• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی مختصر تاریخ دردناک واقعات اور الم انگیز سانحات سے بھری ہوئی ہے۔ ہجرت کی خون ریزی اور حالیہ دہشت گردی کی غارت گری تک ایک سے ایک مصیبت او رغم کی کہانی ہے‘ درد انگیز اور جگر خراش‘مگر 16دسمبر 1971ء سقوط ڈھاکہ اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی ؎
مصائب اور تھے پر جی کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے
جی ہاں! مشرقی پاکستان میں دشمن کے ہاتھوں شکست اور علیحدگی ایسا واقعہ ہے جو ہمارے دلوں سے محو ہوگا‘ نہ تاریخ بھلا پائے گی۔ بنگالی سیاستدانوں‘ سرکاری افسروں‘ فوجی جرنیلوں اور بنگلہ بندو کی آپ بیتیاں‘ اقتدار کی غلام گردشوں کے مشاہدات‘ فوجی ہیڈکوارٹرز کے واقعات‘ کتابیں‘ دستاویزات‘ مضامین بہت کچھ ہمارے سامنے ہے جو بچ رہا وہ تاریخ اگل دے گی مگر پاک و ہند کے ساٹھ کروڑ مسلمانوں کا جگر خون ہونے کی یہ کہانی کئی صدیوں میں کروڑوں صفحے لکھے جانے کے بعد بھی نامکمل اور تشنہ رہے گی ،اگر اس کہانی کو دو لفظوں میں مختصر کیا جائے تو یہ داستان ہے ’’ہوس اقتدار‘‘ کی۔ اقدار نہ کردار صرف اقتدار اور ہوس اقتدار‘ فوجی آمروں اور نام نہاد عوامی لیڈروں کی ہوس اقتدار ‘ بدکردار جمہوری لیڈروں نے کروڑوں مخلص اور سادہ دل مسلمان ووٹرز کے دل خون کئے اور جاہ و طلب‘ غیرذمہ دار فوجی جرنیلوں نے لاکھوں بہادر جوانوں کی لازوال جرأت و جوانمردی کی توہین کا ارتکاب کیا‘ صرف چند دن کے سیاسی اقتدار کیلئے تابدار ماضی پر سیاہی پھیر کر مستقبل کو بھی داغدار بنا گئے۔ حکومت اور اقتدار ایسالالچ ہے جس نے کروڑ ہا مسلمانوں کی زندگی کو جہنم بنا دیا ہے۔ غیرمستحق لوگوں کے اقتدار اور آمریت نے عوام سے قوت برداشت چھین لی ہے‘ اب یہ بیماری متعدی مرض کی طرح عالم اسلام میں پھیل رہی ہے۔ عوامی بغاوت کے بعد ایسا جہنم دہک اٹھا ہے‘ انسانی گوشت اور ہڈیاں جس کا ایندھن ہیں‘ فی الوقت یہ جہنم شرق اوسط میں پوری شدت سے بھڑک رہا ہے جو آہستہ آہستہ ’’گلوبل ویلج‘‘ کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ پاک و ہند میں ہجرت کے خونی واقعات‘ کشمیر پر بھارتی قبضہ‘ سقوط حیدر آباد دکن‘ 1965ء کی جنگ اور 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی‘ افغانستان میںر وسی جارحیت‘ امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پاکستانیوں کی نفسیات کو بری طرح متاثر کیا ہے‘ اب وہ تحفظ کی جبلّت اور انتقام کی شدت کے زیر اثر ہیں ‘ کچھ فوری انتقام چاہتے ہیں‘ باقی محفوظ حفاظتی حصار کے خواہش مند ہیں‘ دستیاب وسائل سے زیادہ بڑی‘ مضبوط اور طاقتور فوج‘ خطرناک ایٹمی ہتھیار‘ میزائل سازی کا جدید نظام‘ روایتی ہتھیار سازی میں تیز رفتار پیش قدمت‘ قوم کی طرف سے تحفظ اور انتقام کی خواہش کے عملی مظاہر ہیں۔
1965ء کی جنگ ہمارے لئے سبق چھوڑ گئی کہ مانگے اور خریدے گئے اسلحے کے ساتھ جنگ جیت سکتے ہیں نہ زیادہ دیر تک دفاع ممکن ہو سکتا ہے‘ اس کے بعد دفاع میں خود انحصاری کا عمل شروع ہوا۔ سابق سپہ سالار ’’اسلم بیگ‘‘ کے مطابق 1965ء کی جنگ میں پاکستان کے پاس زیادہ سے زیادہ پندرہ دن تک دفاع کیلئے اسلحہ اور گولہ بارود ذخیرہ ہوتا تھا‘ آج انڈیا کے پاس دس روزہ جنگ کی صلاحیت (Stamina) ہے تو پاکستان مقابلے میں 70 دن تک جنگ کی صلاحیت (Stamina) رکھتا ہے۔ پاکستان کی غیرروایتی ہتھیاروں میں برتری ہر شبہ سے بالا ہے‘ اس جنگ میں ہم نے جو سبق حاصل کیا سو کیا مگر انڈیا نے یہ سیکھ لیا تھا کہ براہ راست جنگ میں وہ پاکستان پر برتری حاصل نہیں کر سکتا‘ چنانچہ انہوں نے جنگ کے میدان میں کھلی جنگ کی بجائے سازش اور خفیہ جنگ (Proxy War) کا راستہ اختیار کر کے صرف چھ سال کی مختصر مدت میں پاکستان کو دو ٹکڑ ے کر دیا۔ 1971ء کی جنگ کے بعد پاکستان کی دفاعی صنعت نے کافی ترقی کر لی ہے‘ اس کے بعد ہی ایٹمی ہتھیار بنائے اور میزائل سازی میں پیش رفت ہوئی‘ آج ہم میدان جنگ میں اترنے کو تیار ہیں لیکن انڈیا نے پاکستان کے خلاف جو کامیابی حال کی وہ براہ راست جنگ سے نہیں تھی۔ 