• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عام طور پر پت جھڑ کو اداسی کی علامت سمجھا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے، ہمارے ہاں تو اس موسم میں تقریبات کی بھرمار ہو جاتی ہے، فنکشن، الیکشن اور عشق سب عروج پر ہوتے ہیں مثلاً پشاور میں استغفراللہ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ بار کی صدارت کا الیکشن لڑ رہے ہیں، ویسے تو اس وکیل کا نام لینے سے بھی نیکیاں مل جاتی ہیں مگر پتہ نہیں کہ ان نیکیوں کے ساتھ استغفراللہ ایڈووکیٹ کو ووٹ بھی ملتے ہیں یا نہیں۔ پنجاب میں بلدیاتی اداروں کی سربراہی ’’پل صراط‘‘ کا منظر پیش کررہی ہے۔ ہر ضلع میں قیامت ہے بعض ٹی وی چینل اس الیکشنی کھینچا تانی کو کافی کھینچ رہے ہیں، پچھلے دنوں خبریں چلیں کہ فیصل آباد سے قومی اسمبلی کے رکن میاں فاروق نے محض اس لئے استعفیٰ دے دیا ہے کہ ان کےفرزند کو میئر شپ کا ٹکٹ نہیں دیا گیا، یہ بھی بتایا گیا کہ میاں فاروق کا کہنا ہے کہ انہوں نے 32 سال پہلے سیاست کا آغاز مسلم لیگ ن سے کیا تھا، مجھے ٹی وی کے علاوہ میاں فاروق پر بھی حیرت ہوئی کیونکہ 32سال پہلے مسلم لیگ ن نہیں تھی، ن لیگ نے بہت بعد میں بنی، 32سال پہلے تو مسلم لیگ کا وجود بھی تتر بتر تھا یہ تو 1985ء کے غیر جماعتی الیکشن کے بعد ایک لولی لنگڑی مسلم لیگ بنی تھی پھر اس لولی لنگڑی مسلم لیگ کے وجود سے مسلم لیگ ن نے جنم لیا تھا، جنم کی کہانی بڑی درد ناک ہے، یہ کہانی پھر سہی۔
جب سے دسمبر کا آغاز ہوا ہے، زندگی نے مجھے اور مصروف کردیا ہے دسمبر کے شروع کے دنوں میں صبح پاناما کیس چلتا تھا، اس کیس کی سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ کے باہر سیاستدانوں نے اپنا پریس کلب بنا رکھا تھا، آتے جاتے پریس کانفرنسیں، شام کو پیپلز پارٹی کا تاسیسی پروگرام چل پڑتا تھا، بیچ میں عمران خان کی پریس کانفرنس یا پھر پی آئی ڈی میں چار پانچ چہروں کی پریس کانفرنس ہوتی تھی۔ انہی دنوں میں انڈویجوئل لینڈ کی گلمینہ بلال نے اسلام آباد میں پانچویں نیشنل میڈیا کانفرنس کا اہتمام کررکھا تھا، اس کانفرنس میں صحافتی ضابطہ اخلاق پر بحث جاری رہی، پورے ملک سے آنے والے لوگ اپنی اپنی بولیاں بول کر رخصت ہوئے۔ ضابطۂ اخلاق کتنا درست ہوا، اس کا اندازہ لگانے کیلئے یہ ضروری ہے کہ شام چھ بجے سے لے کر رات بارہ بجے تک پاکستانی ٹی وی چینلز دیکھے جائیں۔
پہلے عشرے میں یہ کام مکمل ہوئے تو دسمبر کے دوسرے عشرے میں میلاد کی پاک محفلیں ہوگئیں، مجھے کئی ایک محافل میں جانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ میرے لئے یہ بات ہمیشہ ہی قابل فخر رہی ہے کہ مجھے تاجدار دوجہاںؐ کی یاد میں منعقدہ محافل میں جانے کا شرف حاصل رہا ہے۔ خیر ان بابرکت محفلوں کے ساتھ ساتھ شادیوں کا موسم بھی عروج پر رہا، اس موسم کو خزاں کا ڈر نہیں ہے، شادیوں کی ان تقریبات میں شرکت کیلئے مجھے کئی مرتبہ اسلام آباد سے لاہور اور پھر لاہور سے فوراً اسلام آباد جانا پڑا، شادیوں کے موسم کی شدومد کا اندازہ اس سے لگایئے کہ میں آج یعنی 23 دسمبر کو پھر لاہور میں ہوں کہ ثمینہ خاور حیات کی بیٹی کی شادی ہے اور بارات کراچی سے بجارانی فیملی سے آرہی ہے۔ ابھی اگلے آٹھ دنوں کی شادیوں کا پروگرام بھی میری گاڑی میں پڑا ہوا ہے۔ ان مصروفیات میں مجھے یہ بھی بھول گیا کہ مجھے پت جھڑ کی چاندنی میں کسی سے ملنا تھا۔
