• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعلیٰ پنجاب محمد شبہاز شریف نے انسداد بدعنوانی کے عالمی دن کے موقع پر لندن سے صوبائی انتظامیہ کو خصوصی ہدایات جاری کرتے ہوئے کہاکہ جعلی ادویات تیار اور فروخت کرنیوالے موت کے سوداگر ہیں۔اِن عناصر کے بارے میں مستند معلومات فراہم کرنیوالے کو 10لاکھ روپے انعام دیا جائیگا۔سچی بات تو یہ ہے کہ عوام کی طرح میں بھی بہت خوش ہوں کہ انہیں صوبہ پنجاب کے عوام کی کتنی فکر لاحق ہے کہ’’ میں اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک مریضوں کوتسلی بخش علاج مہیا نہیں ہوتا ‘‘، وزیراعلیٰ نے بالکل ٹھیک فرمایا وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے، حالانکہ وہ خود لندن میں اپنے علاج کیلئے گئے پھر بھی چین سے نہیں بیٹھے ، وزیراعلیٰ کی بے چینی اس بیان سے چند روز پہلے ہونیوالی ایک ایسی تقریب میں مجھے لے گئی جس میں انہوں نے محکمہ صحت کے اہلکاروں کو سرٹیفکیٹس اور انعامات تقسیم کئے اور اعلان کیا کہ ان اہلکاروںنے جعلی ادویات کے خاتمے کی مہم میں بہترین کارکردگی دکھائی ۔ وزیراعلیٰ جعلی ادویات کے خاتمے کی مہم میں اتنے سرگرم ہیں کہ مستقل اُن کے بیانات سامنے آرہے ہیں کہ جعلی ادویات کا کاروبار کرنے والوں کو نشان عبرت بنانا ہوگا ۔ جعلی ادویات تیار کرنیوالی فیکٹریاں انسانی قتل گاہیں ہیں ۔ معصوم عوام کا وزیراعلیٰ سے ایک معصوم سا سوال ہے کہ وہ چند لمحے چین سے بیٹھ کر اس بات پہ بھی غور کریں آخر یہ جعلی ادویات کیوں بن اور فروخت ہو رہی ہیں، کیاانہوں نے کبھی اُن خفیہ رپورٹس پر بھی توجہ دی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ لاہور شہر میں 90فیصد میڈیکل اسٹور جعل سازی میں ملوث ہیں جن کے مالکان نے کرائے پر لائسنس حاصل کر رکھے ہیں۔ یہ اسٹور جعلی ادویات کے 100فیصد خریدار ہیں اس مافیا کو کسی کارروائی کا خوف نہیں۔ کیا انہوں نے کبھی اس پہلو پربھی غور کیا ہے کہ محکمہ صحت ، ہیلتھ کیئر کمیشن اور ٹاسک فورس برائے انسداد جعلی ادویات کے افسران اور اہلکاروں کی فوج ظفر موج کی موجودگی میں انسانی جانوں کی قتل گاہیں ختم نہیں ہو سکیں اور کیا کروڑوں انسانی جانوں سے کھیلنے کا مکروہ دھندہ بعض افسران اور اہلکاروں کی شمولیت کے بغیر چل سکتاہے۔ جعلی ادویات تیار کرنیوالی اِن فیکٹریوں کے حوالے سے عوام سے کہا گیا ہے کہ وہ ان کے بارے میں اطلاع کریں انہیں نہ صرف دس لاکھ روپے انعام دیا جائیگا بلکہ اِن کا نام صغیہ راز میں بھی رکھا جائیگا ۔ کیا اس پہلو پر بھی ’’ بے چینی ‘‘ میں غور کیا گیا ہے کہ عام آدمی کو کیسے معلوم ہوگا کہ یہ فیکٹریاں جعلی ادویات بنا رہی ہیں ، کیا عوام کو کوئی تربیت دی گئی ہے کہ ان کو معلوم ہوسکےکہ انکے علاقے میں جو ادویہ ساز فیکٹریاں ہیں وہ جعلی ہیں ۔ کیا عوام کو غیر ملکی لیبارٹریز کا درجہ دیا گیا ہے کہ وہ صحیح تجزیہ کر سکیں کہ یہ ادویات جعلی ہیں۔ کیونکہ آپ خود فرما رہے ہیں کہ پاکستان میں جتنی ڈرگ لیبارٹریز ہیں وہ غیر معیاری اور غیر مستند ہیں، گزشتہ سال پنجاب حکومت نے خریدی گئی ادویات کے نمونے پنجاب کی لیب سے چیک کرائے تو 99فیصد ادویات درست قرار پائیںجبکہ انہیں ادویات کے نمونے برطانیہ کی لیب بھجوائے گئے تو ان میں سے 33فیصد غیر معیار ی نکلیں ۔
