• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے سیاسی حالات جو رخ اختیار کر رہے ہیں، ان میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہو سکتی ہے کہ آئندہ عام انتخابات 2018 سے پہلے ہو سکتے ہیں۔ یہ انتخابات اکتوبر 2017 میں کرائے جا سکتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف سمیت اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتوں نے اپنی انتخابی مہم ابھی سے شروع کر دی ہے اور ان کا ہدف یہ ہے کہ وہ آئندہ عام انتخابات تک اپنے کارکنوں کو زیادہ سے زیادہ متحرک کر سکیں اور انتخابی حلقوں میں اپنی پوزیشن مستحکم کر سکیں۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے حکومت پر سیاسی دباؤ بڑھانے کیلئے بھی حکمت عملی طے کر لی ہے اور یہ بھی ان کی انتخابی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ عام انتخابات وقت سے پہلے ہونے کا دوسرا سبب خطے کے بدلتے ہوئے حالات ہیں کیونکہ ہمارے خطے میں نہ صرف ملکوں کے درمیان نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں بلکہ خطے کے ممالک کی سیاسی قوتیں بھی ایک دوسرے سےرابطے میں ہیں اور اپنی صف بندیاں کر رہی ہیں۔
وقت سے پہلے عام انتخابات کے انعقاد کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ہو گا اور اس بات کا شاید پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی قیادت کو بھی احساس ہے۔ اس وقت انتخابات کیلئے سب سے زیادہ تیاریاں مسلم لیگ (ن) نے ہی کی ہیں۔ پنجاب میں اس کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ اگر پنجاب کے ہر ضلع میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی ہر نشست کا جائزہ لیا جائے تو اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔ قومی اسمبلی کی کل 342 نشستیں ہیں۔ ان میں سے 272 نشستوں پر براہ راست انتخاب ہوتا ہے جبکہ 70 مخصوص نشستیں ہیں۔ براہ راست انتخاب والی 272 نشستوں میں سے 148 نشستیں پنجاب میں ہیں جبکہ کل 342 نشستوں میں سے پنجاب کی 183 نشستیں بنتی ہیں۔ جو سیاسی جماعت پنجاب کو کنٹرول کرتی ہے، وہی مرکز میں حکومت بنا سکتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) ہرگز یہ نہیں چاہے گی کہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو پنجاب میں اپنا انتخابی ہوم ورک مکمل کرنے کیلئے زیادہ وقت دیا جائے۔
2013 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کی پنجاب میں بہتر پوزیشن تھی اور وہ مسلم لیگ (ن) کے بعد دوسری پوزیشن پر تھی۔ اگرچہ اس کی نشستیں مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں بہت کم تھیں لیکن ووٹوں کے تناسب سے وہ پنجاب کی موثر سیاسی جماعت بن گئی تھی۔ اس کے بعد پنجاب میں جو بھی ضمنی انتخابات ہوئے، ان میں تحریک انصاف کی کارکردگی اچھی نہیں رہی اور اس کے بارے میں عام انتخابات میں جو تاثر پیدا ہوا تھا، وہ تاثر برقرار نہیں رکھا جا سکا۔ تحریک انصاف نے 2014 اور پھر 2016 میں اسلام آباد میں دھرنے دیئے۔ گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران پورے ملک میں تحریک انصاف نے بڑے بڑے جلسے بھی منعقد کئے اور اس کی سرگرمیوں سے یہ محسوس ہوا کہ وہ ملک کی سب سے مقبول اور بڑی سیاسی جماعت ہے۔ کوئی دوسری بڑی سیاسی جماعت اس کا جلسوں اور سیاسی سرگرمیوں میں مقابلہ نہیں کر پائی لیکن ضمنی انتخابات میں اسے ووٹ نہیں ملے۔ حلقوں کی بنیاد پر بھی پنجاب میں اس کی سیاسی منصوبہ بندی اس طرح کی نہیں ہے، جس طرح کی سیاسی منصوبہ بندی پاکستان مسلم لیگ (ن) نے کی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے اس پورے عرصے میں احتجاجی سیاست پر توجہ مرکوز رکھی اور اپنے رہنماؤں اور کارکنوں کو فہرست ہی نہیں دی کہ وہ مقامی سطح پر اپنے حلقوں میں وقت دے سکیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی انتخابی سیاست کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں زیادہ تیاریاں نہیں ہیں۔
دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی پنجاب میں بہت تاخیر سے ’’ انٹری ‘‘ دی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے مابین ایک غیر اعلانیہ سمجھوتہ نظر آتا تھا، جس کے تحت مسلم لیگ (ن) نے سندھ میں مداخلت نہیں کی اور پیپلز پارٹی کیلئے کوئی سیاسی چیلنج پیدا نہیں کیا۔ اسی طرح پیپلز پارٹی نے بھی پنجاب میں اپنی سیاسی سرگرمیاں اس حد تک محدود رکھیں کہ خود پیپلز پارٹی پنجاب کے رہنماؤں اور کارکنوں کو یہ احساس ہوا تھا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو پنجاب میں دلچسپی نہیں ہے۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) سندھ سے تعلق رکھنے والے رہنما اور کارکنان اپنی قیادت کی پالیسیوں سے ناخوش ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ سندھ میں مسلم لیگ (ن) کا بطور سیاسی جماعت وجود ختم کر دیا گیا ہے لیکن وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو پیپلز پارٹی کے ساتھ اس غیر اعلانیہ مفاہمت کا کوئی زیادہ نقصان نہیں ہوا کیونکہ پنجاب ان کے کنٹرول میں رہا اور پیپلز پارٹی پنجاب میں ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے اپنی پوزیشن بحال نہ کر سکی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انہیں سندھ میں نشستیں ملیں یا نہ ملیں۔ نقصان پیپلز پارٹی کا ہی ہوا ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے 2015 ءکے آغاز میں پنجاب سےسیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا لیکن حالات کچھ اس طرح بن گئے کہ وہ پنجاب پر زیادہ توجہ نہ دے سکے۔ بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی قیادت سنبھالی اور تھوڑے ہی عرصے بعد انہوں نے پارٹی کی صوبائی اور نچلی سطح کی تنظیمیں تحلیل کر دیں اور تنظیم نو کے کام میں مصروف ہو گئے۔ اپریل 2016 میں پارٹی تنظیمیں تحلیل کی گئی تھیں اور نئی تنظیمیں 10 ماہ بعد دسمبر میں جا کر مکمل ہوئیں۔ بلاول بھٹو زرداری اب پنجاب پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں اور انہوں نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف جارحانہ اپوزیشن والا کردار بھی ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے یہ تاثر بھی کسی حد تک زائل کر دیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان ابھی تک مفاہمت ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو انتخابات میں مشکل وقت دینے کا بھی تہیہ کر لیا ہے لیکن پیپلز پارٹی کیلئے وقت بہت کم ہے۔ خود بلاول بھٹو زرداری کا کہنا یہ ہے کہ انتخابات کا انعقاد قبل از وقت ہو سکتا ہے۔ مذکورہ بالا حالات کے تناظر میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی قیادت کو اپنی حکمت عملی وضع کرنا ہو گی۔ کچھ معروضی اور زمینی حقائق ایسے ہیں، جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کا مقابلہ کرنا ہے تو وہاں انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے آپشنز پر غور کرنا ہو گا۔ اگر دونوں سیاسی جماعتوں نے انا کا مسئلہ بنایا اور غلط اندازے قائم کئے تو دونوں کو نقصان ہو سکتا ہے۔ جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حمایت وسطی پنجاب کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اسی طرح تحریک انصاف کی جنوبی پنجاب کے مقابلے میں وسطی پنجاب میں پوزیشن بہتر ہے۔پنجاب کیساتھ ساتھ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بھی ان دونوں سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کا ساتھ دینے پر غور کرنا چاہئے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ خطے کے بدلتے ہوئے حالات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے علاقائی طاقتوں اور سیاسی قوتوں کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کر لئے ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں چاہے گی کہ یہ حالات تبدیل ہوں۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ میں بھی مسلم لیگ (ن) کے تعلقات پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر ہیں۔ لہٰذا مسلم لیگ (ن) ان حالات میں ہی قبل ازوقت انتخابات کو ترجیح دے گی۔ انتخابات سے پہلے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو پنجاب میں خاص طور پر انتخابی سیاست کیلئے بہت زیادہ محنت کرنا ہو گی اور سیاسی طور پر بھی ایک دوسرے کے قریب آنا ہو گا۔




.
تازہ ترین