دسمبر کے دوسرے عشرے میں اولڈ راوینز یونین کا الیکشن تھا، مجھے اس نیک مقصد کیلئے بھی چار دن لاہور میں رہنا پڑا۔ دراصل وہاں پہلے دو پارٹیاں تھیں جو آپس میں عہدے بانٹ کر پچھلے پندرہ سال سے ’’جمہوریت‘‘ کی خدمت کررہی تھیں۔ اس مرتبہ راوینز کلب کے نام سے ایک تیسری پارٹی میدان میں اتری اور اس نے الیکشن میں رنگ بھر دیا، اس گروپ کے میاں اشفاق موہلن، الطاف سکھیرا، نغمہ سائرہ، عثمان سعید، ایم اسلم بھٹی اور شعیب چوہدری کے علاوہ پروفیسر انوار تھے، اس گروپ نے مک مکا پالیسی کا خاتمہ کردیا مگر اس کیلئے بڑی جانفشانی سے شیخ منصور الٰہی، فیضان غنی اور دبیر اسلم ساہی نے کام دکھایا۔ میرے ذمے رائو تحسین علی خان اور جنرل راحیل شریف کا ووٹ تھا مگر افسوس کہ دونوں کا اولڈ راوینز میں ووٹ ہی درج نہیں تھا پھر بھی میں نے سردار لطیف کھوسہ، میاں مصباح الرحمٰن اور نوابزادہ غضنفر گل سمیت کئی ووٹ دیئے۔ اس مرتبہ راوینز کا پورا میلہ نظر آیا۔ ہوسکتا ہے اگلی مرتبہ راوینز کلب کا صدارتی امیدوار چوہدری اعتزاز احسن، فیصل صالح حیات، ایس ایم ظفر، ظفراللہ جمالی یا جنرل راحیل شریف میں سے کوئی ایک ہو مگر اب یہ میلہ دو سال بعد لگے گا۔ان چار دنوں میں ضیاء الحق نقشبندی نے میرے لئے ایک اور تقریب کا اہتمام کر ڈالا، جس میں لاہوری کالم نگاروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
جناب الطاف حسن قریشی سے معذرت کہ میں ان کی کتاب کی تقریب میں شریک نہیں ہوسکا۔ ایرانی سفیر سے بھی معذرت کہ میں ان کی شاندار تقریب میں تھوڑے وقت کے لئے جاسکا، اس تقریب کا احوال کسی روز لکھوں گا کہ یہ امت اسلامیہ کے دکھوں کی داستان ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کی رکن قومی اسمبلی محترمہ آسیہ ناصر سے بھی معذرت کہ ان کی طرف سے منعقدہ کرسمس کی تقریب میں تو میں بہت ہی تھوڑے وقت کیلئے گیا۔
پچھلے پندرہ بیس روز میں کوئی بڑا سیاسی جلسہ نہیں ہوسکا۔ جلسوں کا یہ موسم آج سے شروع ہوگا کہ مفاہمت کا بادشاہ آرہاہے۔ اب اس کو ڈاکٹروں نے سفر کی اجازت دے دی ہے۔ آج وہ استقبالی جلسے سے خطاب کریں گے ۔ 25 دسمبر کو عمران خان نے صوابی میں جلسے کا اعلان کر رکھا ہے، 27 دسمبر کو بے نظیر بھٹو کی برسی پر پیپلزپارٹی جلسہ کرے گی، دسمبر کے آخر میں ایم کیو ایم (پاکستان) نے کراچی میں طاقت کا مظاہرہ کرنا ہے۔ سو دسمبر کا آخری عشرہ جلسوں کا ہوگا۔ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کے اجلاس میں ہنگامی صورتحال نظر آتی رہی، ہر طرف سے چور، چور کی صدائیں بلند ہوئیں ایک لڑائی پیپلز پارٹی اور چوہدری نثار علی کی بھی ہورہی ہے۔ سب ایک دوسرے کے کرتوت سامنے لا رہے ہیں۔
اب جب ایک دوسرے کی لوٹ مار کے قصے چھڑے ہوئے ہیں تو ایسے موسم میں ایک پارٹی بڑی خاموشی سے اپنے تنظیمی جلسے کررہی ہے، اس پارٹی کا نام ہے عوامی نیشنل پارٹی۔ پچھلے ہفتے اے این پی نے نوشہرہ میں ایک بڑا جلسہ کیا، اس جلسے میں پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتوں کے لوگ اے این پی میں شامل ہوئے۔ اس جلسے میں مرکزی تقریر ایک خاتون شگفتہ ملک کی تھی، یہ خاتون صوبائی اسمبلی کی سابقہ رکن ہونے کے علاوہ پارٹی کی صوبائی صدر بھی رہی ہیں آج کل اے این پی کی جوائنٹ سیکرٹری ہیں۔ پشاور یونیورسٹی سے ایم اے سیاسیات کرنے والی شگفتہ ملک جلسے میں خدائی خدمتگار باچا خان کا فلسفہ خدمت بیان کررہی تھیں،
جب یہ جوشیلی مقررہ پورے جوبن پر خطابت کے جوہر دکھا رہی تھی تو میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو ایسے لگا جیسے سامنے گلابوں کی پوری فصل ہو، پورے جلسے میں لوگوں نے سرخ ٹوپیاں پہن رکھی تھیں۔
خواتین و حضرات! جلسے ہوتے رہیں گے، سیاست ہوتی رہے گی مگر ان جلسوں میں ایک لمحے کیلئے رک کر سوچئے کہ جس ملک میں ایک سرکاری افسر کے گھر سے کروڑوں روپیہ برآمد ہو اور پھر اسے پلی بارگین کے نام پر کوئی سزا نہ ہو، وہاں کیا ہوسکتا ہے، وہاں کے رہنمائوں کیلئے بڑا سوال ہے کہ سب کچھ ان کی رہنمائی میں ہورہا ہے۔ میرے جیسوں کو تو ایسی صورت میں ویسے ہی بھول جاتا ہے کہ پت جھڑ کی چاندنی میں وہ کہاں ہے جس کے بارے میں محسن نقوی نے کہا تھا کہ؎
میں مثل نقش پا، مرا آغاز دھول دھول
تو چاند کی طرح، تیرا انجام چاندنی

.
تازہ ترین