• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مبارک ہو۔ اس سال کا ’’کمال فن انعام‘‘ کشور ناہید کو ملا ہے۔ پچھلے سال یہ انعام فہمیدہ ریاض کو ملا تھا۔ اب یار لوگ ظفر اقبال کو اکسا رہے ہیں، بلکہ بھڑکا رہے ہیں کہ یہ انعام تو آپ کو ملنا چاہئے تھا۔ آپ ان دونوں سے عمر میں بڑے ہیں۔ ظفر اقبال نے محسوس تو بہت کیا ہو گا، لیکن شکر ہے، وہ بھڑکے نہیں۔ اگر وہ بھڑک جائیں تو پھر کوئی بھی ان کے قلم کی کاٹ سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ انہوں نے یہ لکھ کر سب کو معاف کر دیا ہے کہ لکھنے والے کا اصل انعام تو اس کی تخلیقات ہوتی ہیں۔ اگر اس کی تحریروں میں جان ہو گی تو وہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اور یہی اس کا انعام ہے۔ برسوں پہلے انہوں نے یہ شعر کہا تھا
لگا رہے ہیں نئے ذائقوں کے زخم ابھی
نہ طرز فکر، نہ طرز بیاں بناتے ہیں
اب وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے شاعری چھوڑ دی ہے، اور نئے ذائقوں کے زخم لگاتے لگاتے تھوک کے حساب سے ایک ہی قسم کی غزلیں کہنا شروع کر دی ہیں۔ کوئی بھی ادبی رسالہ اٹھا لیجئے، ان کی ایک ہی ردیف قافیے کی پندرہ بیس غزلیں وہاں موجود ہوتی ہیں۔ یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں، انہوں نے خود ہی کہا ہے کہ وہ سب بھرتی کی ہوتی ہیں۔ انہوں نے دوسرے شاعروں کے بارے میں اپنی کاٹ دار رائے لکھ کر اپنے آپ کو متنازع بھی بنا لیا ہے۔ لیکن بہرحال، اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ’’کمال فن انعام‘‘ انہیں بہت پہلے مل جانا چاہئے تھا۔ بلاشبہ، انہوں نے اردو شاعری کو نئی زبان اور نیا طرز بیان دیا ہے۔ اب رہی عمر کی بات، تو ہمارے اور بھی کئی لکھنے والے ایسے ہیں جنہوں نے زندگی بھر ادب کے لئے نمایاں خدمات انجام دی ہیں، لیکن ہر سال اکادمی ادبیات کی جیوری کی نظروں میں وہ نہیں آتے جیسے ڈاکٹر جمیل جالبی ہیں۔ میرا خیال ہے وہ عمر میں ظفر اقبال سے بھی بڑے ہوں گے، اور ان کا کام بھی بہت زیادہ ہے۔ لیکن فیصلہ تو وہ جیوری کرتی ہے جس میں پاکستان کی مختلف زبانوں کے ادیب شامل ہوتے ہیں۔ ہر ایک کی اپنی اپنی رائے ہوتی ہے۔ آخر بحث وتمحیص کے بعد ہی کسی ادیب و شاعر پر اتفاق کیا جاتا ہے۔
معاف کیجئے، کشور ناہید کو مبارک باد دیتے دیتے میں کہاں نکل گیا۔ یہ تو ہم سب مانتے ہیں کہ شاعری ہو یا نثر، یا بذات خود زندگی، کشور ناہید ہر میدان میں روایت شکن ہی نہیں، رسم ورواج شکن بھی ہے۔ شاعری اور نثر دونوں میدانوں میں اس نے الگ راہ نکالی ہے اور نہایت بے باکی کے ساتھ ان مسائل کو اپنا مو ضوع بنایا ہے جن کا ذکر سنتے ہوئے ہمارے سماج کے ٹھیکیداروں کے ماتھے پر بل پڑ جاتے ہیں۔ وہ کسی سے نہیں ڈرتی۔ جو بات لکھنا یا کہنا ہو وہ منہ پر کہہ دیتی ہے۔ عورتوں کے حقوق پر بات کرنا اب ایک کلیشے سا بن گیا ہے۔ لیکن جس وقت کشور نے عورت کے اندرونی جذبات کو شعری جامہ پہنایا اس وقت فہمیدہ ریاض کے سوا اور کوئی اس میدان میں موجود نہیں تھا۔ کشور کی خاصیت یہ بھی ہے کہ اس نے صرف عورتوں کے حقوق کے لئے ہی آواز نہیں اٹھائی بلکہ اپنے ملک اور اپنے ملک سے باہر جہاں بھی بے کس اور بے آسرا انسانوں پر ظلم ہوا اس پر اس نے اپنی نظموں کے ذریعے پُرزور احتجاج کیا۔ دور کیوں جایئے۔ آج شام انسانی المیہ کی علامت بن گیا ہے لیکن ابھی اس ملک کے لاکھوں باشندے اپنا گھر بار چھوڑ کر یورپ کی طرف بھاگنا شروع ہی ہو ئے تھے تو کشور نے اس پر نظم لکھی تھی۔ آیئے اس نظم کے کچھ حصے ہم بھی پڑھ لیں۔ کچھ ہی حصے، پوری نظم نہیں۔ نظم کا عنوان ہے ’’شامی نقل مکانی کرنے والوں کا حزنیہ‘‘
ہمیں شہر بدر کر نے کو کہا تو کسی نے نہیں تھا
گولیوں کی بوچھاڑ میں جب اپنے
اتنی دور ہوئے کہ ہمیں لمبی لمبی قبریں بنا کر
انہیں دفن کرنا پڑا
جب ہماری خیمہ بستیوں کو نذر آتش کیا گیا
جب زمین کا کوئی کونہ ہمیں پناہ دینے سے گریزاں تھا
اے ہمارے وطن شام کی سر زمین
ہمارے آبا، بی بی زینب کی سر زمین
ہمیں تجھے الوداع کہنا پڑا
یہ ہمارے قدموں نے تجھے الوداع کہا ہے
ہماری آنکھیں ابھی تک
تیری انگور کی بیلوں میں ٹھہری ہوئی ہیں
ہماری مسکراہٹ اسی دن واپس آئے گی
جب ہمارے قدم
اے ہمارے وطن، سر زمین شام، شہر دمشق
تو ہمارا استقبال دف بجا کر کرے گا




.
تازہ ترین