• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو ہم سال 2015 کے اختتام پر پہنچ چکے ہیں۔یہ کہنا کسی بھی طرح غلط نہ ہو گا کہ سال 2015 کا سورج بہت کم امید کے ساتھ طلوع ہوا۔ اس سال کے شروع میں اس کے حوالے سے کوئی بڑے دعویٰ بھی سامنے نہیں آئے تھے۔ لیکن یہ ختم ہو رہا ہے داغ دار آنسوئوں اور نہ ختم ہونے والی الزام تراشیوں کے ساتھ۔لیکن بہت سے اور لوگوں کی طرح میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ سال 2015ملک و قوم کے لئے ایک بہتر سال تھا۔ اور اب وہ وقت ہے کہ ہم اس بات کا اعتراف بھی کریں۔
اس بات کا احساس مجھے اپنے ایک دوست امریکی پروفیسر نے دلوایا۔ یہ قانون اور تاریخ کا پروفیسر ہے۔ اور میں اسے پاکستان لانے کی کوشش کر رہا تھا ۔ میں نے اسے لاہور کی طرف راغب کرنے کے لئے لاہور کی بہت سے خصوصیات بتائیں ۔ کہ یہ دودھ اور شہد کا شہر ہے۔ لیکن اس پروفیسر کی دو جوان بیٹیاں ہیں جو اب ہائی ا سکول ختم کر رہی ہیں ۔ اور اس کا خیال تھا کہ یہ ان کے ساتھ نا انصافی ہو گی کہ انہیں اس موقع پر ایک دنیا سے دوسری دنیا میں گھسیٹ دیا جائے۔
لیکن اس دوران جب میں اسے پاکستان بالخصوص لاہور لانے کے لئے قائل کر رہا تھا تو اس نے مجھے کہا کہ آج سے پانچ سال قبل کس نے سوچا تھا کہ پانچ سال بعد پاکستان میں اسلامی دنیا کی سب سے مستحکم جمہوریت ہو گی۔ اور عرب دنیا کا یہ حال ہو جائے گا۔ جب میں نے اس سے اختلاف کرنے کی کوشش کی تو اس نے اپنے موقف پر سختی سے قائم رہتے ہوئے کہاکہ کہ دیکھو پاکستان کے مغرب میں افغانستان جہاں ظلم کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ اس کے ساتھ ایران جہاں مذہبی انتہا پسندی نے سب کچھ جکڑ کر رکھا ہوا ہے۔ اس کے پیچھے خلیجی ریاستیں ۔ جہاں کچھ بڑی اور کچھ چھوٹی بادشاہتیں ہیں۔ اس سے آگے چلے جائو تو عراق ( جہاں اس وقت پاگل پن عروج پر ہے ) ، اگلا شام ( جہاں پاگل پن کی انتہا دیکھی جا رہی ہے ) پھر لبنا ن ( جو پاگل پن سے آہستہ آہستہ بحال ہونے کی کوشش کر رہا ہے ) ۔ اس کے بعد مزید مغرب میں مصر جہاں آمریت ، لیبیا جہاں افراتفری اپنے عروج پر ، اور پھر تیونس، الجیریا اور مراکش۔ یہ سب سن کر میں دنگ رہ گیا۔ بطور پاکستانی ہم تو ہر وقت اپنے ملک کے بارے میں برا سننے کے ہی عادی ہیں۔ ہمیں تو یہ ہی بتا یا جا تا ہے کہ یہاں سب کچھ غلط ہو رہا ہے۔ اور یہ میرا امریکی دوست ایک دوسری بات ہی کر رہا تھا۔ مجھے یہ خیال ہوا کہ وہ رواداری میں مجھے علامتی عزت دے رہا ہے۔ جیسے ہم اکثر محفلوں میں ایک دوسرے کو پہلے آپ پہلے آپ کہہ کر دیتے ہیں۔ لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ اس کی باتوں میں ایک دانائی و سچائی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس نے انڈونیشیا اور ملائیشیا کو نظر انداز کر دیا تھا لیکن پھر بھی یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ آج پاکستان ماضی کی نسبت ایک بہت اچھی حالت و صورتحال میں موجود ہے۔ کافی سوچ بچار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس اچھی صورتحال کی بنیادی طور پر تو دو وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ ہم نے بحیثیت قوم بالا ٓخرٹیکنو کریٹ لیڈر شپ کے فلسفے کو دفن کر دیا۔ یہ منطق و دلیل دم توڑ گئی ہے کہ کچھ ماہرین کا ایک گروہ ایک کرشماتی لیڈر کی قیادت میں ہمارے تمام مسائل کو حل کر سکتا ہے۔