1965ء میں انڈیا نے مرضی کا وقت اور جنگ کا میدان منتخب کرنے‘ بڑی فوج‘ زیادہ اور بہتر اسلحہ‘ اچانک حملے کا موقع ہونے کے باوجود وہ شکست کھائی‘ پھر اس نے طریقہ کار بدل کر خصوصاً مشرقی پاکستان میں سازش کا بیج بویا‘ خفیہ جنگ اختیار کی‘ آج پاکستان ان کی سازش کا نشانہ بن کر آدھا رہ گیا ہے۔ انڈیا کو ازبر ہے کہ پاکستان کے خلاف براہ راست جنگ میں کامیابی کا کوئی امکان نہیں‘ ان کے موجودہ اور سابق سپہ سالار‘ اعلیٰ فوجی جرنیل ‘ دفاعی ماہرین سب اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان کی افواج انڈیا کے مقابلے میں بہتر تیاری کی حالت میں ہیں۔ اس لئے انڈیا آج بھی سازش اور پراکسی وار کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس نے جو طریقہ مشرقی پاکستان میں اختیار کیا آج بھی اس پر عمل کررہا ہے‘ ہم فوجی برتری کے باوجود انڈیا کی حکمت عملی کے ہاتھوں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں اور مالی وسائل کے نقصان کا سامنا کر رہے ہیں، اگر آپ للکار کے دشمن کا مقابلہ کر سکتے ہیں تو اسے اتنا موقع نہ دیں کہ وہ گھات لگا کر آپ کو قتل کر ڈالے‘ منتقم مزاج کمینوں کے ساتھ وضع داری نہیں برتی جاتی‘ ایک سوراخ سے بار بار ڈسے جانا صبر اور مستقل مزاجی نہیں بلکہ حماقت اور کند ذہنی کی دلیل ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ہمار ے لئے بڑے سبق ہیں۔ پہلا سبق یہی ہے کہ ’’مسلسل دو فوجی سربراہوں کی ہوس اقتدار عوام کی قوت برداشت سے زیادہ تھی اس لئے عوام کا غصہ اشتعال کی اس حد تک چلا گیا کہ وہ بغاوت کرتے ہوئے دشمن کے ساتھ تعاون پر آمادہ ہو گئے‘ بھٹو اور مجیب الرحمن نے جو کیا ان کے گناہوں کا بوجھ بھی ایوب اور یحییٰ خان پر ہے‘ وہی مقتدر تھے ہر خطرے اور سازش سے نمٹنا ان کی ذمہ داری تھا۔ انہوں نے نہ صرف اپنے ادارے کا استحصال کیا‘ سربراہی کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور انتخابات میں بھی مداخلت اور دھاندلی کو رواج دیا‘ جس سے پورے ملک خصوصاً مشرقی پاکستان میں سیاسی محرومیوں کا احساس شدت اختیار کر گیا‘ وہ خود کو مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے فوجی افسروں کا ’’غلام‘‘ سمجھنے لگے اور ردعمل میں جاہ طلب لیڈروں کے فریب کا شکار ہو گئے۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگ کے نتائج‘ جرنیلوں کی سیاست میں مداخلت نے فوج کے اندر ترقی (پرموشن) کے نظام پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
ہماری فوج کے نوجوان افسروں اور جوانوں کی اہلیت‘ مہارت‘ بہادری اور جانبازی کا اعتراف پوری دنیا میں کیا جاتا ہے‘ حتیٰ کہ دشمن انڈیا او رمغرور امریکہ بھی ہمارے جوانوں کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے لیکن منصوبہ بندی اور اعلیٰ کمان کی سطح پر ہم اعلیٰ معیار کو قائم نہیں رکھ سکے۔ ایوب خان‘ یحییٰ خاں‘ جنرل حمید ‘پرویز مشرف اور ان کے ساتھی جرنیلوں کی منصوبہ بندی اور کارکردگی غیرمعیاری تھی‘ اس وجہ سے ہر میدان میں ناکام رہی‘ ایسے افسروں کی اعلیٰ ترین عہدوں تک رسائی فوج کے پرموشن (ترقی) کے نظام میں خامی کو ظاہر کرتی ہے۔ ملک میں حالیہ سیاسی بے چینی او ربدعنوانی پر اضطراب‘ جمہوریت میں بھی بنیادی اصلاحات کا تقاضا کرتی ہے۔ فوج کی قیادت اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کو اگر خرابیوں سے پاک جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے نفاذ پر صرف کرے تو پاکستان چند برس میں جدید‘ خوشحال اور پرامن ملک بن سکتا ہے لیکن یہ منزل فوج اور عدلیہ کی مؤثر مداخلت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی کیونکہ ریاست کے تمام ادارے کمزور بلکہ مفلوج ہوچکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ دونوں ادارے کس مقصد کے لئے اپنا کام کر سکتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہیں‘ عدلیہ میں قوت نافذہ نہیں اس لئے دونوں آئینی ادارے (فوج اور عدلیہ) مل کر قوم کی مدد کریں تو ملک حقیقی جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے ساتھ چند برس میں خوشی اور خوشحالی کی منزل پا سکتا ہے!
تمہی نے درد دیا ہے‘ تمہی دوا دینا




.
تازہ ترین