ابھی دور نہیںجاتے یہ بات 2010ء کی ہے اور آپ اس واقعہ کا ذکر کئی ایک مرتبہ کر بھی چکے ہیں کہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں جعلی ادویات کے باعث 125قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا، یہ کیس سپریم کورٹ میں بھی گیا جس نے ریمارکس دیئے کہ یہ دوا ساز فیکٹری نہیں بلکہ قتل گاہیں ہیں۔ وفاقی حکومت نے جب ان ادویات کا پاکستان کی لیب سے تجزیہ کروایا تو اُس نے ان کو درست قرار دے دیا لیکن آپ نے یہ نمونے 48گھنٹوں میں برطانیہ کی لیب ایل جی ایس بھجوا کر تجزیہ کروایا تو یہ چیز سامنے آئی کہ ان ادویات میں ملیریا کے اجزاء شامل تھے ، اس ’’ بے وقوف عوام‘‘ کے ذہن میں پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ بقول آپ کے ’’اربوں روپے کی جعلی ادویات اور محکمہ صحت میں خرد برد ‘‘ہے ابھی گزشتہ مہینے آپ کی انسپکشن ٹیم نے محکمہ ہیلتھ پنجاب میں جو 3ارب 65کروڑ 62لاکھ روپے کی بدعنوانی کی رپورٹ میں محکمہ صحت کے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کی سفارش کی ہے جبکہ آڈیٹر جنرل پاکستان نے گورنر پنجاب کو اسی طرح کی رپورٹ پیش کی ہے ، کیا 2010ء کے بعد آج چھ سال بعد آپکو معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میںایسی کوئی لیبارٹری نہیں جو معیاری تجزیہ کر سکے اور آپ نے ان چھ برسوں میں اس حوالے سے انتظام کرنے کی بجائے صرف چند روز پہلے ادویہ ساز اداروں سے یہ معاہدہ کیا ہے کہ ان کی ادویات کے نمونے برطانیہ کی لیب سے چیک کروائے جائیں گے اگر یہ نمونے معیار پر پورا اترے تو پھر ادویات خریدی جائیں گی۔آپکے اِس حُسن انتظام پر عوام داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے کیونکہ ایک رپورٹ کے مطابق سرکاری اسپتالوں میں ہیپاٹائٹس کی ادویات ختم ہونے سے 15لاکھ مریضوں کی زندگیاں دائو پر لگ گئی ہیںچونکہ مریضوں کو انٹرفیرون انجکشن کا کورس کروایا جارہا تھا ،حکومت پنجاب نے ان کے سائیڈ افیکٹس اور غیر موثر ہونے کی تحقیق کے بعد80اسپتالوں میں سوالڈی برانڈ کے سالٹ sofosovir گولیاں لانے کیلئے ٹینڈر جاری کئے اور صرف17ہزار 500مریضوں کیلئے گولیاں خریدی گئیںجبکہ پندرہ لاکھ ہیپاٹائٹس کے مریض ہیں، کیا اس حوالے سے سوچا گیا۔ آخر میں ’’ بے خبر عوام ‘‘وزیراعلیٰ کو بتانا چاہتے ہیں کہ جعلی ادویات کی سب سے بڑی وجہ ادویات کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ ہے اور جوںجوں قیمتیں بڑھیں گی ، جعلی ادویات کا دھندہ عروج پکڑے گا۔ کیونکہ ایک عام اور متوسط طبقے کا کوئی فرد ان کو خریدنے کی سکت نہیںرکھتا اور جعل ساز یہ جانتے ہیں کہ یہ ادویات خصوصاً زندگی بچانے والی ادویات لوگوں کو لازمی خریدنی ہیں ، جعلی ادویات کی قیمتیں دوسری ادویات سے کم ہیں اسلئے وہ زیادہ بکتی ہیں ۔ ادویات کی قیمتیں ڈرگ پرائس کمیٹی مقرر کرتی ہے اور حکومت کا یہ موقف غلط ہے کہ فارماسیوٹیکل کمپنیاں دوائوں کی قیمتیں بڑھا رہی ہیں۔ صرف ایک مثال دیکھ لیں کہ بین الاقوامی فارماسیوٹیکل کمپنی نے پانچ پرانی رجسٹرڈ دائوں کی مقدار اور ہیت تبدیل کر کے نئی دوا کے طور پر رجسٹریشن کروائی اور نئی قیمتیں مقرر کر د یں جسکی ڈرگ پرائس کمیٹی نے منظوری دی ۔ کمپنیوں کو نئی قیمت ملنے کی صورت میں درد بخار کی گولی ڈیڑھ روپے سے بڑھ کر دس روپے اور فالج و دماغی امراض کے علاج کی گولی 14روپے سے بڑھ کر 106 روپےکی ہوگئی ہے ۔ جعلی ادویات سے نجات کا صرف ایک نسخہ ہے کہ ان کی قیمتیں کنٹرول کی جائیں ، پانچ سو کے قریب ایسی دوائیں ہیں جن میں ماہرین طب کے مطابق تمام علاج موجود ہیں وہ ’’ جینرک نیم‘‘ سے رجسٹرڈ کر لی جائیں اور فارما سیوٹیکل کمپنیوں پر پابندی لگائی جائے کہ وہ ڈاکٹروں کو بیرون ملک دوروں کے نام پر رشوت دینا بند کریں تو شاید غریب عوام کو اصل ادویات کم قیمت پر مل سکیں ورنہ موت کا یہ کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا رہیگا۔ پھر وزیراعلیٰ غیر ملکی لیبارٹریوں پرانحصار ختم کر کے صوبے کے اندر بین الاقوامی معیار کی لیبارٹریاں قائم کرنے پر توجہ دیں!




.
تازہ ترین