• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امیر البحر ایڈمرل ذکاء اللہ نے حال ہی میں کہا کہ گوادر پورٹ خطہ کی کسی دوسری بندرگاہ کیلئے خطرہ نہیں بلکہ سب بندرگاہوں کی تجارت اور تحفظ میں اضافہ کا سبب بنے گی۔ خلیج فارس اور بحیرئہ عرب میں واقع یہ گہری بندرگاہ دُنیا کی تجارت میں اضافہ کرے گی۔ کموڈور سید عبیداللہ کے مطابق پاکستان کا محلِ وقوع ایسا ہے کہ اُسکے مغرب میں خطہ تیل اور گیس کا منبع ہے اور اُسکے مشرق میں سب تیل اور گیس کے ضرورت مند ہیں، جن میں چین، بھارت اور جاپان شامل ہیں، اسلئے پاکستان دونوں خطوں کیلئے ایک پل کا کردار ادا کرتا ہے۔ ہمارے خیال سے گوادر پورے خطے کیلئے سیاسی، اسٹرٹیجک اور بحری راستوں سے تجارت کو محفوظ بنانے اور اطراف کے ممالک کیلئے اقتصادی مواقع فراہم کرتا ہے، یہ بندرگاہ قدرتی ہے اور آس پاس کے ممالک کی تجارتی سرگرمیوں اور ان میں جہازوں کو آمدورفت میں اضافہ کا سبب بنے گا۔ میںنے اِس بندرگاہ کی اہمیت کا ذکر 1979ء میں اٹلی میں قیام کے دوران سناتھا اور پھر اِس کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کیلئے میں پاکستان بھی آیا، اس وقت کسی کو ہوش نہ تھا، 1998ء میں وزیراعظم میاں نواز محمد نواز شریف نے اِسکی اہمیت کو محسوس کیا اور اِسکی منصوبہ بندی کرنے کا فیصلہ کیا تو پورے خلیج فارس میں خطرے کی گھنٹی بجی اور پاکستان کو عدم استحکام کرنے میں کئی ممالک جت گئے۔ بلوچستان کے ایک آئی جی پولس نے بتایا تھا کہ انہوں نے کئی دہشتگرد قریبی ممالک کے جھنڈے لگے ہوئے کئی کشتیوں سے پکڑے ۔، وہ اِس بندرگاہ کو اپنے لئے خطرہ سمجھتی تھی، چنانچہ اِن ممالک کے خدشات کو دور کرنے کیلئے 13اور 14 دسمبر 2016ء کو گوادر میں ایک کانفرنس کا اہتمام کیا گیا، جس میں اسکی اہمیت، چین پاکستان اقتصادی راہداری کے سیاسی، اسٹرٹیجک ، بحری راستوں سے معیشت کو فروغ اور اس بندرگاہ کی حفاظت کے ساتھ ساتھ بحری تجاری راستوں کی حفاظت کو درپیش چیلنجز کا احاطہ کیا گیا۔ اس کانفرنس میں پاکستان ، چین، یورپ سے کئی پروفیسرز، سابق بحریہ کے افسران اور سفراء نے اپنے مقالے پیش کئے۔ اِس موقع پر وزیراعلیٰ بلوچستان ثنا اللہ زہری، پورٹ اینڈ شپنگ کے وزیر میر حاصل بزنجو کے علاوہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات، پاک بحریہ کے سربراہ ا ایڈمرل ذکاء اللہ، چیف آف دی آرمی اسٹاف قمر جاوید باجوہ، پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل سہیل امان، وائس ایڈمرل ہشام بن صدیق، پاکستانی بحری فلیٹ کمانڈر وائس ایڈمرل سید عاف اللہ کے علاوہ آرمی کے بہت سے افسران شریک تھے۔ اِسکے علاوہ چین کے سفیرسن ویڈونگ، چین کی نائب وزیرخارجہ ژائو بیگی، چینی پروفیسر یومنگ بھی کانفرنس میں موجود رہے، 13دسمبر 2016ء کو ایک پُروقار تقریب میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات نے گوادر بندرگاہ اور اِس بندرگاہ سے آنے اور جانے والے جہازوں کی حفاظت کیلئے ایک ٹاسک فورس 88 کا قیام عمل میں لانے کا اعلان کیا اور اِسکے پہلے کمانڈر کموڈور وارث مقرر کئے گئے۔ یہ ٹاسک فورس راڈار، ہیلی کاپٹرز، لڑاکا، فضائی جہازوں، بحری جہازوں، ڈرون اور میزائلوں سے لیس ہوگی جو بندرگاہ اور جہازوں کی حفاظت کو یقینی بنائے گی، پُروقار اور خاموش طبع چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی نے اُن کی تقرری کا اعلامیہ پڑھ کر سنایا۔ اِسکے علاوہ سیمینار میں کئی اہم مقالہ جات پڑھے گئے، ژائو بیگی، پروفیسر یومنگ ایگزیکٹو ڈائریکٹر گلورئیس، سن انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ ڈونگوا یونیورسٹی، پاکستان سے وائس ایڈمرل (ر) آصف ہمایوں، وائس ایڈمرل (ر) افتخار احمد رائو کے علاوہ یورپ سے ایڈریو اسمال ٹرانس اٹلانٹک فیلو اور ایران کے ترکی میں سابق سفیر علی رضا نے شرکت کی۔ مشاہد حسین سید کانفرنس کے آخری روز شامل ہوئے۔ اس موقع پر ایڈمرل ذکاء اللہ نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اِس کانفرنس کے مقررین اور اس میں شرکاء کی کاوشوں کی بدولت نہ صرف کانفرنس کے ذریعے بحریہ ، پک چین اقتصادی راہداری کے بارے میں آگہی بڑھانے کی مقصد پورا ہوا بلکہ آگے بڑھنے کے نئے راستے متعین کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ انہوں خاص طور پر ٹاسک فورس 88کے قیام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک، تجارت اور گوادر کیلئے محفوظ اور موثر سمندری ماحول مہیا کرنے کے پاک بحریہ کے عزم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاک بحریہ ماشاء اللہ مضبوط سے مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ چین کے نائب وزیر ژائوبیگی نے کہا پاک چین اقتصادی راہداری اِس خطہ اور دُنیا کے درمیان ملاپ کا راستہ ہے۔ اس سے چین کا ایک راہداری اور راستہ کا تصور پایۂ تکمیل کو پہنچتا ہے۔ انہوں نے پاک بحریہ کے کردار کو سراہا۔ وزیراعلیٰ ثنا اللہ زہری نے جہاں کانفرنس کا افتتاح کیا وہاں اپنے خطاب میں پاکستان اور چین کی اِس پیش رفت کو انتہائی اہم قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے جغرافیہ اور گوادر کی گہری بندرگاہ قدرت کا انعام ہے۔ چینی پروفیسریومنگ نے کہا کہ سی پیک ایک بہترین اسٹرٹیجک ڈیزائن ہے، اینڈریو اسمال کا کہنا تھا کہ سی پیک اس لئے منفرد ہے کیونکہ یہ خطہ میں طاقت کو توازن کو بحال کردے گا، یہ خطے کے تمام ممالک کی پہنچ میں ہوگا، اسلئے اِس حوالے سے کوئی منفی سوچ نہیں اپنانا چاہئے۔ وائس ایڈمرل (ر) آصف ہمایوں کا کہنا تھا کہ مخالفین کی جانب سے کئی قسم کے خطرات کے پیش نظر پاک بحریہ اور میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی کی صلاحیتوں میں اضافہ وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ ایک ہمہ جہتی نظام دفاعی نظام مرتب کردیا جائے، جو سی پیک اور گوادر پورٹ کو سمندر کی جانب سے ہر قسم کے خطرات سے مکمل تحفظ فراہم کرے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاک بحریہ کو چینی بحریہ کے ساتھ تعاون کے ساتھ گوادر میں ایک مکمل آپریشنل نیول بیس قائم کر دینا چاہئے۔ اِس کانفرنس میں ایران کے سابق سفیر علی رضا بکدیلی نے کہا کہ چاہ بہار کی بندرگاہ گوادر کے مقابلے میں نہیں کھڑی ہے بلکہ پاکستان گوادر کو مکمل کرے ایران اس میں مکمل تعاون کرے گا۔ آخری مقرر افتخار احمد رائو کا کہنا تھا کہ گوادر ون بیلٹ اور ون روڈ کا مرکز ہے، گوادر کے بغیر سی پیک محض شاہراہ قراقرم کی توسیع ہوگی کیونکہ یہ سی پیک کا سمندری پہلو ہی ہے جو اسے عالمی اہمیت کا حامل بناتا ہے، لہٰذا زمین کو سمندر پر فوقیت دینے والی روایتی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ہماری سمندری حدود ایک ایسا صوبہ ہے جو بلوچستان کے طول و عرض سے ذرا سا کم ہے اور وسائل اس سے کہیں زیادہ ہیں، زمین پر فصل اگانے کیلئے بڑی محنت درکار ہوتی ہے، بیج لگایا جاتا ہے، اُسکو پانی فراہم کیا جاتا ہے، پھر اُس پر ہل یا ٹریکٹر چلایا جاتا ہے اور پھر فصل کاٹی جاتی ہے، سمندر میں اللہ نے یہ کام خود ہی کردیا ہے، ضرورت اِس امر کی ہے کہ اللہ کی اس نعمت سے مستفیض ہوا جائے اور اسکیلئے پاک بحریہ کو مضبوط کیا جائے اور اسکی مدد سے بحری دولت، غذا اور وسائل کاحصول ممکن بنا کر پاکستان خوش حال اور اس کے عوام کی غذائی ضروریات بھی پوری کی جائیں۔




.
تازہ ترین