• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنی پیاری زندگی بچانے کیلئے اور بقول حکومت پاکستان کے وزراء اور اعلی افسران اور سیاستدانوں کے اپنی قیمتی جان بچانے کیلئے میں صبح، شام بھاگتا رہتا ہوں…دل کے امراض کے ایک ماہر ڈاکٹر نے معائنہ کرنے کے بعد مجھے بتایا ہے کہ موت میرا پیچھا کر رہی ہے، اس لئے مجھے صبح، شام دوڑ لگانی چاہئے، جب تک میں بھاگتا رہوں گا تب تک زندہ رہوں گا، ڈاکٹر، بیوی اورگرل فرینڈ کی بات کوئی عقلمند شخص ٹال نہیں سکتا، میں چونکہ ضرورت سے زیادہ عقلمند ہوں اس لئے میں نے ڈاکٹر کی بات مان لی ہے، میں صبح، شام بھاگتا رہتا ہوں…یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں موت سے تیز نہیں دوڑ سکتا، میں بھاگتا رہتا ہوں، دنیا کے تیز ترین دوڑنے والے کارل لوئس، جوز اوئونس، اور جانسن مرکھپ گئے ہیں، موجودہ دور میں تیز دوڑنے والا اوسان بولٹ بھی ایک روز مرجائے گا، اپنے پیچھے جیتے ہوئے بیشمار میڈل چھوڑ جائے گا، صرف سگریٹ پینے والے ہی نہیں مرتے…جو لوگ سگریٹ نہیں پیتے وہ بھی مرجاتے ہیں…یہ سب کچھ جاننے کے باوجود میں روزانہ صبح، شام دوڑتا بھاگتا رہتا ہوں…میں ڈاکٹر، بیوی اور گرل فرینڈ کی بات ٹال نہیں سکتا۔
بھاگتے دوڑتے عجیب مشاہدے ہوتے ہیں، سوچنے پر مجبور کرنے والے مناظر دکھائی دیتے ہیں، کئی روز سے میں سرکاری دفتروں کے باہر لمبی قطاریں لگی ہوئی دیکھ رہا ہوں…ان قطاروں میں ایک ہی شکل و صورت کے لوگ، زیادہ تر بوڑھے نظر آتے ہیں… اس بات نے مجھے تجسس میں ڈال دیا تھا…میں بھاگتے بھاگتے رک جاتا… کھوج لگانے کی کوشش کرتا، آخر کار مجھے پتہ چل گیا کہ بزرگ قطار میں کیوں کھڑے رہتے ہیں…لیکن ذرا رکئے…قطار میں لگاتار کھڑے رہنے والوں کی داستان سنانے سے پہلے میں آپ کو ایک قصہ سنانا چاہتا ہوں…یہ قصہ زیادہ پرانا نہیں ہے، موہن جوو دڑو کے دور کا قصہ نہیں ہے…حال ہی کے دور کا قصہ ہے، کھپے کھپے دور کا قصہ ہے…لفظ کھپے سندھی زبان کا لفظ ہے…کھپے کے دو معنی ہیں…ایک معنی ہے چاہئے…مثلاً مجھے مرسڈیز گاڑی کھپے، یعنی مجھے مرسڈیز گاڑی چاہئے…مجھے چاند کھپے… یعنی مجھے چاند چاہئے…دوسرے معنی ہے:ختم، ختم کرنا، یا ختم ہونا۔ مثلاً کسی مشروب کا اسٹاک کھپے اس کے بعد دوسرا اسٹاک لے آنا…یعنی مشروب کا اسٹاک ختم ہو، اس کے بعد دوسرا اسٹاک لے آنا…لوٹی ہوئی دولت کھپے، اس کے بعد پھر سے لوٹ مار شروع کریں گے…یعنی لوٹی ہوئی دولت ختم ہو، اس کے بعد پھر لوٹ مار شروع کریں گے…سرکاری خزانہ کھپے، اس کے بعد بیت المال کی پائی پائی ہڑپ کریں گے…یعنی سرکاری خزانہ ختم ہو، اس کے بعد بیت المال کی پائی پائی ہڑپ کریں گے… میرے کہنے کا مطلب ہے کہ جو قصہ میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں وہ ماضی قریب کا قصہ ہے… اب آپ قصہ سنئے اس کے بعد میں آپ کو لمبی قطاروں میں کھڑے کھڑے گر پڑنے والے لوگوں کی رام کہانی سنائوں گا۔
