھا اور اب وہاں ایک میوزیم اور بہت خوبصورت یادگار ہے اور ساتھ میں ایک نہر بہہ رہی ہے، اِسکے بعد ہم انسٹی ٹیوٹ آف اورنٹیل لینگویج پہنچے جہاں اُردو پڑھائی جاتی ہے، جس میں اُردو کے استادوں کی تعداد 15 ہے، اِن میں ڈاکٹر بیات رحمت، مہری، مخلصہ اور سراج الدین اُردو کے شعبہ کے چیئرمیں ہیں۔ اس انسٹی ٹیوٹ کی وائس چانسلر ڈاکٹر گل چہرہ بھی آئیں، انہوں نے بتایا کہ یہاں سے جو ازبک طالب علم پڑھکر گئے ہیں ان میں سے 50 سفیر بنے اور اس وقت بھی دُنیا بھر کے ممالک میں اِس ادارے سے پڑھ کر جانے والے 16 ممالک میں سفیر ہیں۔ اس ادارے میں صرف قدیم زبانوں کی تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ معاشیات، عالمی تعلقات، فلاسفی، آسٹرالوجی بھی پڑھائی جاتی ہے۔ اس ادارے کو کام کرتے ہوئے 7 سال ہوگئے اور یہاں پاکستانی گوشہ بھی ہے۔ جو پاکستان کی مدد سے بنایا گیا ہے۔ اس میں قائداعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال اور فیض احمد فیض کی تصاویر آویزاں تھیں۔ سراج الدین صاحب بہت شائستہ اُردو میں گفتگو کرتے ہیں، جبکہ پروفیسر بیات رحمت نے میری اردو اور انکی ازبک زبان کا ترجمہ کیا ہے۔ اُردو ڈیپارٹمنٹ آنے کی خواہش کیونکہ میں نے ہی کی تھی اسلئے اس دورے میں میرے علاوہ ہمارے وفد میں سے کوئی نہیں تھا۔ بہت شائستہ اور دھیمی لہجے میں گفتگو کرنے والی شخصیات موجود تھیں۔ پاکستان کی طرف سے ایک کلاس کا دیا جانا بہت کم ہے۔ اس ملک سے تعلقات مزید بڑھانا چاہئے کہ یہ وسطی ایشیا کا اہم ملک ہے۔ دُنیا کی 48 ویں بڑی فوج رکھتا ہے۔ بہت ترقی یافتہ ہے۔ اسلام کریموف کو اس ملک کے لوگ اپنا باپ اور اپنا معمارسمجھتے ہیں۔ انکے مطابق تدبر میں بھی اُن کا کوئی ثانی پیدا ہونا مشکل ہے، اگرچہ تاشقند کی آبادی کوئی 25 لاکھ ہے مگر بہت خوبصورت اور جنیوا سوئٹزرلینڈ کا ہم پلہ بنکر ابھرا ہے۔تاشقند میں بہت اہم شخصیات سے ملاقتیں ہوئیں، اسکے علاوہ سمرقند میں امام بخاری کے مزا ر پر حاضری دی، بخارا میں مسجد، مینار اور مدرسہ دیکھا، فرغانہ وادی میں فرغانہ اور ادیجان کے شہر بھی دیکھے جن پراگر بات کی جائے تو ایک کتاب کی شکل اختیار ہوجائے گی۔

.
تازہ ترین