مجھے یہ ماننے میں بھی کوئی عار نہیں کہ سابق صدر آصف زرداری کے دور میں جتنی بری حکومت تھی ۔ اس کی کوئی مثال نہیں ۔ لیکن شاید مشرف دور کی یادیں ابھی تاذہ تھیں۔ اس لئے عوام نے اتنی بری حکومت کے باوجود کسی نئے شب خون کی خواہش و دعا کرنے کی بجائے خود سے اور اپنے رب سے یہی وعدہ کیا کہ وہ اب دوبارہ اس جماعت کو ووٹ نہیں دیں گے۔ اور پھر 2013 کے انتخابات میں لوگوں نے دیکھا کہ عوام نے انہیں ووٹ نہیں دیا۔ اسی طرح عمران خان کے کنٹینر زدہ دھرنے سے بھی ملک کی جمہوریت کو شدید خطرات تھے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس موقع پر ملک کی قسمت جمہوریت و آمریت کے درمیان جھول رہی تھی۔ کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف۔ لیکن با لا ٓخر سویلین دور کے حق میں فیصلہ ہو گیا۔ دھرنا دسمبر 2014 میں ختم ہوا لیکن مئی 2013 سے دسمبر 2013 تک کا دور سابق جسٹس کی نقصان دہ ٹکٹکی میں گزر گیا کہ کب وہ جائیں۔اس طرح 2015 وہ پہلا سال ہے جب ن لیگ کو اپنی سوچ و انداز کے مطابق بھر پور حکومت کرنے کا موقع ملا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ اس ایک سال میں ن لیگ کوئی بڑی تبدیلی نہیں لاسکی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ایک سال میں کوئی بڑی آفت بھی نہیں آئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک عام اوسط پاکستانی اب اپنی بہتری اور خوابوں کی تکمیل کسی انقلاب یا شب خون میںنہیں دیکھتا ۔ بلکہ اسے یقین ہو گیا ہے کہ ووٹ کی طاقت سے وہ منتخب قیادت کو تبدیل کر کے ہی اپنے لئے بہتری اور خوابوں کی تکمیل حاصل کر سکتا ہے۔ اور یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔ دوسری بڑی وجہ کہ آج پاکستان ایک بہتر حالت میںہے ۔بہتر حالت کی شروعات بھی دسمبر 2014 سے ہی ہوئی۔ یہ سانحہ آرمی پبلک اسکول تھا۔ اس سانحے نے ہماری قوم کو ایک سونامی کی طرح ہلا دیا۔ 16 دسمبر 2014سے قبل جو سیاسی پنڈت تحریک طالبان کے ساتھ بر ملا ہمدردی کا اظہار کرتے تھے ۔ ان کے لئے بھی سانحہ آرمی پبلک اسکول کے واقعہ کے بعد یہ کرنا ممکن نہیں رہا۔ قوم کی سوچ ہی بدل گئی۔ قوم کی سوچ کی اس تبدیلی میں ایک بڑا کردار آئی ایس پی آر کا بھی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس موقع پر فوج نے ہی عوامی جذبات کی صحیح ترجمانی کی۔ مجھے نہیں یاد کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی گانے نے عوامی جذبات و احساسات کی اس قدر صحیح اور حقیقی ترجمانی کی ہو جتنی اس گانے۔۔ ـ بڑا دشمن بنا پھرتا ہے بچوں سے ڈرتا ہے ۔۔نے کی۔اس گانے نے ہر پاکستانی کو جذباتی کیا۔ میں بھی کروڑوں پاکستانیوں کی طرح اسےسن کر جذبات پر قابو نہیں رکھ سکا۔
میری اس تحریر کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے مسائل پر توجہ چھوڑ دیں۔ مجھے معلوم ہے کہ مسائل موجود ہیں۔لیکن میرا موقف ہے کہ جب ہم اپنے ارد گرد اچھی چیزوں اور اچھی باتوں پر نظر رکھتے ہیں توا س سےمعاشرہ وقوم میں ایک مثبت رویہ و سوچ پیدا ہو تی ہے۔ ہم میں یہ یقین اور عزم پیدا ہو تا ہے کہ ہم اپنے لئے اچھا کر سکتے ہیں۔ اپنے مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔ ہم میں اپنے خوابوں کی تکمیل کرنے کی صلاحیت ہے۔
ہمارا شاعر فیض احمد فیض اندھیرے،افسوس کے ساتھ امید کی بات کرتا ہے۔ اس کی ایک مثال فیض کی خوبصورت نظم دعا ہے۔
آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
ہمیں جنہیں رسم دعایاد نہیں
ہم جنہیںسوز محبت کے سوا
کوئی بت کوئی خدا یاد نہیں
اس نظم کے دس خوبصورت اشعار ہمدردی و امید کو گھیرے ہوئے ہیں۔ یہ خالص ذہین شاعری ہے۔ لیکن مجھے سب سے زیادہ پسند اور یاد یہ لائن رہتی ہے
آئیے عرض گزاریں کہ نگار ہستی
زہر امروزمیں شیرینی فردابھر سے
آئو رب ذوالجلال سے دعا کریں کہ وہ آج کے تمام زہر کو کل کی مٹھا س سے بھر دے۔ اور میں آپ سے بھی کہتا ہوں کہ اپنے ہاتھ اٹھائیں کیونکہ ہمارے پاس شکر ادا کرنے کے لئے بہت کچھ ہے۔
تازہ ترین