ایک صاحب تیس پینتیس برس مختلف کالجوں میں پڑھانے کے بعد، خیروخوبی کے ساتھ پروفیسر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے…ان کو الوداعی پارٹیاں دی گئیں…ان کی علمی اور تدریسی قابلیت کو خراج تحسین پیش کیا گیا…پھولوں کے گلدستے اور تحائف پیش کئے گئے…اس کے بعد ان کی پنشن کے کاغذات کی تکمیل کا مرحلہ شروع ہوا…زندگی میں اونچ نیچ کا فلسفہ پڑھتے، پڑھاتے اور سمجھاتے ہوئے پروفیسر نے کبھی سوچا تھا کہ پنشن کے کاغذات کی تکمیل اس قدر کٹھن ہوتی ہے…وہ جب بھی اے جی پی آر اور ڈائریکٹر کالجز کے دفتر جاتے تب انہیں پتہ چلتا کہ ان کی فائل فلاں صاحب کے پاس تصدیق کیلئے بھیجی گئی ہے…اور وہ صاحب عمرہ کرنے کیلئے گئے ہوئے ہیں…عمرہ کرنے کے بعد وہ افسر جب واپس آئیں گے تب آپ کی پنشن فائل کی پڑتال ہوگی…کافی عرصہ بعد پروفیسر پھر سے دفتر گئے پتہ چلا کہ وہ افسر مع فیملی کے عمرہ کرنے کے بعد دبئی گئے ہوئے ہیں…اس کے بعد جب بھی پروفیسر دفتر گئے تب پتہ چلا کہ افسرصاحب دبئی میں دبک کر بیٹھ گئے ہیں…اس طرح دن ہفتوں میں بدل گئے…ہفتے مہینوں میں اور مہینے برسوں میں بدل گئے…پروفیسر کی پنشن فائل کلرکوں، آفس سپرنٹنڈوں، سیکشن افسران، ڈپٹی سیکریٹریوں اور جوائنٹ سیکریٹریوں کی ٹیبلوں کے درازوں میں پڑی رہتی… ایک چھوٹے موٹے افسر سے پروفیسر نے سست رفتاری کی وجہ پوچھی… پدی جتنے افسر نے مکروہ مسکراہٹ ہونٹوں پر لاتے ہوئے پروفیسر سے کہا، ’’گاڑی کے پہیوں میں تیل ڈالو…گاڑی تیز تیز دوڑنے لگے گی…اور آپ کی پنشن فائل مکمل کروا کے لے آئے گی۔‘‘
پروفیسر کا ماتھا ٹھنکا…وہ بات کی تہہ تک پہنچ گئے…پروفیسر نے کہا…’’میں تیل کا ایک قطرہ آپ کی گاڑی کی پہیوں میں نہیں ڈالوں گا۔‘‘
مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ پدی نما افسر نے کہا۔ ’’تو پھر پروفیسر صاحب لمبے عرصے تک صبر کریں … دھیرج رکھیں… آپ جیسے پنشنروں کے کاغذات میں وقت لگتا ہے۔‘‘
ایک سال گزر گیا…دوسرا سال گزر گیا تیسرا اور چوتھاسال گزر گیا… پروفیسر کے بچے نہیں تھے…بھائیوں کو پروفیسر نے کچھ نہیں بتایا…بیوی پروفیسر کی ڈھارس بندھواتی رہی اور کہتی رہی کہ اللہ کے یہاں دیر ہے…اندھیر نہیں ہے …گھر کا سامان ایک ایک کرکے بکنے لگا…میاں بیوی نے تین کے بجائے دو وقت کے کھانے پر اکتفا کرنا شروع کردیا…پھر ایسا وقت بھی آیا کہ بیچنے کیلئے گھر میں کچھ باقی نہ رہا…میاں بیوی اب دو کی بجائے ایک وقت کی روکھی سوکھی کھانے لگے…جیسے جیسے حالات سنگین ہوتے گئے ویسے ویسے پروفیسر اپنے ارادے میں مضبوط ہوتے گئے…بیوی سے کہتا، ’’ہم فاقوں سے مرجائیں گے مگر اپنی جائز پنشن کیلئے رشوت نہیں دیں گے۔‘‘
پانچویں برس پروفیسر مع اپنی بیوی کے فاقوں سے مر گئے…معاشرے نے کسی قسم کا کوئی نوٹس نہیں لیا …پروفیسر نے آپ کے نعرے،’ سے نوٹو کرپشن‘ سے برسوں پہلے رشوت دینے سے انکار کردیا تھا اور فاقوں سے مر گیا تھا …پروفیسر کو بعداز مرگ تمغہ دیجئے۔
اب آخر میں ان لوگوں کی کتھا سن لیجئے جو کئی دنوں تک پہروں قطار میں کھڑے رہتے ہیں اور گرپڑتے ہیں…وہ اپنے جائز کام کیلئے قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں اور گنگناتے رہتے ہیں، ’سے نوٹو کرپشن‘اور مرجاتےہیں۔
دوسری طرح کے لوگ قطاروں میں کھڑے نہیں رہتے…وہ سیدھے دفتر میں داخل ہوتے ہیں… اپنے ناجائز کام کیلئے افسران کو رشوت دیتے ہیں اور چہرے پر مسکراہٹ لیکر باہر آتے ہیں اور قطار میں کھڑے ہوئے لوگوں پر ہنستے ہیں۔




.
تازہ ترین