• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اقتدار حاصل کرنے سے زیادہ اقتدارچھوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بلوچستان کی وزارت اعلیٰ کسی ہچکچاہٹ کے بغیر برضا و رغبت چھوڑ دی۔ یہ کام کوئی قول کا پکا بلوچ ہی کرسکتا تھا جو اس بلوچ نے کر دکھایا۔ مری معاہدے کے تحت انہوں نے پاکستان کی روایتی سازشی سیاست سے بے فکر ہوکر یکسوئی سے اپنی ڈھائی سال کی مدت پوری کرلی بلکہ کوئی دوہفتے زیادہ ہی گزار لئے۔ یوں سرداروں کے سردار چیف آف جھالادان نواب ثنااللہ زہری کو کسی آزمائش سے گزرے بغیر حکومت مل گئی۔ وہ عام انتخابات کے بعد جون 2013 ہی میں وزیراعلیٰ بن جاتے کیونکہ ان کی پارٹی مسلم لیگ ن 65رکنی صوبائی اسمبلی میں 22نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی بن گئی تھی مگر وزیراعظم نوازشریف نے دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے عددی لحاظ سے گیارہ نشستوں والی تیسری بڑی جماعت نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عبدالمالک کو وزارت سازی کا حق دے کر ایک طرف بلوچستان کے قوم پرستوں کی ہمدردیاں جیت لیں تو دوسری طرف قوم کو یہ مثبت پیغام بھی دیا کہ وسیع تر قومی مفاد میں مسلم لیگ ن عہدوں کی قربانیاں بھی دے سکتی ہے۔ 14نشستیں جیت کر دوسری پوزیشن حاصل کرنے والی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا بھی اس میں بڑا کردار تھا۔ مسلم لیگ ن بلوچستان کے صدر نواب ثنااللہ زہری کے حوصلے اور اصول پرستی کی بھی داد دینا پڑتی ہے جنہوں نے ڈاکٹر مالک کے ڈھائی سال ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر صبرو تحمل سے گزار دیئے ورنہ ایک طاقتور سردار جو عوامی مینڈیٹ کا سیاسی جواز بھی رکھتا ہو، اقتدار کے اعلیٰ ترین منصب سے دور رہے، یہ ایک انہونی سی بات ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بلوچستان میں جمہوری سیاسی روایات پروان چڑھ رہی ہیں۔
ڈاکٹر مالک کی مدت کے آخری عرصے میں نواب صاحب کچھ مضطرب دکھائی دیئے کیونکہ عام تاثر یہ تھا کہ وزیراعظم نوازشریف اور اسٹیبلشمنٹ ڈاکٹر مالک کے کام سے مطمئن ہیں اور ان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں اس لئے ہوسکتا ہے باقی مدت بھی انہی کو دے دی جائے مگر اجتماعی دانش بالآخر غالب آئی۔ ڈاکٹر مالک نے استعفیٰ دے دیا اور نواب زہری وزیراعلیٰ بن گئے۔
ڈاکٹر عبدالمالک نے اپنی مدت اقتدار میں کئی اچھے کام کئے ۔ وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے پہلے وزیراعلیٰ تھے۔ عام لوگوں کو سرداروں کے مقابلے میں ان تک آسانی سے رسائی حاصل تھی۔ وہ خندہ پیشانی کے ساتھ سب سے ملتے اور توجہ سے ان کے مسائل سنتے۔ اس شورش زدہ صوبے میں انہوں نے اپنی حکمت عملی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے بڑی حد تک امن و امان بحال کیا۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کا دور دس سال پہلے کے مقابلے میں کہیں بہتر رہا۔ پہاڑوں سے آبادیوں، شاہراہوں اور تنصیبات پر حملے کرنے والے جنگجو فراری بڑی تعداد میں ہتھیار ڈال کر واپس قومی دھارے میں آنے لگے۔ دہشت گردی، اغوا برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں تقریباً 90فیصد کمی آگئی۔ بیرون ملک ناراض بلوچ رہنمائوں خصوصاً خان قلات میرسلیمان دائود اور نواب اکبر بگٹی کے پوتے براہمدغ بگٹی سے براہ راست رابطے قائم کرکے انہیں مفاہمتی عمل پر آمادہ کیا گیا۔ تعمیر و ترقی کے کئی منصوبے شروع ہوئے۔ سب سے زیادہ توجہ تعلیم کے فروغ پر دی گئی۔ تربت، لورالائی اور سبی میں نئی یونیورسٹیاں قائم کی گئیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ ان کے دور میں کرپشن کا کوئی اسکینڈل سامنے نہیں آیا جبکہ پچھلی حکومت پر اس حوالےسے اربوں روپے کے گھپلوں کے الزامات زیرتفتیش اور اتنے ہی عدالتوں میں زیرسماعت ہیں۔ ڈاکٹر مالک اب نیشنل پارٹی کی تنظیم پر توجہ دیں گے جس کی حریف بلوچستان نیشنل پارٹی سردار اختر مینگل کی قیادت میں اپوزیشن میں رہنے کی وجہ سے قوم پرستوں میں اپنی مقبولیت بڑھا رہی ہے۔ نواب ثنااللہ زہری کی صورت میں وزارت اعلیٰ ایک بار پھر عام آدمی سے ایک سردار کو منتقل ہوگئی ہے جن کی پارٹی مرکز میں بھی برسراقتدار ہے اس لئے وہ صوبے کے مسائل حل کرنے کے معاملے میں بہتر پوزیشن میں ہوں گے۔ یہ ان کی پارٹی کی ضرورت بھی ہے۔ مسلم لیگ کے نام سے قائم کوئی بھی پارٹی بلوچستان میں کبھی اپنی سیاسی حیثیت منوا نہیں سکی۔ 2013کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کو زیادہ نشستیں اس لئے ملیں کہ مرکز میں اسے اقتدار ملنے والا تھا بالکل اسی طرح جیسے 2008میں پیپلز پارٹی کو مرکز کے اقتدار کی بدولت زیادہ نشستیں مل گئی تھیں۔ عمومی رحجان یہ ہے کہ چند کٹرحامیوں کے سوا زیادہ تر سیاسی لوگ اس پارٹی کے ٹکٹ کی جستجو کرتے ہیںجو مرکز میں برسراقتدار آسکتی ہو تاکہ انہیں بھی اقتدار میں حصہ ملے۔ ان میں سے اکثر لوگ پارٹی سے زیادہ اپنے اثرورسوخ کی وجہ سے کامیاب ہو جاتے ہیں۔ پھر جو آزاد امیدوار جیتتے ہیں وہ بھی اسی پارٹی کا رخ کرتے ہیں۔ 2013میں بھی یہی ہوا اور مسلم لیگ ن کی نشستیں سب سے زیادہ ہوگئیں۔ بلاشبہ ان میں نواب ثنااللہ زہری کی تنظیمی صلاحیتوں کا بھی بڑا عمل دخل ہے لیکن مسلم لیگ ن کے لئے عوامی تائید و حمایت بڑھانے کے لئے ضروری تھا کہ مری معاہدے پر عملدرآمد ہو اور جن لوگوں نے اسے ووٹ دیئے یا جو اس کے ٹکٹ پر جیتے وہ یہ تاثر نہ لیں کہ مرکز کی پارٹی قیادت انہیں نظر انداز کر رہی ہے۔ اس کا نتیجہ پارٹی میں بغاوت بھی ہوسکتاتھا اسلئے نواب ثنااللہ زہری کو وزیراعلیٰ بنانا صوبے میں مسلم لیگ ن کی بنیادیں مضبوط کرنے کی جانب اہم پیش رفت ہے۔ ثنااللہ زہری ایک تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ کئی بار صوبائی اسمبلی کے رکن اور وزیر رہے۔
ڈاکٹر مالک نے جو کامیابیاں حاصل کیں ان میں سینئر وزیر کے طور پر ان کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ ان کا قبائلی پس منظر بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے دادا کے بھائی نواب نوروز خان بلوچستان میں دوسری عوامی مزاحمت کے بانی تھے جس کے نتیجے میں ان کے دوبیٹوں اورکئی ساتھیوں کو پھانسی کی سزا ہوئی۔ ثنااللہ کے والد سردار دودا خان زرکزئی بڑے دبنگ قبائلی لیڈر اور محب وطن پاکستانی تھے۔ یہی خوبیاں نواب ثنااللہ میں بھی موجود ہیں۔ وہ دہشت گردوں کے ہاتھوں ایک واقعہ میں اپنا بھائی بیٹا اور بھتیجا کھو چکے ہیں اسلئے دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کے خاتمے کی اہمیت کو خوب سمجھتے ہیں۔ وہ جھالادان (زیریں علاقوں) کے چیف ہیں اور قبائلی نظام کے تحت جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، سردار عطااللہ مینگل سمیت کئی قبیلوں کے سردار ان کے ماتحت ہیں۔ خان قلات کے دور میں جب دربار سجتا تھا تو سراوان (بالائی علاقے) کے چیف خان کے دائیں اور چیف آف جھالادان بائیں جانب بیٹھتے تھے۔ زہری ان کے علاقے کا نام ہے اسلئے ان کےنام کے ساتھ زہری کا لاحقہ لگایا جاتا ہے جبکہ ان کے قبیلے کا نام زرکزئی ہے اس لئے وہ زرک زئی بھی کہلاتے ہیں۔ بطور وزیراعلیٰ ان کا سب سے بڑا امتحان ناراض بلوچ رہنمائوں سے مفاہمتی عمل آگے بڑھانا ہوگا۔ اس عمل میں وہ شروع ہی سے شریک ہیں پھر ایک بڑے قبیلے کے سردار بھی ہیں اسلئے وہ زیادہ موثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ بیک وقت قبائلی سیاسی اور انتظامی امور پر دسترس اور طویل تجربے کی بدولت توقع ہے کہ وہ بلوچستان میں بلوچ پشتون قوم پرستوں کی حمایت سے مثبت تبدیلیاں لانے میں کامیاب ہوں گے۔ اس موقع پر صوبائی اسمبلی کی نئی اسپیکر کا تذکرہ بھی بے محل نہ ہوگا۔ مس راحیلہ حمید خان درانی کا اس عوامی عہدے پر انتخاب سخت، گیر روایتی قبائلی معاشرے میں جہاں ایک طرف عورت کی عزت سب سے زیادہ کی جاتی ہے وہاں اکثر مقامات پر اسے ووٹ ڈالنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی۔ خواتین کے حقوق و اختیارات کے حوالے سے نئی سوچ کا پتہ دیتا ہے۔ مس راحیلہ صوبے کی پہلی خاتون اسپیکر ہیں۔ ان کا تعلق ایک ممتاز گھرانے سے ہے۔ اپنے عملی کیریئر کا آغاز انہوں نے جنگ کوئٹہ میں لیڈی رپورٹر کے طور پر کیا۔ صحافت کو انہوں نے جلد ہی چھوڑ کر وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ تین بار صوبائی اسمبلی کی رکن اور وزیر رہیں۔ وہ ایک فعال سیاسی اور سماجی کارکن ہیں اور ان کی خدمات کو تحسین کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔
تازہ ترین